یہ د نیا مسافر خانہ ہے۔ جو مسافر بھی یہاں آتا ہے، اپنی منزل پر پہنچ کر اس ہنگامہ خیز زندگی کو خیرباد کہہ کر گاڑی سے اتر جاتا ہے۔ گاڑی اپنی رفتار سے چلتی رہتی ہے۔ بہت کم مسافر ہوتے ہیں جو اپنی منزل کو یاد رکھتے ہیں۔ یہی خوش نصیب اور سعادت مند لوگ ہیں:
موت ہے ہنگامہ آرا قلزمِ خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
دل میں گھر کر لینے والے:زندگی کے مختلف مراحل میں بے شمار لوگوں سے دوستانہ تعلق قائم ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کی یادیں وقت گزرنے کے ساتھ دھندلا جاتی ہیں، جبکہ بعض ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو دل میں ہمیشہ کے لیے گھر کرلیتی ہیں۔
دل دوز خبر:
پیارے بھائی اور زمانۂ طالب علمی سے جگری یار انجینئر محمد منیر راحت میرے لیے ایسی ہی شخصیت تھے۔ 12 جولائی 2019ء کو اسلام آباد سے ایک دوسرے پیارے دوست اور بھائی جناب راؤ محمد اختر کا ایس ایم ایس ملا جس میں یہ دہلا دینے والی خبر دی گئی تھی کہ انجینئر محمد منیر راحت اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ بعد نماز عصر اسلام آباد میں ادا کی جائے گی۔ فوری طور پر ایس ایم ایس کا جواب دیا اور راؤ صاحب سے درخواست کی کہ وہ میری طرف سے مرحوم کے اہل وعیال اور والدِ محترم سے تعزیت کردیں۔ میں طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہ کرسکوں گا۔ بعد میں دوستوں سے رابطہ رہا۔ سبھی نے بتایا کہ مرحوم کی نماز جنازہ میں اہلِ ایمان کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ یہ اسلام آباد کی تاریخ کا عظیم جنازہ تھا۔
پاکیزہ زندگی اور قابلِ فخر جوانی:
محمد منیرراحت اپنے بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک اللہ کے دین پر پوری استقامت کے ساتھ گامزن رہے۔ ان کے اندر اللہ نے فطری طور پر خیر ہی خیر رکھا تھا۔ خوش نصیب انسان تھے کہ اللہ نے ہر شر سے انھیں محفوظ رکھا۔ حافظ آباد کے چودھری خاندان سے تعلق کے باوجود مرحوم کے اندر انتہا درجے کا انکسار پایا جاتا تھا۔ زبان سے ہمیشہ پھول جھڑتے، دھیمے انداز میں گفتگو کرتے اور مخاطب کی کسی سخت بات پر بھی کبھی ان کے چہرے پر غم وغصہ نظر نہیں آیا۔ محمد منیر راحت بھائی سے پہلی ملاقات جمعیت کے زمانے میں ہوئی۔ میں گورنمنٹ کالج سے جامعہ پنجاب میں آگیا تھا جبکہ محمد منیر بھائی انجینئرنگ یونی ورسٹی لاہور (UET) میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے طالب علم تھے۔ جب جمعیت کے رکن بنے اور حلفِ رکنیت اٹھایا تو سب دوستوں نے دیکھا کہ احساسِ ذمہ داری سے محمد منیر بھائی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ وہ انتہائی شریف النفس انسان ہونے کے ساتھ ازحد عبادت گزار اور اللہ کی یاد میں مشغول رہنے والے مردِ مومن تھے۔ جوانی کا دور اس حدیث کے عین مطابق تھا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات خوش نصیب انسانوں کو عرش کے سائے میں جگہ ملنے کی بشارت دی ہے۔ ان میں وہ نوجوان بھی ہے جس کی جوانی اللہ کی اطاعت و عبادت میں گزری۔ (بحوالہ صحیح بخاری ومسلم، عن ابی ہریرہؓ)
عابد وزاہد مجاہد:
محمد منیرراحت صاحب بچپن ہی سے نماز روزے کے اس قدر پابند تھے کہ فجر کی نماز بھی باجماعت پڑھنے کے لیے ٹائم پیس کا الارم لگاکر سوتے تھے۔ تعلیمی میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں کسی پروگرام سے کبھی غیر حاضر نہ ہوئے۔ ہمارے پروگرام دعوتی و تربیتی ہوں یا کوئی احتجاجی تحریک… یہ عموماً دفتر جمعیت سعید منزل انارکلی یا اولڈ کیمپس اور مال روڈ پر ہوا کرتے تھے۔ انجینئرنگ یونی ورسٹی سے بس پر یا اپنی سائیکل پر بروقت پہنچ جانا محمد منیر بھائی ہی کی ہمت تھی۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہورکا دو سال کے لیے ناظم رہا۔ پہلے سال میں میرے ساتھ حکیم عبدالوحید سلیمانی مرحوم معتمد تھے، جبکہ دوسرے سال (1969-70ء) میں انجینئر محمد منیر راحت صاحب معتمد تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مرحوم کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ اپنے حصے کی ماہانہ اعانت بھی باقاعدگی سے ادا کرتے اور دیگر دوستوں سے بھی اعانت جمع کرکے مالیات میں جمع کراتے۔
ذہین اور پاک باز:
ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ مجھ سمیت کئی دیگر ساتھی کئی مرتبہ حکومت مخالف سرگرمیوں اور احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار ہوئے، مگر محمد منیر راحت صاحب ہر پروگرام میں شریک رہنے کے باوجود کبھی گرفتار نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ غائب ہوجاتے تھے، بلکہ اللہ کی خاص عنایت تھی کہ پولیس کے کارندے انھیں دیکھ کر ان پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے بے اعتنائی کے ساتھ آگے بڑھ جاتے تھے۔ ہماری گرفتاریوں کے بعد جب وہ ملاقات کے لیے آتے تو ساتھی ان سے بے تکلفی میں بہت مزاح کرتے تھے۔ وہ اپنی دائمی مسکراہٹ اور سنجیدگی کے ساتھ جواب دیتے کہ آپ لوگوں کی گرفتاری کے بعد جمعیت کا کام بھی تو کسی کو کرنا ہے۔ واقعتاً وہ ایسے مواقع پر پہلے سے بھی زیادہ وقت لگاتے اور پوری تندہی کے ساتھ سب فرائض سرانجام دیتے۔ اس کے ساتھ ان کا تعلیمی ریکارڈ بھی بہت شاندار تھا۔ ذہین اور محنتی تھے اور اللہ کی خاص نصرت ان کے شاملِ حال رہتی تھی۔
پرانی یادیں:
میرے ساتھ میرے دونوں بھائی جنھوں نے بطور معتمد کام کیا، بہت محبت اور ایثار کرنے والے ساتھی تھے۔ حکیم عبدالوحید سلیمانی صاحب ایک سال مجھ سے بڑے تھے اور جناب محمد منیر راحت دو سال چھوٹے تھے۔ اس لحاظ سے سلیمانی صاحب میرے بھائی جان تھے جبکہ محمد منیر راحت صاحب کا میں بھائی جان تھا۔ اس موقع پر یہ بات لکھتے ہوئے اپنے ایک اور پیارے دوست جناب عبدالحمید سلیچ (کینیا) کی یاد آرہی ہے، انھوں نے ایک مرتبہ کینیا سے یوگینڈا جاتے ہوئے اپنے اور میرے پاسپورٹ میں اپنی اور میری تاریخ پیدائش دیکھی۔ میری طرف مصنوعی سنجیدگی اور جعلی رعب کے انداز میں دیکھ کر کہنے لگے: ’’دیکھو آئندہ مجھے بھائی جان کہہ کر پکارا کرو اور میرا ادب کیا کرو‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ تو کہنے لگے: ’’میں تم سے چار ماہ بڑا ہوں‘‘۔ میں نے سرجھکا کر عرض کیا ’’بہت اچھا بھائی جان‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے خوب قہقہہ لگایا۔
راضی برضا:
محمد منیر راحت صاحب نے انجینئرنگ یونی ورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور تعلیم سے فراغت کے بعد پاکستان ٹیلی فون انڈسٹری میں ملازمت اختیار کی۔ مرحوم نہایت دیانت و امانت کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے 2007ء میں ملازمت سے سبک دوش ہوگئے۔ اسلام آباد میں اپنی رہائش بنا لی تھی۔ جب کبھی اسلام آباد جانا ہوتا تو ملاقات کا موقع ملتا، پرانی یادیں تازہ کرتے اور مختلف پریشانیاں جو لاحق ہوگئی تھیں، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ایسے صبر کا مظاہرہ کرتے کہ ہم لوگ حیران رہ جاتے۔ آخری برسوں میں طبیعت ناساز رہنے لگی تھی، مگر دوست احباب سے ملاقات میں کبھی کسی چیز کا شکوہ نہ کرتے تھے۔ وہ بندہ راضی برضا اور اللہ کے ہر فیصلے پر سرِتسلیم خم کرکے اپنی ایمانی قوت کا اظہار کیا کرتا تھا۔ یہ صفت بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
جماعت اسلامی میں شمولیت:
محمد منیر راحت صاحب پیدائشی طور پر تحریکی تھے، بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ میں بڑی سرگرمی سے کام کرتے رہے۔ جماعت اسلامی میں مرحوم کی شرکت ہمارے ریکارڈ کے مطابق 31 مئی 1992ء میں ہوئی۔ اس تاریخ کو انھوں نے رکنِ جماعت کا حلف اٹھایا۔ جماعت میں بھی ان کا طرزعمل ویسا ہی خوب صورت اور فعال تھا جیسے جمعیت میں ہوا کرتا تھا۔ ہر کام پوری ذمہ داری سے کرتے اور نظم کی اطاعت فی المعروف میں ایک مثال بن گئے۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے کہ اس مخلص بندے نے زندگی کے ہر شعبے میں اعلیٰ کردار ادا کیا۔
بوڑھے والد کے لیے صدمہ:
محمد منیرراحت کے والد چودھری محمد صدیق کا تعلق حافظ آباد سے ہے۔ چودھری محمدصدیق صاحب کی عمر سو سال کے لگ بھگ ہوگی۔ وہ بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہیں، مگر مکمل ہوش وحواس کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ اس بڑھاپے میں بیٹے کی وفات ان کے لیے یقیناً بہت بڑا صدمہ ہے۔ چودھری صدیق صاحب سے بھی راقم کی بڑے عرصے سے ملاقات ہے۔ وہ بہت اچھے قلم کار اور مصنف بھی ہیں۔ چودھری صاحب نے ملٹری اکاؤنٹس میں ملازمت کی۔ بعد میں واپڈا میں بھی کام کرتے رہے۔ چودھری صاحب کو اللہ نے تین بیٹے عطا فرمائے۔ بڑے بیٹے محمد منیر راحت، دوسرے محمد جمیل (واپڈا میں ملازم رہے اور اب ریٹائر ہوگئے ہیں)، اور تیسرے بیٹے خالد صدیق انجینئر ہیں اور اٹامک انرجی کے شعبے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اہل وعیال:
محمدمنیرراحت صاحب کی شادی تعلیم مکمل ہونے اور ملازمت ملنے پر 1972ء میں ہوئی۔ اللہ نے ان کو نہایت نیک اور خوش اخلاق اہلیہ عطا فرمائی۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔ اپنے والد کی طرح یہ تینوں بہن بھائی بھی انتہائی نیک سیرت اور خوش اخلاق ہیں۔ بیٹا عزیزم عثمان فاروق ائیرفورس میں ونگ کمانڈر ہے۔ آج کل کامرہ میں تعینات ہے۔ اپنے والد کی بیماری کے دوران بیشتر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہا۔ اللہ اس صالح نوجوان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور مرحوم کے سب بچوں کو اپنے والدِ گرامی کے لیے صدقۂ جاریہ بنا دے۔ عثمان فاروق اپنے والد کی طرح انتہائی ملنسار ہے۔ اللہ نے اسے چار بچوں سے نوازا ہے، ایک بیٹا ہے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بچے اسکول میں زیرتعلیم ہیں۔ ربّ رحمن و رحیم اس باغ کو ہمیشہ آباد وشادکام رکھے۔
نیک گواہیاں:
محمد منیرراحت صاحب کی وفات پر اسلامی جمعیت طلبہ کے دور کے جو احباب اب تک زندہ ہیں، وہ سب غم سے دوچار ہوئے۔ ہر ایک یہ گواہی دیتا ہے کہ جانے والا حقیقی معنوں میں اللہ کا ولی تھا۔ جوانی میں بھی نظریں جھکا کر بات کیا کرتا تھا، اور پھر بڑھاپے میں تو اس کی شان ہی کچھ اور تھی۔ ان شاء اللہ یہ نیک گواہیاں اللہ کے ہاں مرحوم کے درجات کی بلندی کا ذریعہ ثابت ہوں گی۔ محمد منیرصاحب جماعت اسلامی کے رکن تھے اور بطور رکن رکنیت کے تقاضوں کو پوری طرح ادا کرتے رہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کی قبر کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنادے اور پسماندگان کو صبر و اجر سے نوازے۔ آمین