کشمیر میں بھارتی جارحیت اور اقوام متحدہ کی بے حسی و ناکامی

بھارت کی بی جے پی حکومت نے انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے علاقے کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کردیا ہے، اور مقبوضہ کشمیر کو نیم خودمختار ریاست کی حیثیت دینے سے متعلق بھارتی آئین کی دفعات 370 اور -35 اے کو بیک جنبش قلم موقوف کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا وفاقی علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں باقاعدہ صدارتی فرمان بھی بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے جاری کردیا ہے جس کے مطابق بھارت کے زیر تسلط کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرکے وفاق کے زیرانتظام علاقے کی حیثیت دے دی گئی ہے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ لداخ کو وادی جموں و کشمیر سے الگ کرکے وفاق کے زیرانتظام علاقہ بنایا گیا ہے جس کی قانون ساز اسمبلی نہیں ہوگی، جب کہ وادیٔ جموں و کشمیر بھی اب ریاست نہیں، وفاق کے زیرانتظام علاقہ ہی ہوگی، تاہم اس کی اپنی ایک قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت بھارت میں ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھا، اس کے تحت ریاست کا اپنا آئین تھا اور اسے خصوصی نیم خودمختار حیثیت حاصل تھی۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاع، مالیات اور خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر جموں و کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں ہوسکتا تھا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 ’’اے‘‘ اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو 1954ء کے صدارتی حکم نامے کے تحت آئین میں شامل کیا گیا، جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا تھا۔ اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہوسکتا تھا۔ آرٹیکل 35 اے کے تحت غیر کشمیری سے شادی کرنے والی خواتین جائداد کے حقوق سے محروم رہتی تھیں، جب کہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا، آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی تھی۔ آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کے حوالے سے کسی قسم کی قانون سازی کے لیے ریاست کی منظوری لینا پڑتی تھی، اور ریاست کی منظوری کے بعد قانون بن جاتا تھا۔ آرٹیکل 370 کی وجہ سے کشمیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی ہندوستانی شہریت مل جاتی تھی۔ اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کے ترنگے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں تھی، اور یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کا حکم قابلِ عمل نہیں ہوتا تھا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا تھا۔ لیکن اب بھارتی پارلیمنٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ مقبوضہ کشمیر اپنا جھنڈا استعمال کرسکے گا یا نہیں۔ اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر کشمیری زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں اقلیتی ہندوئوں اور سکھوں کو 16 فیصد ریزرویشن نہیں ملتا تھا۔ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر میں خواتین کے حوالے سے شرعی قانون نافذ تھا، جب کہ پنچایت کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کی مدت چھ سال ہوتی تھی، جب کہ ہندوستان کی ریاستوں کی پارلیمنٹ کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملات میں زیادہ آزادی نہیں تھی اور بہت محدود دائرے میں قانون بناسکتی تھی۔ اس خصوصی قانون کے خاتمے کے بعد اب بھارت بھر کے رہائشی مقبوضہ کشمیر میں جائداد خرید کر مقبوضہ وادی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر سکیں گے۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اب بڑی تعداد میں ہندوستانی کشمیر کا رخ کریں گے اور یہاں رہائش اختیار کریں گے جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل ہو جائے گا۔
بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم مودی کی حکومت کے تازہ اقدام نے خطے کی حیثیت کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ کشمیر اب ایک متنازع علاقہ نہیں بلکہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بھارتی ریاست کا ایک باقاعدہ حصہ قرار دے دیا گیا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ آج بھی اقوام متحدہ کے تصفیہ طلب امور سے متعلق ایجنڈے کا حصہ، ستّر برس پرانا اور قدیم ترین حل طلب تنازع ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان اس مسئلے میں براہِ راست فریق اور کشمیری مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی میں عالمی سطح پر ان کا وکیل ہے۔ مگر اب انتہائی نازک صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے جو یقینا اقوام متحدہ کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے، جس نے اس مسئلے کو رائے شماری کے ذریعے حل کروانے اور کشمیر کے عوام کو حقِ خود اختیاری دلوانے کی ذمہ داری قبول کی تھی مگر 70 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ ادارہ اپنی یہ ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے نہتے اور معصوم کشمیری عوام پر ہر طرح کے مظالم کے باوجود اس ادارے نے سوائے زبانی جمع خرچ کے کسی قسم کا معمولی اقدام تک نہیں کیا۔ عالمی قوانین کی کھلے بندوں دھجیاں بکھیرتے ہوئے کشمیر کے متنازع علاقے کی حیثیت میں اساسی نوعیت کی تبدیلیاں کرنے والے حالیہ اقدام پر بھی اقوام متحدہ کا عملی کردار ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ والا ہی ہے، اور ایک بار پھر زبانی جمع خرچ اور اظہارِ تشویش کے ملبے تلے پورے معاملے کو دباکر وقت گزاری کی کوشش کی جارہی ہے۔
بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے اور پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دینے کے اس اقدام کے بعد بھی کسی ٹھوس، مؤثر اور فیصلہ کن اقدام کے بجائے عالمی امن کے ٹھیکیدار اقوام متحدہ نام کے اس ادارے نے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے پر محض زبانی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نیویارک میں اپنے ہیڈ کوارٹرز میں ذرائع ابلاغ کو اس بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے ادارے کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ عالمی ادارے کو کشیدگی میں اضافے پر تشویش ہے۔ جب ترجمان سے علاقائی بحران کے خاتمے کے لیے سیکریٹری جنرل کے کردار سے متعلق سوال کیا گیا تو اس پر انہوں نے کہا کہ اس بارے میں سیکریٹری جنرل نے اپنا مؤقف پہلے بھی کئی بار دہرایا ہے اور وہ اپنے مؤقف پر اب بھی قائم ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور حل کرنے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی رضامندی سے سیکریٹری جنرل آفس اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اقوام متحدہ کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ کے بارے میں بھی علم ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے لیے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے گروپ نے لائن آف کنٹرول پر فوجی سرگرمیوں میں اضافے کا مشاہدہ کیا ہے۔ عالمی ادارہ تمام فریقوں سے ضبط و تحمل کی اپیل کرتا ہے۔
دیکھا آپ نے، کس خوبصورتی سے سارے معاملے پر تشویش کی مٹی ڈال کر جان چھڑالی گئی ہے! کسی ظالم کے لیے سزا، نہ کسی مظلوم کے لیے دادرسی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں کے نفاذ کا علم ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود کشمیری عوام کو ان ظالمانہ پابندیوں سے نجات دلانے کے لیے کوئی عملی اقدام تو دور کی بات ہے زبانی مذمت تک کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تلقین کے ساتھ سیکریٹری جنرل کے کردار ادا کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کی رضامندی کی شرط، کیا خوب۔ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی… کون نہیں جانتا کہ پاکستان ہمیشہ اس قسم کی پیشکش پر آمادہ و تیار رہا ہے مگر بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ مذاکرات یا ثالثی قبول کرنے سے انکار کیا ہے… اور اُس کے ڈھٹائی پر مبنی منفی طرزعمل پر آج تک کسی نے اُس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ لائن آف کنٹرول پر فوجی سرگرمیوں میں اضافے کے مشاہدے کے باوجود اس کے ذمہ دار کے بارے میں حرفِ مذمت زبان پر لانے کے بجائے جارح و ظالم، اور معصوم و مظلوم سب کو ایک سطح پر رکھ کر صبر و تحمل کی تلقین کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے کیے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی بے حسی کے سبب دنیا میں امن ناپید ہے اور اسرائیل کو فلسطین، بھارت کو کشمیر اور برما کو روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ اقوام متحدہ بالکل بے بس اور کچھ کرگزرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، بلکہ اس کے برعکس شرم ناک حقیقت یہ ہے کہ تمام انسانوں اور ممالک کی یکساں حیثیت کا علَم بردار یہ ادارہ کاغذوں کی حد تک مساواتِ انسانی کے دعووں کے باوجود عملاً ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہے، اور ظالم و جابر عالمی قوتوں کے آلۂ کار کا کردار ادا کررہا ہے۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا قصور یہی ہے کہ وہ کم ہمتی اور باہم افتراق و انتشار کا شکار اور علامہ اقبالؒ کے بقول ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہیں، ورنہ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دنیا کے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا میں جب عیسائی اکثریت کے صوبے تیمور میں عیسائی آبادی نے اپنی مذہبی شناخت ہی کی بنا پر الگ مملکت کا مطالبہ کیا تو وہاں کسی تاخیر اور لیت و لعل کے بغیر اسی اقوام متحدہ نے فوری ریفرنڈم کرواکر دنیا میں ایک نئی عیسائی مملکت ’’مشرقی تیمور‘‘ کو وجود بخش دیا۔ پھر سوڈان کو بھی اس بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کرکے جنوبی سوڈان کے نام سے ایک نیا عیسائی ملک بنوا دیا گیا۔ مگر بالکل اسی اصول پر حقِ خودارادیت کے طلب گار کشمیری مسلمانوں کا مسئلہ گزشتہ ستّر برس سے حل طلب ہے، بھارت کی فوج ہر طرح کے مظالم نہتے کشمیری مسلمانوں پر روا رکھے ہوئے ہے، اور پورے خطے کا امن بھی دائو پر لگا دیا گیا ہے، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، صرف اس لیے کہ ظلم و ناانصافی کے شکار مسلمان ہیں۔ اس مسئلے کا یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد جب مجاہدین تیزی سے کشمیر جنت نظیر میں پیش قدمی کررہے تھے اور بھارتی فوج کو پسپائی کا سامنا تھا تو یہی اقوام متحدہ تھا جو کسی تاخیر کے بغیر بھارت کی مدد کو پہنچا تھا اور کشمیری مسلمانوں کو ’’رائے شماری‘‘ اور حقِ خودارادیت کا لالی پوپ دے کر جنگ بندی کروائی تھی۔ آج بھی اگر یہ صورت حال پیدا ہو جائے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا محسوس ہونے لگے تو یہی اقوام متحدہ اور بھارت کی سرپرست بڑی طاقتیں زبانی تشویش کے اظہار سے آگے بڑھ کر فوراً نقل و حرکت کرتی نظر آئیں گی۔ ایران، عراق اور افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں… علامہ اقبال ؒ نے اسی سے ملتی جلتی کیفیت کے بارے میں فرمایا تھا ؎۔

جرس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے، مرے ہر رگ و پے میں
یہ خاموشی مری وقت رحیلِ کارواں تک ہے