آج اگر کشمیر میں جدوجہد ہے اور دنیا اس کو مسئلہ کشمیر کے عنوان سے جانتی ہے، تو اس کی وجہ صرف اور صرف سید علی گیلانی اور مجاہدینِ کشمیر ہیں
سید علی گیلانی کشمیر، اور کشمیر سید علی گیلانی ہے۔ تاریخِ عالم میں آزادی کے لیے پُرعزم، غیر متزلزل جدوجہد کرنے والوں میں آپ کا نام سرفہرست ہوگا۔ آپ کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ آپ کو اپنے اصولی مؤقف سے دست بردار کرانے کے لیے بھارت نے ظلم و جبر کے تمام ہتھکنڈے آزما لیے، اپنوں نے دلائل کے ڈھیر لگادیے، لیکن آپ کو کوئی ہلا نہیں سکا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج اگر کشمیر میں جدوجہد ہے اور دنیا اس کو مسئلہ کشمیر کے عنوان سے جانتی ہے، تو اس کی وجہ صرف اور صرف سید علی گیلانی اور مجاہدینِ کشمیر ہیں۔ سید علی گیلانی وقت کے ظالم اور جابر ہندوستان کے خلاف اپنے حق کے لیے بڑی لڑائی لڑرہے ہیں… اور بڑی لڑائی باہمت، جرأت مند، بلند حوصلہ، اور مضبوط ایمان والے ہی لڑسکتے ہیں۔ ہم نے ایک سال قبل سید علی گیلانی سے کشمیر اور اس سے متعلق ایشوز پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا، اس کے بعض مندرجات آج بھی مسئلہ کشمیر، ہندو ذہن اور عالمی ایجنڈے کو سمجھنے کے لیے سید علی گیلانی کی زبانی اہم ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے جنم کے حوالے سے ایک سوال پر سید علی گیلانی نے فرمایا تھا:
’’مسئلہ کشمیر کو جنم دینے میں دیگر عوامل بھی ہیں، لیکن بنیادی طور پر انگریزوں اور ہندوئوں کی ملی بھگت ہی اس کی اصل وجہ ہے، ورنہ 650 رجواڑوں میں سے ریاست جموں وکشمیر کو ایک متنازع علاقہ کیوں قرار دیا گیا! اسی نوعیت کی صورتِ حال جوناگڑھ اور حیدرآباد میں بھی پیش آئی تھی، وہاں پر تقسیم ہند کے اصولوں کو بنیاد بناکر اُن علاقوں کو بھارت میں ضم کردیا گیا، لیکن انہی اصولوں پر جموں وکشمیر میں عمل کرنے سے انکار کردیا گیا۔ چونکہ یہ حصہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے جارہا تھا، اس لیے ہندو قیادت انگریزوں سے مل کر اس مسئلے کو پہلے اقوامِ متحدہ میں لے گئی، وہاں جب اس تنازعے کے حل کے لیے متعدد قراردادیں پاس ہوئیں تو ان پر عمل کرنے میں لیت ولعل سے کام لے کر، دھوکے اور فریب سے وقت گزار کر اس خطے پر اپنا جبری قبضہ قائم کیا گیا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں سید علی گیلانی کا کہنا تھا کہ ’’قیام پاکستان کے فوراً بعد کشمیر میں فوجی مداخلت ہوئی ہوتی تو شاید یہ مسئلہ اُسی وقت حل ہوجاتا، لیکن جنرل گریسی کے انکار نے اس ناسور کو جوں کا توں رکھ کر جموں وکشمیر کی پوری آبادی کو مستقبل کے مصائب اور خون خرابے کی نذر کردیا۔‘‘
میں نے جب پوچھا کہ بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے اور اس سلسلے میں کئی قراردادیںمنظور ہوئیں، لیکن اقوام متحدہ کشمیر کے مسئلے کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکی، اس کا کیا سبب ہے؟
حریت رہنما سید علی گیلانی نے اس پر کہا: ’’کشمیر کا قضیہ خود بھارت اقوامِ متحدہ میں لے گیا، جہاں اس کو بین الاقوامی سطح پر ایک متنازع علاقہ قرار دے کر اس کے حل کے لیے کُل ملاکر 18قراردادیں پاس کی جاچکی ہیں، جن پر پاکستان کے ساتھ ساتھ خود بھارت کے دستخط بھی موجود ہیں۔ لیکن اقوامِ متحدہ چونکہ سپر پاور ممالک کی لونڈی ہے، اس لیے اُس نے کبھی بھی عدل وانصاف اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ بڑی طاقتوں کے اشاروں پر ہی ناچتی رہی۔ کشمیر پر جب بھی کوئی اہم فیصلہ ہونا ہوتا تھا تو بھارت کا دیرینہ ساتھی روس اُس کو ویٹو کرکے اس حل میں رکاوٹ بن جاتا تھا۔ اس طرح 70 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اقوامِ متحدہ اس مسئلے کو یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے خود اس ادارے کی افادیت اور اس کی شبیہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ آج جو پوری دنیا میں طاقتور ممالک کمزور اور بے بس خطوں کو ہڑپ کرنے کے تانے بانے بُن رہے ہیں اور انسانوں خاص کر مسلمانوں کو اس آگ میں ایندھن کے طور پر استعمال کررہے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انصاف کے عالمی ادارے اپنی افادیت کھوچکے ہیں اور ان کی پہچان بڑی طاقتوں کے آلہ کار اور گماشتوں کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
ایک اور سوال میں نے پوچھا کہ جب 1962ء میں چین اور بھارت کی جنگ کے دوران چینی قیادت نے پاکستان کو اس بات پر قائل کیا کہ بھارت کی عسکری طاقت کا بڑا حصّہ چین کی سرحد پرتعینات ہوگیا ہے اور پاکستان کے لیے موقع ہے کہ وہ آگے بڑھے اور عسکری طاقت کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرالے، لیکن کہا جاتا ہے کہ امریکہ اس پیغام سے آگاہ ہوگیا اور جنرل ایوب کو یہ قدم اٹھانے سے باز رہنے کا کہا، اور امریکہ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کروائے گا۔ تو اس پر سید علی گیلانی نے فرمایا تھا کہ ’’1962ء میں چین نے پاکستان سے کیا کہا، پاکستان نے اس پر کیا ردعمل ظاہر کیا، اور امریکہ بہادر کا کیا رول رہا ہے، یہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ جنرل ایوب کو کسی اور پر بھروسا کرنے کے بجائے خود بزور طاقت اپنی ’’شہہ رگ‘‘ چھڑانی چاہیے تھی، اور اگر چین بھی عسکری مدد کی پیشکش کررہا تھا تو اس سے بڑھ کر اور کیا اچھی بات ہوسکتی تھی۔ لیکن ’’شہہ رگ‘‘ کو دشمن کے ظالم اور خونخوار پنجوں میں جکڑ کے رکھ کر امریکہ جیسے بے اعتبار دوست نما دشمن کی چکنی باتوں پر اعتماد کرکے اُس وقت کے پاکستانی حکمرانوں نے یہی ثابت کیا کہ وہ اپنی گردن دشمن کے نرغے میں رکھ کر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس سے تو انہوں نے خود اپنے اس دعوے کی نفی کردی کہ پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔‘‘
جنرل پرویز مشرف اور اُن کے کشمیر سے متعلق نئے مؤقف پر جب پوچھا، تو سید علی گیلانی نے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’جنرل پرویزمشرف جب پہلی بار بھارت تشریف لائے تو ہم اُن سے ملاقات کرنے دہلی گئے، ہم نے اُن کے ماتھے کو بوسہ دیا، کیونکہ انہوں نے اصولی مؤقف اور حقائق کے گھوڑے پر سوار ہوکر جس قد اور جس گرج کے ساتھ بھارت کی سرزمین پر قدم رکھے تھے وہ بھارتی ایوانوں میں ہلچل مچانے کے لیے کافی تھے۔ بھارت کے نیتائوں کے پائوں تلے زمین سرک رہی تھی، کیونکہ پہلی بار کسی پاکستانی حکمران نے بھارت ہی کی سرزمین پر انہیں کھری کھری سنائی تھیں اور کسی مشترکہ اعلامیے کے بغیر ہی وہ رات کے اندھیرے میں یہاں سے کوچ کرگئے۔ کشمیری عوام کو اچھی طرح علم تھا کہ اس صورتِ حال سے اُن کے غموں اور دکھوں کا مداوا نہیں ہوپائے گا اور ان کی شامِِ غم ابھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، بلکہ اس سے بھارت بدحواس ہوکر ظلم وستم کی چکی اور زیادہ تیز کرے گا، لیکن اس کے باوجود انہیں پرویزمشرف کے روپ میں ایک مسیحا نظر آنے لگا۔ اپنے مصائب سے قطع نظر انہوں نے جنرل کے اس دلیرانہ کردار کو بہت سراہا کہ اُس نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صورت حال کو حقائق کی کسوٹی پر رکھ کر برابر کی سطح پر بات کرنے کا اپنا عزم ظاہر کیا۔ لیکن شومئی قسمت، کشمیریوں کی یہ امید بھی دم توڑتی نظر آنے لگی جب نائن الیون کے بعد کی عالمی صورت حال نے پوری دنیا کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا۔ عوامی تحاریک، جائز مطالبات اور آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کے کفن میں لپیٹ کر اس طرح زمین بوس کردیا گیا کہ اب اس مزار پر کسی کو فاتحہ خوانی کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ یوں پرویزمشرف صاحب نے بھی عالمی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے میں ہی عافیت سمجھی اور مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ اور اصولی مؤقف سے ہٹ کر Box Out of حل کی باتیں کرکے بھارتی پالیسی سازوں کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی نادانستہ کوشش کی۔ اگرچہ بھارت نے پھر بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی، لیکن کشمیریوں کی جدوجہد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔‘‘
سید علی گیلانی کی ملاقات نئی دہلی میں جنرل پرویزمشرف سے ہوئی تھی، اس ملاقات کے پس منظر میں کیے گئے سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا کہ ’’پرویزمشرف نے مجھ سے کہا ’’بھارت بڑا ملک ہے، ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے، جوہری طاقت کا مالک ہے اور مغربی ممالک بھی اس کی حمایت اور پشت پر ہیں۔ آپ لوگوں نے بھی قربانیاں دی ہیں، ہم نے بھی تین جنگیں لڑی ہیں، مگر ابھی تک کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اب ہمیں مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کرنا ہے‘‘۔ اُن کے ارشادات سن کر میں نے اُن سے کہا کہ ’’ہمارا مؤقف اور Stand مبنی بر صداقت ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ پر بھروسا اور اعتماد کرکے اپنی جدوجہد کو جاری وساری رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری ضرور مدد کرے گا۔ ہمیں کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ ان کا جواب تھا ’’میرے ساتھ بش اور ٹونی بلیئر ہے‘‘۔ اس کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے سوائے اس کے کہ
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟‘‘۔
سید علی گیلانی کہتے ہیں ’’کشمیری قوم کی کمزوریاں اپنی جگہ، لیکن مجموعی طور پر کسی بھی حال میں یہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ رہ کر ہم اپنی آنے والی نسل کا مستقبل تاریک سے تاریک تر بنانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہم بحیثیت مسلمان بھارت کے کسی گوشے میں تو دور، خود اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ تحریک محض تحریکِ آزادی ہی نہیں، بلکہ ہماری بقاء اور وجود کی تحریک ہے۔ ایک باشعور انسان خاص کر مسلمان اغیار کے ہاتھوں اپنے ملّی تشخص کو پامال ہوتا کیسے دیکھ سکتا ہے! یہی وجہ ہے کہ ہر ظلم، ہر ستم، ہر شہادت اور ہر زندان ہمارے عزائم اور حوصلوں کو اور زیادہ مضبوط کرکے ہمیں جدوجہد جاری رکھنے کے لیے آمادہ کردیتا ہے۔‘‘
یہ ہیں سید علی گیلانی، اور یہ ہے اُن کا یقین کہ منزل صرف جدوجہد کرنے والوں کو ملتی ہے۔ وقت اور حالات کے دبائو میں فیصلے کرنے والے ’’ہیجڑوں‘‘کو منزل بھی نہیں ملتی اور ذلت بھی ان کے حصے میں آتی ہے، اور پرویزمشرف کے حصے میں ذلت ہی آئی۔ آج بھی کسی نے کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد کو اپنی کم ہمتی اور بیرونی دبائو پر فروخت کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی ذلیل وخوار ہی ہوگا اور کشمیری اپنی آزادی تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہی سید علی گیلانی کا عزم، اور کشمیریوں کی لازوال جدوجہد کا تقاضا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’مسلمان جس کا نام ہے، وہ دریا کے بہائو پر بہنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اُس راستے پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہِ راست ہے، صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رَو دریا کی رفتار سے لڑے گا، اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا۔ کامیابی و ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی۔ وہ ہر اُس نقصان کو گوارا کرے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کے اوپر بہنے والے کافروں اور منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔‘‘ اور سید علی گیلانی کی پوری زندگی مولانامودودیؒ کے اس کہے کی تفسیر ہے۔ اللہ رب العزت سید علی گیلانی کا سایہ کشمیریوں پر دیر تک قائم رکھے اور انہیں صحت عطا فرمائے۔
امریکہ ناقابل اعتماد دوست
۔’’دنیا میں امریکہ سے زیادہ ناقابلِ اعتماد دوست شاید ہی کوئی ہوگا… واقعہ یہ ہے کہ امریکہ ہی کی وجہ سے پاکستان نے روس کی دشمنی مول لی۔ اگر ہم سیٹو (SEATO) اور سینٹو (CENTO) میں امریکہ کے ساتھ شامل نہ ہوتے تو شاید روس ہمارا اِس قدر دشمن نہ بنتا کہ بار بار ویٹو استعمال کرکے کشمیر کے مسئلے کو اتنا الجھا دیتا۔ پاکستان نے امریکہ کی دوستی میں اِس حد تک نقصان اٹھایا لیکن جب بھی ہمارا معاملہ آیا تو اُس وقت اُس نے کھلم کھلا ہمارے ساتھ بے وفائی کی۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہم اگر امریکہ پر اعتماد کریں اور اِس امید پر بیٹھے رہیں کہ وہ اِسے حل کرائے، تو وہ اِسے ایسے طریقے سے حل کرائے گا کہ کشمیر کو حقِ خود ارادیت تو درکنار، خود پاکستان کی آزادی و خودمختاری بھی باقی نہیں رہے گی۔ ہمارے نزدیک اِس سے بڑی کوئی حماقت نہیں ہے کہ امریکہ پر اعتماد کیا جائے اور اس کے ذریعے سے اِس مسئلے کو حل کرانے کی امید باندھی جائے۔‘‘
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ 24 نومبر 1965ء۔ خطاب مظفرآباد۔ بحوالہ ہفت روزہ ’’آئین‘‘۔ دسمبر 1965ء)