شیخ مجیب الرحمان کوئٹہ تشریف لائے تو نواب بگٹی نے انہیں دعوت دی جو میٹرو پولیٹن پارک میں تھی۔ شیخ مجیب مغربی پاکستان کا دورہ کررہے تھے۔ نواب بگٹی اور شیخ مجیب الرحمان کے حوالے سے ایک دلچسپ اور حیرت انگیز واقعے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ نواب بگٹی کی قربت شیخ کے حوالے سے نیپ(NAP) کو پسند نہ تھی۔ نواب بگٹی اور نیپ میں اندرونی کشمکش شروع ہوچکی تھی اور ایک سرد جنگ کا سماں تھا۔ یہ آتش فشاں اُس وقت پھٹ پڑا جب نواب بگٹی شیخ مجیب الرحمان سے ملنے ڈھاکا گئے۔ وہ نیپ کی رضامندی سے جونہی ڈھاکہ پہنچے، نیپ نے بیان جاری کردیا جو اخبارات کی زینت بن گیا۔ نیپ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ نواب بگٹی نیپ کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں گئے ہیں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں گئے ہیں۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان طبلِ جنگ بج گیا۔
کوئٹہ کے حوالے سے شیخ مجیب کا ذکر کررہا تھا، اُن دنوں میں اسلامی جمعیت طلبہ بلوچستان کا ناظم تھا۔ اپنے دفتر واقع لیاقت روڈ کی بالکونی میں کھڑا تھا کہ اتنے میں شیخ مجیب الرحمان لیاقت مارکیٹ تشریف لے آئے۔ ان کے ساتھ کمال اور دیگر لیڈر موجود تھے۔ ان کو دیکھ کر میں فوراً اترا، ان سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا۔ وہ خوش مزاجی سے ملے۔ شیخ صاحب کو دفتر میں چائے کی دعوت دی، انہوں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم مارکیٹ سے کچھ خریداری کرنا چاہتے ہیں۔ لیاقت مارکیٹ میں اُس وقت ایران کی اشیاء اسمگل ہوکر آتی تھیں، وہ ان کو دیکھنا اور کچھ خریداری کرنا چاہتے تھے۔
یہ میری تاریخی ملاقات تھی۔ 1970ء کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد انتخابات ہوگئے اور پاکستان کی سیاست کسی اور طرف چل پڑی یا اس کو شعوری طور پر اُس طرف دھکیلا گیا، جس کا منقطی نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا، ایک عظیم ملک بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہوگیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اس کی علیحدگی کے زخم بڑے گہرے تھے۔ قدرت کا انتقام دیکھیں کہ اس سازش کے تین بڑے کردار موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔
اندرا گاندھی کو اُس کے گارڈ نے موت کی نیند سلایا، بھٹو کو تختۂ دار نصیب ہوا، اور شیخ مجیب الرحمان کو بنگالی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میں برطانیہ میں ایک کانفرنس میں شریک تھا۔ اور یہ حسنِ اتفاق تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کو جس فوجی نے موت کے گھاٹ اتارا اُس سے لندن میں اس کانفرنس میں ملاقات ہوگئی۔ مجھے اس کانفرنس میں ڈاکٹر کلیم اللہ صدیقی مرحوم نے مدعو کیا تھا۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے بانی کو کیوں موت کے گھاٹ اتارا گیا؟ وہ کیا اسباب تھے جو اس کی موت کا سبب بن گئے؟ مجھ جیسے بے شمار لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوگا، اور براہِ راست معلومات بھی نہیں ہوں گی، اس لیے اندازہ نہیں لگا سکیں گے کہ شیخ مجیب کو کیوں قتل کیا گیا۔
مذکورہ بنگالی فوجی آفیسر کرنل فاروقی نے مجھے بتایا کہ کس طرح شیخ مجیب مارا گیا۔ لیکن اس کے اسباب اور وجوہات نہ میں نے پوچھیں اور نہ اُس نے بتائیں۔ چند سال پیشتر لاہور جانا ہوا تو مجھے ایک کتاب تحفے میں ملی۔ اس کتاب کا نام Bangladesh Untold Facts تھا، اور اس کا اردو ترجمہ ’’پاکستان سے بنگلہ دیش، ان کہی جدوجہد‘‘ کے نام سے کیا گیا۔ اور صاحبِ کتاب جناب ایمبیسیڈر لیفٹیننٹ کرنل (ر) شریف الحق والیم ہیں۔ کچھ عرصے بعد خیال آیا کہ اس کتاب کو پڑھنا چاہیے تاکہ بنگلہ دیش بننے کے اصل حقائق سے واقف ہوسکوں۔ اس کتاب کے ایک باب میں شیخ مجیب کے قتل کی داستان تھی، اور قاتل بنگالی فوجی تھا جو کوئٹہ میں تعینات رہا تھا تو میری دلچسپی بڑھ گئی، اور جب نام پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی بنگالی فوجی آفیسر تھا جس سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی، وہ کوئٹہ کینٹ میں مقیم تھا اور کوئٹہ سے خفیہ طریقے سے اپنے ایک فوجی ساتھی کے ہمراہ فرار ہوا۔ وہ کوئٹہ سے کیسے فرار ہوا، کیسے منصوبہ بندی کی، اور اس کی راہ میں کیا کیا مشکلات تھیں؟ یہ روداد پڑھنے کے قابل ہے۔ لیکن اس کو پڑھتے وقت ذہنی اذیت سے گزرا ، تہ در تہ سازشوں سے آگہی ہوئی۔ جناب شریف الحق اُن بنگالی فوجی افسروں کے گروپ لیڈر تھے جو مغربی پاکستان سے فرار ہوکر مشرقی پاکستان پہنچے اور بنگلہ دیش کی جنگ ِآزادی میں شریک ہوئے۔ بنگلہ دیش حکومت نے انہیں شجاعت کے اعلیٰ ترین اعزاز بیراتم سے نوازا۔ کتاب پڑھ کر دل بڑا افسردہ ہوا لیکن جبر کرکے مطالعہ کیا۔
شیخ مجیب الرحمان کا تختہ الٹنے کا منصوبہ فوج نے بنایا، اور اس کھیل میں شریف الحق بھی شریک تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان ایک انتہائی پیچیدہ شخصیت کے مالک تھے، وہ اتنے سادہ نہیں تھے جتنے نظر آتے تھے۔ اس طرح ہماری جنگ آزادی بھی بے شمار گنجلک اور پیچیدہ واقعات اور شواہد پر مشتمل تھی۔ شیخ مجیب الرحمان کے دو مختلف چہروں کے درمیان واقعات اور حادثات کا ایک لمبا سلسلہ موجود ہے جو 15 اگست کے انقلاب پر منتج ہوا۔ فوج کے آفیسروں نے ایک خفیہ فوجی کونسل قائم کی، اس میں شریف الحق بھی موجود تھے۔ اس کونسل نے تمام ملک میں فوجی برانچیں قائم کردیں اور فوجی افسروں نے حکومت پر قبضہ کرنے کا پروگرام ترتیب دے دیا۔ نئی حکومت کے لیے پندرہ نکاتی فارمولا طے کرایا گیا جس کے یہ تین نکات اہم تھے:
شفیع اللہ کو میجر جنرل بناکر میجر جنرل ضیاء الرحمان کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کرنا، اور جنرل عثمانی کو حکومت کا دفاعی مشیر مقرر کرنا، (2) بھارت سے 25 سالہ معاہدہ ختم کرنا، (3) آزاد سیاسی خارجہ پالیسی، تمام قیدیوں کو رہا کرنا، آئین کے اندر بعض اہم تبدیلیاں لانا۔
ان فوجی انقلابیوں کو علم ہوا کہ شیخ مجیب الرحمان کو تاحیات صدر بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، اس کا اعلان پندرہ اگست کو ہونا ہے، اور دستور میں تبدیلی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، اور پندرہ اگست کی تقریب میں کابینہ کے تمام ارکان، نئے مقرر کیے گئے گورنر اور اضلاع کے تمام پارٹی عہدیدار بھی ہوں گے جن کی حفاظت کے لیے اسپیشل اسکواڈ اور پولیس موجود ہوگی۔ اس کے علاقہ چترا لیگ اور جیو لیگ کے مسلح عہدے دار شیخ کمال کی سربراہی میں موجود ہوں گے۔ جاتیو راکھی بانی کو یونیورسٹی کے علاقے میں گشت کا حکم دیا گیا تھا۔ دوسری طرف باغی فوجیوں نے بارہ اگست کو فیصلہ کیا کہ پندرہ اگست کو انقلاب کا آغاز کیا جائے گا اور اسے برق رفتاری سے لایا جائے گا۔ کارروائی کا آغاز نماز فجر کے بعد طے ہوگیا تھا۔ صدر شیخ فضل الحق مدنی، منصور علی، تاج الدین احمد، طفیل احمد، عبدالرزاق، سر نذر الاسلام، قمر زمان، شرنیابت کو حفاظتی تحویل میں لینا تھا، اور اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش ریڈیو، بنگلہ دیش ٹی وی، وائر لیس سینٹر، ٹی اینڈ ٹی، ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشن، جاتیو راکھی بانی ہیڈکوارٹرز، جے آر بی کے بڑے کیمپ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ اور انقلابیوں نے اُس وقت اپنی کارروائی شروع کردی جب سارا شہرا سویا ہوا تھا۔ اور ان فوجیوں نے لمحوں میں اپنا کنٹرول حاصل کرلیا۔
بعض اہداف پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو شدید مقابلوں پر منتج ہوئی۔ شریف الحق بیان کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان، شیخ فضل الحق موتی شرمنات اور ان کے خاندان کے لوگ ان حملوں میں مارے گئے اور شیخ مجیب الرحمان کی موت کی خبر نشر کردی گئی۔ ڈھاکا کی سڑکیں عوام سے بھر گئیں اور عوام فوج کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔ کھنڈکر مشتاق نے صدر کا حلف اٹھا لیا اور قوم سے خطاب کیا۔ تینوں فوجی سربراہوں نے حکومت کے ساتھ وفاداری کا اعلان کردیا۔
اب کرنل فاروق کے بارے میں کچھ معلومات کا ذکر کرتے ہیں۔ شریف الحق نے لکھا کہ سید کرنل فاروق اور کرنل رشید دونوں مجاہدینِ آزادی ہیں اور اُس وقت بالترتیب سیکنڈ فیلڈ آرٹلری رجمنٹ اور کرسٹ رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر تھے، اور دونوں کی فوجی یونٹس ڈھاکا چھائونی میں تھیں، یہ دونوں فوجی کونسل کے رہنمائوں میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔ ان دونوں نے بعض اہم تجاویز پیش کیں جنہیں فوجی کونسل نے قبول کیا۔ اس قسم کے معاہدے کے بعد عوامی انقلاب کے لیے تیاریاں شروع کردی گئیں۔
اس دوران اطلاع ملی کہ کرنل فاروق نے اپنے ٹینک اسٹارٹ کرلیے ہیں اور وہ چھائونی کی طرف آرہے ہیں۔ اسکواڈرن لیڈر لیاقت نے کہا: والیم تم نے کہا تھا کہ تم یہاں خونریزی کرنے نہیں آئے ہو، لیکن تمہارا ایک ساتھی چھائونی پر حملے کررہا ہے، کیا یہ تضاد نہیں ہے! میں نے کہا کہ کوئی ٹینک اسٹارٹ نہیں ہونا چاہیے، میں ان کے مطالبات کے ساتھ بنگلا بھون پہنچ پر ہوں۔ میں نے بریگیڈیئر خالد کو بتلایا کہ کوئی خون خرابہ نہیں ہونا چاہیے اور میں لیفٹیننٹ فاروق سے رابطہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ کوئی ایسی کارروائی نہ کرے، اور بریگیڈیئر خالد سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں۔ یہ تمام معلومات شریف الحق کی کتاب سے لی گئی ہیں۔ اور کرنل فاروق سے جب لندن میں لندن یونیورسٹی کے ہال میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے خود تعارف کرایا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ کس طرح آپ بنگلابھون صدارتی محل میں داخل ہوگئے؟ اور جب انہوں نے اپنی داستان بیان کی تو ان کے چہرے پر کوئی ملال نہ تھا، بلکہ ہنستے ہوئے وہ ان لمحات کی کہانی بیان کررہے تھے۔ جب وہ شیخ مجیب الرحمان سے ملنے جارہے تھے تو ان کے پاس ٹینک آرٹلری تھی اور اس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ کرنل فاروق کی عدم موجودگی میں شیخ حسینہ واجد نے انہیں سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ اب مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں، یا انہیں سزائے موت دے دی گئی ہے۔ کرنل فاروق نے اپنی کہانی بیان کی اور کہا کہ جب ہم صدارتی محل میں داخل ہوگئے تو میرے ساتھ مسلح فوجی تھے اور میں بھی مسلح تھا۔ جب میں شیخ مجیب الرحمان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ لکھ رہے تھے، ان کی پشت پر ان کا بیٹا کھڑا تھا، اور شیخ کے صوفے پر ہتھیار موجود تھے۔ اس طرح بغیر اجازت اندر آنے پر انہوں نے مجھے گالیاں دینی شروع کردیں۔ اس کے بعد میں نے اُن پر فائر کھول دیا اور وہ وہیں دم توڑ گئے۔ اس کے بعد اُن کے بیٹے کو مارا۔ بعد ازاں ہم سارے فوجی اس ایوان میں گھس گئے اور جو ہمارے سامنے آیا ہم نے اسے مار دیا۔ یوں تھوڑی ہی دیر میں سب قتل کردیئے گئے۔ اس کے بعد ریڈیو اور ٹی وی سے خبر نشر ہوگئی۔ شیخ مجیب الرحمان کی لاش کئی دن تک ایوانِ صدر میں پڑی رہی، کوئی اسے اٹھانے والا نہیں تھا۔ اس دوران حسینہ شیخ بھارت کے دورے پر تھی اس لیے بچ گئی، ڈاکٹر کمال باہر تھے اس لیے وہ بھی بچ گئے۔ یہ بنگلہ دیش کی تاریخ ہے۔ ایک اور خونیں انقلاب بنگلہ دیش کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان نے آزادی کے بعد اپنے ملک میں جو رویہ اختیار کیا تھا اس کے نتیجے میں فوج میں بغاوت بالکل درست نظر آتی ہے۔ اپنے اس مضمون کولیٖفٹیننٹ کرنل شریف الحق کے ان جملوں پر ختم کرنا چاہتا ہوں:
’’جب ایک آمر کو کسی آئینی یا جمہوری طریقے سے ہٹانا ناممکن ہوجاتا ہے تو پھر ایسے جابر فرماں روا کو ہٹانے کے لیے غیر آئینی طریقے اختیار کرنا ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ حکومت کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے انقلابی اقدامات کو عوام کی پُرجوش حمایت خودبخود حاصل ہوجاتی ہے۔ اس طرح یہ عوامی انقلاب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔‘‘