بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، پاکستان میں بھارت کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ اب پاکستان کے پاس اس حوالے سے دو آپشن ہیں، پہلا یہ کہ پاکستان آزاد کشمیر /گلگت بلتستان کو آئینی طور پر اپنا صوبہ قرار دے کر لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد مان لے، اور دوسرا یہ کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینے کے بعد امریکی ثالثی آزاد کشمیر پر ہوگی۔ ایک نئی بحث یہ بھی شروع ہوگئی ہے کہ اب بالآخر گلگت بلتستان کو بھی پاکستان میں ضم کردیا جائے گا؟ بھارت کی پارلیمنٹ میں آج (5اگست) مقبوضہ کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد صدارتی حکم نامہ جاری ہوا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا ہے، جس میں مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر غور کیا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صورتِ حال پر غور کے لیے کور کمانڈرز کانفرنس کل طلب کرلی ہے، جس میں بھارت کے غیر آئینی اقدام کا جائزہ لیا جائے گا۔ قومی سلامتی کے ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف نے یہ اہم فیصلہ کیا ہے کہ پاک بحریہ بھی تیار رہے گی، پاک فضائیہ بھی الرٹ رہے گی اور زمینی فوج بھی تیار رہے گی۔ ڈی جی آئی ایس آئی کو ہیومن انٹیلی جنس کا ٹاسک دیا گیا۔ دوست ممالک کے ذریعے بھی انٹیلی جنس شیئرنگ ہوگی، اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کشمیر کے بارے میں جو ماڈل بھارت نے تیار کیا ہے، پاکستان اس کو مسترد کرتا ہے۔ اور یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور ہر طرح کی مدد جاری رکھی جائے گی۔ کورکمانڈرز کانفرنس میں کنٹرول لائن کی صورت حال اور بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دینے پر غور کیا جائے گا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتِ حال بہت کشیدہ ہوچکی ہے۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ارادے بھی خطرناک ہیں، اس لیے پاکستان کی قومی سلامتی کا ہونے والا اجلاس خاصا اہم اور سنجیدہ تھا اور اس میں اہم ترین فیصلے کیے گئے۔ وزیراعظم عمران خان اور ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے، جس میں باہمی دلچسپی کے امور اور کشمیر کی کشیدہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم عمران خان نے مہاتیر محمد کو مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی غیرقانونی حرکت خطے کا امن برباد کردے گی۔
بھارت کے اس اقدام کی جہاں سیاسی و سماجی رہنماؤں نے مذمت کی، وہیں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کی جانب سے جرأت مندانہ اظہار نہ ہونے پر پریشانی بھی بڑھ رہی ہے اور سیاسی حلقوں نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر دورۂ امریکہ میں تو بات کی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی، لیکن آج جب کشمیریوں کو سب سے زیادہ ان کی حمایت کی ضرورت تھی، اُس وقت وزیراعظم عمران خان وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مون سون شجرکاری مہم کے آغاز کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانیوں کو کم از کم دو پودے لگانے کی ہدایات دے رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے کمزور حوصلے کا مظاہرہ کیا اور پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے پر وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سعودی عرب روانہ ہوگئے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے سے متعلق کل پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی اور پاک فضائیہ کے سربراہ مجاہد انور خان بھی شریک ہوں گے۔ وزیراعظم ہائوس میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ، وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی سمیت دیگر اعلیٰ سول و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کے حملوں اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں کشیدہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں کلسٹر بم حملوں اور مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال اور جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ وادی میں سیاسی مقاصد کے لیے دہشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کو بتایا گیا کہ بھارت اوچھے ہتھکنڈوں سے عدم استحکام کے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اجلاس میں بھارت کی حکمت علی کی بھرپور مذمت کی گئی کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور عالمی برادری افغان تنازعے کے حل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، بھارت کے حالیہ اقدامات سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ حالیہ اقدامات سے بھارت اندرونی اور عالمی سطح پر بے نقاب ہوگیا ہے۔ اعلیٰ سول اور عسکری قیادت نے اس عزم کو دہرایا کہ پاکستان بھارتی شرانگیزی یا جارحیت کے خلاف دفاع کے لیے بھرپور تیار ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے بہادر عوام کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارت کی ان کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے جن کے نتیجے میں خطے اور عالمی امن پر برے اثرات پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس مطالبے کو دہراتا ہے کہ کشمیر طویل عرصے سے حل طلب عالمی مسئلہ ہے جس کے پُرامن حل کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلے کے حل کے لیے بھارت پر زور دیتا ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر نے قومی سلامتی کمیٹی کو یقین دلایا کہ ایل او سی کے دونوں اطراف کے کشمیری بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان پر بھرپور اعتماد کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہے گا اور کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی بنیاد پر قائم اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت عالمی قوانین کو خاطر میں نہیں لارہا، اور اس کے غرور کے نتیجے میں خطے میں تنازع مزید گمبھیر ہوگا۔
بھارتی فوج کی ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ اور ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے، بھارت کی جانب سے جو کلسٹر بم استعمال ہوئے ہیں اُن کے بارے میں عالمی قوانین بہت واضح ہیں۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس نے بے گناہوں کے اس بھاری جانی نقصان پر بارہا تشویش کا اظہار کیا اور 2000ء میں اقوام عالم سے یہ سفاکی روکنے اور اس سلسلے میں بات چیت کی اپیل کی۔ تقریباً 7 سال بعد ناروے نے کلسٹر بموں کا استعمال روکنے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اسے ’’اوسلو پراسس‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کوشش کا مقصد مہلک ہتھیار کی تیاری، منتقلی اور استعمال روکنے کے لیے بین الاقوامی معاہدہ کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے لیما، ویانا، ویلنگٹن اور مختلف براعظموں میں علاقائی اجلاسوں کے بعد 3 مئی 2008ء کو جرمنی کے شہر ڈبلن میں ’’کنونشن آن کلسٹر امیونیشنز‘‘ منظور ہوا۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب
بھارت کی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد صدارتی حکم نامہ جاری ہوا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق تھا، جس کے ختم ہونے کا اعلان ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہوگئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کیا ہے؟ اور ان کے ختم ہونے سے مقبوضہ کشمیر اور کشمیریوں کی زندگی پر کیا اثر ہوگا۔ دراصل بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ تقسیمِ برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے حکمران راجا ہری سنگھ نے پہلے تو خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا، تاہم بعدازاں مشروط طور پر بھارت سے الحاق پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اس صورت حال میں بھارت کے آئین میں شق 370 کو شامل کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔ تاہم ریاست کی جانب سے علیحدہ آئین کا بھی مطالبہ کیا گیا، جس پر 1951ء میں وہاں ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی اجازت بھی دے دی گئی۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے، اور یہ دراصل مرکز اور ریاست جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا۔ یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا، اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور بھارت کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں، اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہوسکتا تھا۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا، جبکہ بھارت کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ مہاراجا ہری سنگھ کے 1927ء کے باشندگانِ ریاست قانون کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، چنانچہ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائداد نہیں خرید سکتا۔ یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائداد حاصل نہیں کرسکتیں۔ اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی قسم کے تغیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی مرضی حاصل کرنا ضروری ہے جو منتخب اسمبلی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ اس دفعہ کا مقصد جموں وکشمیر کے ریاستی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس دفعہ کا محرک جموں وکشمیر کے مہاراجا کے ساتھ ہونے والا عہد و پیمان ہے جس میں یہ کہا گیا کہ ریاست کو کسی بھی طرح بھارت کے وفاقی آئین کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس دفعہ کے اہم مقاصد میں یہ بھی شامل تھا کہ ریاست پر بھارت کے مرکزی آئین کا صرف کچھ امور میں نفاذ ہوگا۔ ریاست اپنا آئین وضع کرے گی جو ریاست میں سرکاری ڈھانچہ تشکیل دے گا۔ جبکہ آخری مقصد یہ تھا کہ اس دفعہ میں تبدیلی صرف ریاستی اسمبلی کی سفارشوں پر کی جاسکتی ہے، مرکز اس کا مجاز نہیں ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر آئین کا آرٹیکل 35 اے کیا ہے؟ آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ پہچان ہوتی تھی اور انہیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔ بھارت کے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35 اے کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رُو سے جموں وکشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ نے 1927ء سے 1932ء کے درمیان مرتب کیے تھے، اور ان ہی قوانین کو 1954ء میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے آئینِ ہند میں شامل کیا گیا تھا۔ بھارت کے آئین میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے سے جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو ریاستیں بن جائیں گی، جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر، اور دوسری کا نام لداخ ہوگا، اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔ جموں وکشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہوگی، تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے مطابق جموں و کشمیر کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کا فیصلہ علاقے میں سیکورٹی کی صورت حال اور مبینہ طور پر سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 370 کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ مملکت تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔