حافظ حسین احمد جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ اپنی جماعت کے ساتھ ملک کے بھی معروف و سینئر سیاست دان ہیں۔ انہوں نے سیاست کے اندر عسکریت کی اصطلاح وضع کی ہے۔ یکم اگست کو عسکریتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی’’باپ‘‘ سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد حافظ حسین احمد نے تبصرہ کیا کہ ’’اس نتیجے پر حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ جب اکثریت اور عسکریت کا مقابلہ ہوتا ہے تو نتائج ایسے ہی آتے ہیں۔‘‘
عدم اعتماد کی حالیہ تحریک نے گندی سیاسی روایات کو تسلسل دیا ہے، اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک کی ناکامی نے وزیراعظم عمران خان کے، سیاست کے اندر دیانت و شفافیت کے، بلند بانگ دعووں کی قلعی بھی کھول کے رکھ دی ہے۔ وہی خرید و فروخت، وہی ضمیر فروشی، وہی ہارس ٹریڈنگ اس حکومت کے مزاج کا بھی جزوِ لاینفک ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ
’’تحریک انصاف یا عمران خان حزبِ اختلاف میں ہوتے تو ان کا چہرہ نمایاں نہ ہوتا۔ حکومت الیکشن جیت کر بھی عوام کی نظروں سے گر گئی ہے۔ سینیٹرز کو خریدا گیا ہے۔ ووٹ اور ضمیر کو بیچنے والے ووٹ کو عزت نہیں دے سکتے۔ حاصل بزنجو کو کھڑا کرنے اور ہرانے والوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ حکومت خوش ہے کہ وہ جیت گئی، مگر بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس سے بڑی شکست اور ہزیمت اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ سینیٹ الیکشن میں سیاست اور جمہوریت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن خریدو فروخت کے اس گھنائونے کھیل سے توبہ کریں اور مستقبل میں ہارس ٹریڈنگ کی بیخ کنی کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔‘‘
اس عدم اعتماد کی تحریک سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر یہ امر بھی افشا ہوا کہ اُن کی صفوں میں غیرت، حیا اور ضمیر بیچنے والوں کی اب بھی کمی نہیں ہے۔ ایوانِ بالا میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے64 ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے جن میں یہ سیاسی خائن بھی تھے جنہوں نے بعد ازاں خفیہ رائے دہی میں صادق سنجرانی کے حق میں مہر ثبت کی۔ رائے شماری ہوئی تو 50 اپنی جماعتوں کے فیصلے پر کھڑے پائے گئے، غالبا ً14اراکین نے زر اور دبائو قبول کرلیا۔ یوں عسکریت کا نمائندہ چیئرمین کی نشست پر پھر سے بیٹھ گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال عالیانی پابندِ صوم و صلوٰۃ ہیں، دیندار آدمی ہیں، انہوں نے بھی کہا کہ اراکینِ سینیٹ نے حقِ رائے دہی کا استعمال ضمیر کے مطابق کیا۔ حکومتی بینچوں کے ارکان نے نتیجے کے اعلان سے پہلے ہی ایوان کے اندر جشن منانا شروع کردیا، ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ ظاہر ہے اُن کو معلوم تھا کہ بیلٹ باکس سے کیا برآمد ہونے والاہے۔ بقول میر حاصل بزنجو: ’’مجھے بتایا گیا کہ 2,2 ارب روپے کا بندوبست ہوگیا ہے، آپ پیچھے ہٹ جائیں ورنہ بے عزت ہوجائیں گے کہ فلاں صاحب نے پیغام بھیجا ہے۔‘‘ اُس روز ایوانِ بالا کی عمارت کے اندر ہی جب ایک صحافی نے حاصل بزنجو سے پوچھا کہ خفیہ رائے شماری کے دوران یہ14ارکان کون تھے جنہوں نے آج آپ کا ساتھ نہیں دیا؟ تو انہوں نے اطمینان سے کہا: ’’یہ سب جنرل فیض کے لوگ ہیں۔ جانتے ہیں آپ جنرل فیض کو؟ آئی ایس آئی کے چیف ہیں۔‘‘ حاصل بزنجو پیش ازیں صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے بعد ایوان میں کھلم کھلا برہمی کا اظہار کرچکے ہیں۔
جب سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ نہیں دیں گی یا اس کے مقابل سینہ تان کر کھڑی ہوں گی تو رفتہ رفتہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی عمل میں مداخلت کی گنجائش بھی ختم ہوتی جائے گی۔ یقینا سیاسی لوگ اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ آصف علی زرداری بلوچستان میں سیاہ سیاسی کھیل کھیل رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ عسکریتی لوگوں کے ساتھ مل کر ہورہا تھا۔ نون لیگ، پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت گرانے میں تعاون کیا۔ اس کے بعد مارچ2018ء کے سینیٹ الیکشن میں اربوں روپے کی بارش کردی گئی۔ عسکری سیاست دانوں کے ساتھ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی (ف) شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔ ان سب نے مل کر صوبے اور سیاسی روایات کی جگ ہنسائی کرائی۔ سیاست دانوں نے اپنے کندھے پیش کیے۔ گویا بلوچستان کے اندر سیاست میں ریاستی مداخلت ہوئی۔ آگے جاکر 25 جولائی2018ء کے انتخابات میں نتیجہ برآمد ہوا، اور صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے۔ آصف علی زرداری اس فتنہ پروری پر فخر کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ سیاست کے بڑے کھلاڑی ہیں۔ اب انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ جیل کے اندر ڈال دیئے گئے ہیں۔ ثابت ہوا کہ آصف علی زرداری اپنی ذات کے لیے محض استعمال ہوئے۔ اب اُن کا ہر نشانہ خطا جارہا ہے۔ افسوس کہ عدم اعتماد کی اس تحریک میں بھی آصف علی زرداری کا کردار شرمناک بتایا جاتا ہے۔ سردار اختر مینگل کی جماعت نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں بھی اکثریت کے بجائے عسکریت کا ساتھ دیا۔ ان کے واحد سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے بی اے پی کے صادق سنجرانی کو ووٹ دیا۔ یعنی بلوچستان کے اندر مخلوط حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک، بعد ازاں سینیٹ کے انتخابات، مابعد چیئرمین سینیٹ کا انتخاب، پھر عام انتخابات کے بعد وزیراعظم عمران خان کو ووٹ دینے تک بی این پی ان کے ساتھ رہی ہے، اور اس سب کے لیے چھ نکات کی تاویل اپنا رکھی ہے۔ جماعت اسلامی اگرچہ حزبِ اختلاف کا حصہ ہے، لیکن تحریک عدم اعتماد میں مخالفت و مدافعت میں ووٹ دینے سے الگ رہی۔ سراج الحق اور مشتاق احمد خان اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔
جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل امیرالعظیم کے الفاظ میں ’’سینیٹ کی ہارس ٹریڈنگ نے ثابت کردیا کہ جمہوریت کے سب سے بڑے ستون میں اخلاقیات کو سیم و زر کا کفن پہناکر بے غیرتی کے ایوان میں دفن کردیا گیا ہے۔ سرمائے اور جاگیردارانہ سیاست نے یہ راز بھی فاش کردیا کہ ملک میں جمہوریت نہیں، بچہ جمورا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو آج (یکم اگست کے عدم اعتماد) کے کھیل سے سبق لینا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں، جاگیرداروں سے نجات حاصل کریں۔ جماعتیں نظریاتی بنیں، خاندانی پرائیویٹ لمیٹڈ اور وراثتوں پر چلنے کے بجائے اصول اور دستوری طریقے پر چلیں‘‘۔ سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف راجا ظفرالحق کا کہنا تھا کہ ’’جو فورسز چیئرمین سینیٹ کو بچانا چاہتی تھیں وہ کامیاب ہوگئیں‘‘۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ’’ملک میں سویلین مارشل لا ہے، اکثریت ہار گئی اور عسکریت جیت گئی‘‘۔ عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین نے کہا کہ ’’ہم پر پارلیمنٹ کے دروازے بند کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ عمران خان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں، جن کی حیثیت ہے وہ کھیل رہے ہیں‘‘۔ نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو گویا ہوئے کہ ’’میں ہارا نہیں جیت گیا ہوں۔ ہم اُن تمام قوتوں کو بے نقاب کریں گے جو اس کھیل میں شامل تھیں۔ اس میں مختلف ادارے اور صوبائی حکومتیں بھی شامل تھیں۔‘‘
حاصل بزنجو کے خلاف عدالتوں سے رجوع کا بہیمانہ دھندہ شروع کیا جاچکا ہے ، جو کہ انتہائی نازیبا عمل ہے۔ بہرکیف سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں، جاگیرداروں، اقربا پروری اور دوسری بنیادوں پر سینیٹ اور اسمبلیوں کے ٹکٹ نہ دیں، نظریاتی اور باکردار لوگوں کو ایوانوں میں بھیجیں تو ایسی شرمندگی نہ دیکھنی پڑے۔ بلوچستان کے بعض سینیٹرز نے بھی یکم اگست کو اپنے چہروں پر کالک مَل لی۔ نون لیگ کو چاہیے کہ بلوچستان کے اندر تنظیم سے چند چہروں کو نکال دے۔