کیا ہندوستان آزاد کشمیر پر حملہ کرنے والا ہے؟۔
نریندر مودی نے آخرِکار آرٹیکل 370 کی بلی تھیلے سے باہر نکال دی، یا یوں کہیے کہ اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی پر امیت شاہ نے کہا تھا کہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘۔ قومی سلامتی کے لیے مودی جی کے مشیر اجیت دووال نے عالمی سیاست کے تناظر میں اس نعرے کو مواقع اور امکانات کی نئی جہت دیتے ہوئے کہنا شروع کردیا کہ ’’مودی کے ساتھ ٹرمپ بھی ہے، اور اب تو سب کچھ ممکن ہے‘‘۔ عمران خان اب بھی امریکہ سے امید لگائے بیٹھے ہیں، لیکن مودی نے بالکل وہی حکمتِ عملی اختیار کی ہے جو صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے لیے اپنائی تھی، یعنی جو کرنا ہے کرگزرو، لوگ رو پیٹ کر کچھ عرصے بعد خود ہی چپ ہوجائیں گے۔
سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کی قرارداد امریکی کانگریس نے 1995ء میں منظور کی تھی، لیکن صدر بل کلنٹن نے ممکنہ فلسطینی ردعمل کے پیش نظر صدارتی استثنیٰ استعمال کرتے ہوئے اس فیصلے پر عمل درآمد کو چھ ماہ کے لیے مؤخر کردیا۔ مدت کی تکمیل پر اگلے چھ ماہ کے لیے مزید استثنیٰ جاری کردیا، اور یہ سلسلہ کلنٹن عہدِ صدارت کے اختتام تک قائم رہا۔ ان کے بعد آنے والے صدر بش اور صدر اوباما بھی استثنیٰ پر استثنیٰ لے کر معاملے کو ٹالتے رہے، لیکن مئی 2018ء میں صدر ٹرمپ نے ساری دنیا کی جانب سے شدید ردعمل کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کردیا۔ اسی پس منظر میں ہم ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کا جائزہ لیتے ہیں جس سے مودی و ٹرمپ کی حکمت عملی میں مماثلت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے21 اپریل 1948ء کو جو قرارداد نمبر 47 منظور کی، اس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تین مراحل تجویز کیے گئے تھے۔ یعنی پہلے کشمیر سے ’’پاکستانی قبائلیوں‘‘ کا انخلا، دوسرے مرحلے میں وادی سے ہندوستانی فوج کی واپسی، جس کے بعد جموں و کشمیر میں سرگرم تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک نگراں حکومت کا قیام، جو ریفرنڈم کے ذریعے معلوم کرے گی کہ کشمیری پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
اس قرارداد کی تشریح ہندوستان نے کچھ اس انداز میں کی کہ پاکستان کی دراندازی کے جواب میں مزید فوجی دستے کشمیر بھیج دیئے اور ریاستی پارلیمان قائم کرکے عبوری حکومت تشکیل دے دی۔ قیامِ ہند وپاکستان کے وقت کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ نے جس دستاویزِ وابستگی یا Instrument of Accessionپر دستخط کیے تھے اُس کے مطابق کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اور ریاست پر ہندوستان کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل درآمد کا تاثر دینے کے لیے دستاویز وابستگی کے حوالے سے ایک صدارتی حکم کے ذریعے ہندوستانی آئین کے باب 21 میں دفعہ 370 کا اندراج ہوا، جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت اور اس کی اسمبلی کو مکمل خودمختاری عطا کی گئی۔
اسی کے ساتھ جموں کے پنڈتوں نے سارے دیش کے ہندوئوں کوکشمیر آنے کی دعوت دی تاکہ ریفرنڈم سے پہلے یہاں ہندوئوں کے تناسب کو بڑھایا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے باہر سے کشمیر آنے والوں کو ریاستی ملازمتیں اور سیاحتی صنعت میں سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش مراعات دی گئیں۔ ان اقدامات پر کشمیریوں کی جانب سے شدید مزاحمت ہوئی اور کئی جگہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوستانی فوج نے کشمیریوں کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا اور ہزاروں کشمیری مارے گئے۔ لیکن بہیمانہ تشدد کشمیریوں کو دبانے میں ناکام رہا۔کشمیر کی شناخت برقرار رکھنے کے لیے تحریک نہ صرف جاری رہی بلکہ اس میں مزید شدت آگئی، جس کی وجہ سے پنڈتوں نے ’’کشمیر چلو‘‘ تحریک معطل کردی۔ حالات کا رخ دیکھتے ہوئے وزیراعظم نہرو کی سفارش پر ہندوستان کے صدر راجندرا پرشاد نے 14 مئی 1954ء کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 میں ترمیم کرکے ایک ذیلی شق دفعہ 35 اے کے اندراج کا حکم دیا، جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو مزید مستحکم کردیاگیا۔ دفعہ 35اے کی رو سے صرف وہی لوگ ریاست کشمیر میں سرکاری ملازمت، غیر منقولہ جائداد کی خرید و فروخت، مستقل رہائش، ریاستی اسمبلیوں کی رکنیت اور تعلیمی وظائف و گرانٹ کے حق دار ٹھیرے جن کی کئی نسلیں یہاں آباد ہیں، یا یوں کہیے کہ صرف جدی پشتی کشمیری ہی ریاست کے قانونی شہری ہیں۔ اس ترمیم کے ذریعے ’’کشمیر کشمیریوں کا‘‘ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وادی کی مذہبی، لسانی و عمرانی شناخت کو محفوظ کردیا گیا۔
یہ شق پہلے دن سے ہندوستانی قوم پرستوں کو کھٹک رہی ہے، اور کئی مرتبہ اسے منسوخ کرانے کی کوشش کی گئی، لیکن ہر بار کشمیریوں کے شدید ردعمل کی بنا پر اس کی تنسیخ معطل کردی گئی۔ تاہم حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد سے ہی ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ کے نعرے لگاتے قوم پرست 35-Aکے خاتمے کے لیے بے حد پُرعزم نظر آرہے تھے۔
اس کے برعکس وزیراعظم عمران خان کو دورۂ امریکہ کی دعوت ملنے کے بعد سے اسلام آباد پر چہرہ ملائم بنانے یا ملک کا Soft Image ابھارنے کا بھوت سوار تھا۔ اس ضمن میں ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ سلامتی کونسل کی نشست کے لیے ہندوستان کی حمایت، پاکستان کی فضائی حدود کو ہندوستانی طیاروں کے لیے کھولنے کے علاوہ حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کاری کے پرچے کاٹ کر دہلی کو اپنے اخلاص کا یقین دلایا گیا۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران عمران خان نے پاک بھارت تنازعے کے حل کے لیے ثالثی کی درخواست کی اور بہت لجاجت سے عرض کیا کہ اگر امریکی صدر کی کوششوں سے دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی کم ہوجائے تو خطے کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگ صدر ٹرمپ کو دعائیں دیں گے۔ امریکی صدر ثالثی پر فوراً رضامند ہوگئے اور فرمایا کہ دو ہفتے پہلے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی کشمیر کے مسئلے پر ان سے ثالثی کے لیے کہا تھا اور وہ اس خدمت کے لیے تیار ہیں۔ دلچسپ بات کہ ابھی ٹرمپ عمران ملاقات ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان شری رویش کمار نے اپنے ایک ٹویٹ میں نریندرمودی کی جانب سے ثالثی کی سختی سے تردید کی۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے ثالثی کی کوئی درخواست نہیں کی۔ دوسرے روز لوک سبھا (ہندوستانی پارلیمان) میں بھارتی وزیر خارجہ شری جے شنکر نے بھی مودی جی کی جانب سے ثالثی کی درخواست کی غیر مبہم تردیدکردی۔
پاکستان کی جانب سے مہرومحبت کے ان اشاروں سے ظالم محبوب کا دل تو کیا پسیجتا، دِلّی نے خاموشی کے ساتھ مزید 10 ہزار فوجی وادی کی طرف روانہ کردیئے۔ دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے فوج کے بجائے اضافی سپاہیوں کو پولیس کہا گیا اور اس کا اعلان بھی وزارتِ دفاع کے بجائے وزارتِ داخلہ میں کشمیر امور کے ایڈیشنل سیکریٹری شری گنیش کمار نے کیا۔ انھوں نے دلی میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے گورنر کی درخواست پر Central Armed Police Forces (CAPF)کی 100 کمپنیاں فوری طور پر مقبوضہ کشمیر بھیجی جارہی ہیں۔ صحافیوں کے سوال پر وضاحت کرتے ہوئے گنیش کمار نے بتایا کہ CAPF کی ہر کمپنی 100سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں 4 لاکھ مسلح افواج، 65 ہزار Central Reserve Police Force (CPRF) اور ساڑھے 3 لاکھ کے قریب CAPF کے مسلح جوان تعینات ہیں، جن میں 10ہزارکا اضافہ کیا جارہا ہے۔
تازہ دم فوجی کمک کے آتے ہی مقبوضہ کشمیر کے تمام شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر بھارتی فوج نے اضافی چوکیاں قائم کرلیں۔ گھر گھر تلاشی، اس دوران خواتین سے بدتمیزی، احتجاج پر پیلٹ گنوں کے بے دریغ استعمال اور نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ میں تیزی آگئی۔ اسی کے ساتھ آزاد کشمیر کی طرف اندھادھند فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا، جس کی وجہ سے بچوں سمیت کئی لوگ شہید ہوئے، جبکہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔ گزشتہ ہفتے آئی ایس پی آر نے الزام لگایا کہ ہندوستانی فوج کنٹرول لائن پر آباد پاکستانی شہریوں کے خلاف کلسٹر بم استعمال کررہی ہے۔
اس پیش بندی کے ساتھ 2 اگست کو کشمیر میں تعینات ہندوستانی فوج کی چنار کورکے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل کے جی ایس ڈھلوں نے متوقع دہشت گرد حملے کے پیشِ نظر وادی سے تمام سیاحوں کو چلے جانے کا حکم دے دیا۔ سری نگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب نے کہا کہ دہشت گرد بہت بڑی کارروائی کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ انھوں نے امرناتھ یاترا کی تقریبات کو فوری طور پرختم کرکے تمام زائرین کو بھی کشمیر سے نکل جانے کو کہا۔ زائرین کی سہولت کے لیے ہندوستانی فوج نے پہلگام اننت ناگ سے ہندوستان کے لیے خصوصی بسیں چلانے کا بھی اعلان کیا۔
سری نگر سے 140کلومیٹر دور اور سطح سمندر سے 13000فٹ بلندی پر کوہ ہمالیہ کے غار میں واقع امرناتھ مندر ہندوئوں کے 18مقدس ترین مقامات یا مہا شکتی پیڑھا میں سے ایک ہے۔ عبادت و زیارت کے لیے ہندوستان کے علاوہ نیپال سے آنے والے لاکھوں زائرین45 دن یہاں گزارتے ہیں۔ سخت سے سخت حالات میں بھی امرناتھ یاترا کبھی منسوخ یا معطل نہیں کی گئی۔
ان غیر معمولی اقدامات پر حریت پسندوں کے ساتھ ہندوستان کے حامیوں کو بھی تشویش ہوئی اور نیشنل کانفرنس کے ایک وفد نے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں 3 اگست کو گورنر ملک سے ملاقات کی، جس میں ملک صاحب نے بڑی صراحت سے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کسی قسم کی آئینی تبدیلی کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ گورنر ملک کاکہنا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں نے امرناتھ یاترا اور وادی کے دوسرے اہم علاقوں پر فدائی حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، چنانچہ حفظ ماتقدم کے طور پر ’پولیس‘ کی اضافی نفری طلب کی گئی ہے اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے پیشِ نظر امرناتھ یاترا کی تقریبات کو قبل ازوقت ختم کرکے زائرین اور دوسرے سیاحوں کو کشمیر سے چلے جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ غیر معمولی عسکری نقل و حرکت کے دفاع میں یہ بھی کہا گیا کہ اگست کے دوران وادی میں کشیدگی عام طور سے بڑھ جاتی ہے۔ 14 اگست کو کشمیری پاکستان کا یوم آزادی بہت شان و شوکت سے مناتے ہیں جس کے دوسرے دن ہندوستان کے یوم آزادی پر یومِ سیاہ مزید جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر سال ہی ان دنوں اضافی فوجی دستے ساری وادی میں تعینات کیے جاتے ہیں۔
تاہم کشمیری قیادت گورنر صاحب کی اس یقین دہانی پر مطمئن نہ ہوئی، اور محبوبہ مفتی نے وفاقی حکومت کے غیر ضروری اقدامات کو پراسرار قرار دیتے ہوئے دلی سے وضاحت کا مطالبہ کیا۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے 14 اور 15 اگست کو بھارتی فوج کی جانب سے شدید ترین کریک ڈائون کا خدشہ ظاہر کیا۔
اس ماہ کے آغاز سے وادی میں عسکری نقل و حرکت کے ساتھ دہلی غیر معمولی سرگرمیوں کا مرکز بنارہا۔ 4 اگست کو ہفتہ وار تعطیل کے باوجود قومی سلامتی سے متعلق ایک اہم اجلاس وزیر داخلہ امیت شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں قومی سلامتی کے لیے وزیراعظم کے مشیر اجیت دووال، وفاقی انٹیلی جنس کے ڈی جی اروند کمار، را کے سربراہ سمنت گِل اور دوسرے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ رات کو دیر تک جاری رہنے والی اس نشست کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ جب صحافیوں نے اجیت دووال سے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں دریافت کیا تو اُن کے جواب دینے سے پہلے ہی وزیر داخلہ شاہ نے کہا کہ یہ ساری سفارشات کل صبح یعنی پیر کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔ اسی دوران شری گنیش کمار نے مزید 2500 بھارتی فو جیوں کی فوری کشمیر روانگی کا انکشاف کیا۔ یہ 100 جوانوں کی 100 کمپنیوں کے علاوہ ہے جن کی تعیناتی 2 اگست کو مکمل ہوچکی تھی۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں خوف و ہراس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ حریت کانفرنس کے ساتھ ہندوستان کے حامی رہنمائوں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو ان کے گھروں پر نظربند کردیا گیا۔ ابتدا میں کہا گیا کہ متوقع دہشت گرد حملے کے پیشِ نظر یہ رہنما حفاظتی حراست میں لیے گئے ہیں، لیکن 5 اگست کو ان دونوں کو تحفظ امن عامہ کے تحت گرفتار کرلیاگیا، اور ساتھ ہی پیپلز کانگریس کے سجاد لون اور کانگریس کے عثمان ماجد بھی دھر لیے گئے۔ اسکول و کالج تو پہلے ہی بند تھے، 4 اگست سے ساری وادی میں کرفیو لگادیا گیا۔ گرفتاری سے پہلے محبوبہ مفتی نے سری نگر میں ایک بہت بڑے مشعل بردار جلوس کی قیادت کی۔ جلوس کے شرکا نے کشمیر کی خودمختاری اور آئین کی شق 35-Aکے حق میں نعرے لگائے۔
عسکری تیاریوں سے یہ ڈر تو بڑا واضح تھا کہ دہلی آئینی تبدیلی کا فیصلہ کرچکا ہے، لیکن جس سرعت سے یہ کام ہوا اس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے اسرائیل کے مشورے اور مدد سے ایک خوفناک حملے کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کُشی کی تیاری مکمل کرلی ہے اور 14 یا 15 اگست کو کشمیریوں کے روایتی مظاہروں کو کچلنے کی آڑ میں یہ حملہ متوقع ہے۔ تیاریوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ 14 اگست کو یوم آزادی کے ساتھ کشمیر میں خون کی ہولی سے بڑی کارروائی کا آغاز ہوگا جس کے بعد ہنگامے اور کرفیو کی آڑ میں 35-Aسے بھی جان چھڑالی جائے گی۔
لیکن 5 اگست کی صبح وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیا سبھا (سینیٹ) میں جموں و کشمیر کی تنظیمِ نو کا بل پیش کردیا اور اس پر بحث مکمل ہونے سے پہلے ہی صدر رام ناتھ کووند نے جموں و کشمیر حکومت کی ’’رضامندی‘‘ سے صدارتی آرڈیننس جاری کرکے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو بیک جنبش قلم کالعدم قرار دے دیا۔
نئے بندوبست کے تحت جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کے اختتام کے ساتھ ہی اسے دو حصوں یعنی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر اور لداخ دونوں کو ہندوستانی یونین کا حصہ بنادیا گیا۔ جموں و کشمیر میں اپنی قانون ساز اسمبلی بھی ہوگی جبکہ لداخ براہِ راست وفاق کا حصہ ہوگا۔
اسی کے ساتھ ہندوستانی ذرائع ابلاغ خاص طور سے سوشل میڈیا پر زبردست پروپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ کشمیر رقبے کے اعتبار سے ہندوستان کی سب سے بڑی Territory ہے جس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ یہ اعزاز اس وقت صرف دہلی اور پانڈے چری کو حاصل ہے۔
ممتاز صحافی منیش کمار نے وائس آف امریکہ پر کہا کہ 35-Aکی پابندیوں کی وجہ سے کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ بند تھا جس کی وجہ سے ساری وادی غربت کا شکار ہے اورکاروبار کے مواقع محدود ہیں۔ ملکی سیاست و اقتداراور تمام وسائل پر بھی چند خاندانوں کا قبضہ ہے، لیکن اب یہاں ترقی کے دروازے چوپٹ کھل جائیں گے اور ساری دنیا سے سرمایہ کار کشمیر آئیں گے جہاں سیاحت کے میدان میں لامحدود مواقع موجود ہیں۔ اس سرمایہ کاری سے نئے کاروبار اور روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے جس سے وادی میں خوشحالی آئے گی۔ امریکہ کے دامادِ اول جیررڈ کشنر نے 25 جون کو بحرین میں ہونے والی عظیم الشان امن کانفرنس کے موقع پر خوشحالی کا ایسا ہی منصوبہ فلسطینیوں کو پیش کیا تھا۔ انھوں نے امریکہ، عرب اور اسرائیلی تاجروں کے تعاون سے فلسطینی علاقوں میں زبردست معاشی سرگرمی کی پیشکش کی تھی۔ انھوں نے چارٹ اور گراف کی مدد سے ثابت کیا کہ کاروبار کے ان نئے مواقع سے صرف چند برسوں کے دوران غزہ اور غربِ اردن میں دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ لیکن فلسطینیوں نے آزادی و استقلال کی فاقہ کشی کو غلامی کی شکم پروری پر ترجیح دیتے ہوئے اس منصوبے کو جسے Deal of Centuryکا نام دیا گیا تھا، یکسر مسترد کردیا۔
بھارتی فوج نے پوری وادی کو جس بری طرح ظلم کے شکنجے میں کسا ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے نہتے کشمیریوں کی جانب سے کسی بڑے ردعمل کی توقع نہیں، لیکن سید علی گیلانی نے 14 اگست کو یوم پاکستان کے موقع پر ساری وادی میں پاکستانی پرچم لہرانے کے ساتھ 370 کی منسوخی کے خلاف بھرپور مہم چلانے کا اعلان کیا ہے، جس میں حریت کانفرنس کے ساتھ انھیں ہندوستان نواز رہنمائوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ نظربندی کے دوران اخباری کانفرنس سے مواصلاتی خطاب میں عمر عبداللہ نے بھارتی حکومت کو متنبہ کیا کہ آرٹیکل 370 سے چھیڑ خانی مودی سرکار کو مہنگی پڑے گی۔ محبوبہ مفتی بول اٹھیں کہ 1947ء میں دو قومی نظریہ مسترد کرکے کشمیری قیادت نے ہندوستان سے الحاق کا جو فیصلہ کیا تھا وہ آج غلط ثابت ہوا۔
پاکستانی سرحد کے قریب بھارتی فوج کے جارحانہ عزائم کو دیکھ کر بعض عسکری تجزیہ نگار یہ خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ ہندوستانی فوج زبردست حملہ کرکے آزاد کشمیر میں فوجی دستے داخل کرنے کی کوشش کرے گی۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان خوفناک جنگ کے نتیجے میں ساری دنیا میں بے چینی پھیلے گی اور اقوامِ عالم پر دبائو بڑھے گا۔ عمران ٹرمپ چوٹی ملاقات میں ثالثی کی شرلی پہلے ہی چھوڑی جاچکی ہے۔ خدانخواستہ اگر ہندوستان سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوگیا تو امریکی صدر پاکستان کو دبائو میں لے کر کشمیر کے لیے اپنی مرضی کا حل مسلط کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.com
پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔