تحریکِ آزادیِ کشمیر میں نوجوانوں کا رول ماڈل 21 سالہ برہان مظفر وانی 19 ستمبر 1994ء کو شریف آباد (ترال) جموں و کشمیر میں ایک اسکول ٹیچر مظفر احمد وانی کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی زندگی بہت پُرنور، بے عیب اور شائستہ ہے۔ اس کے بچپن اور لڑکپن کی زندگی پر بھی اس کے مخالفین انگلی نہیں اٹھاتے۔ جب وہ پندرہ سال کی عمر کا تھا تو 2010ء میں حق کے راستے پر گھر سے چلا گیا اور حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی۔ گوکہ یہ دن تو برہان کے کرکٹ کھیلنے کے تھے، اور وہ کرکٹ کا کھلاڑی بھی تھا۔ مگر کیوں اس 15 سالہ نوجوان نے اتنا بڑا اور مشکل فیصلہ کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک حساس، غیرت مند، صالح، ملّت پرست مسلمان تھا۔ بھارتی افواج کی جانب سے نہتے کشمیری مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں وہ انہیں برداشت نہیں کرسکتا تھا، چنانچہ اُس کی غیرتِ ایمانی نے اس ظلم کے خلاف اُسے مجاہدین کی صف میں لاکھڑا کیا، جہاں اس کے عزم و ہمت اور استقامت کی داستانیں آج ہر کشمیری بچے کی زبان پر ہیں۔
برہان وانی 8 جولائی 2016ء کو اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ بھارتی فوج کے ساتھ دو گھنٹے جاری رہنے والے ایک معرکے میں شہید ہوا۔ اس کی نمازِ جنازہ اور غائبانہ نمازِ جنازہ 40 مختلف مقامات پر ادا کی گئی جس میں 6 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس کی شہادت کے بعد کشمیری مزاحمت کی تاریخ میں طویل ترین مظاہروں کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہیں۔ برہان وانی کی جدوجہد پر اہلِ قلم اصحاب کے تبصرے جاری ہیں۔ کراچی میں معروف کالم نگار بشیر سدوزئی جن کی کشمیر پر اس سے پہلے چار کتابیں (i) ’’پونچھ، جہاں سروں کی فصل کٹی‘‘، (ii) ’’کشمیر کے مجاہد‘‘، (iii) ’’تقدیرِ کشمیر‘‘، اور (vi)’’زلزلے سے پہلے اور بعد‘‘ شائع ہوچکی ہیں، آپ کی پانچویں اہم کتاب ’’برہان وانی‘‘ جسے دھرتی پبلی کیشن راولاکوٹ آزاد کشمیر نے شائع کیا ہے، کی تقریبِ اجرا گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں ادبی کمیٹی اور فرینڈز آف کشمیر کے تعاون سے منعقد ہوئی۔ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد اشرف صحرائی لکھتے ہیں: ’’وہ اس کتاب میں مسئلہ کشمیر سے متعلق تاریخ کے کئی گوشوں کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ برہان وانی اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد خونیں تاریخ کو سپردِ قرطاس کرنے کی یہ ایک بہترین اور احسن کوشش ہے‘‘۔ شفیع نقیب نے لکھا: ’’یہ کتاب گھر گھر کی کہانی ہے، ہر ایک کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے‘‘۔ افتخار احمد قادری ایڈووکیٹ رقم طراز ہیں: ’’بشیر سدوزئی نے سیکڑوں میل کی دوری کے باوجود اس کتاب کو اس طرح تحریر کیا ہے کہ گویا ہم اپنی آنکھوں سے لہو لہو وادی کو دیکھ رہے ہیں اور کشمیریوں پر توڑے جانے والے ظلم و ستم اور اُن کے دلوں میں موجود درد کی ٹیس کو اپنے دلوں میں محسوس کررہے ہیں‘‘۔
فرینڈز آف کشمیر کی چیئرپرسن صدرِ تقریب غزالہ حبیب خان نے کہاکہ ’’کشمیر کی جنگ پاکستان کی بقا اور تکمیلِ پاکستان کی جنگ ہے۔ کشمیر میں نہتے کشمیریوں، عورتوں اور بچوں پر جو ظلم ہورہا ہے اور کشمیر میں جتنا لہو بہہ چکا ہے، اب مزید گنجائش نہیں رہی۔ بالآخر بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا، ہم اس طرح اس کی جان نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ انہوں نے اہلِ کراچی کا کشمیریوں کی آواز سے آواز ملانے پر شکریہ ادا کیا اور اپنی نظم پیش کی:
آنکھ میری شرار میرے ہیں
یہ سلگتے چنار میرے ہیں
وہ جو کشمیر پر ہوئے ہیں نثار
وہ سب جانثار میرے ہیں
اے غزالہؔ یہ میرا ایماں ہے
سارے رنگِ بہار میرے ہیں
سردار اشرف خان نے کہا: ’’کشمیری بزدل نہیں دلیر ہیں، لڑنا نہیں چاہتے مگر اُن پر جنگ مسلط کردی گئی ہے۔ جس قدر قربانیاں کشمیریوں نے دی ہیں ہم نے دنیا میں اُن کی نمائندگی کا اتنا حق ادا نہیں کیا۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہمیں کشمیر چاہیے یا کشمیری بھی۔ انہوں نے کہاکہ گو کتاب پڑھنے والے کم ہورہے ہیں، مگر بشیر سدوزئی نے تاریخ کو صفحات میں رقم کرکے بڑا کام کیا ہے۔‘‘
صاحبِ کتاب بشیر سدوزئی نے کہا: ’’اس کتاب کو حریت کانفرنس (سری نگر) کے مرکزی رہنمائوں کی ہدایت اور رہنمائی میں شائع کیا گیا ہے۔ اس میں موجود معلومات کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں‘‘۔ انہوں نے کہاکہ ’’برہان وانی دہشت گرد نہیں ہیرو ہے۔ وہ آزادی کے لیے قلم اور ٹیکنالوجی استعمال کررہا تھا، بھارتی افواج نے مجبور کیا کہ 15 سالہ نوجوان ہتھیار اٹھائے اور 21 سال کی عمر میں شہید ہوجائے۔ برہان وانی نے کشمیری نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔‘‘
سردار نزاکت حسین نے کہاکہ ’’19 جولائی کو قراردادِ الحاقِ پاکستان کی روشنی میں ہم نے تحریک آزادی 15 اگست 1947ء کو شروع کردی تھی۔ آدھے کشمیر کو آزاد کرایا، باقی کی آزادی تک یہ تحریک جاری رہے گی۔ برہان وانی نے نوجوانوں کو متحرک کیا اور انہیں تحریک کے ساتھ جوڑا، اس کی قربانی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
معروف شاعر خالد معین نے کہا: ’’بشیر سدوزئی نے برہان وانی کی جدوجہد پر کتاب لکھ کر کشمیری ہونے کا حق ادا کیا، برہان وانی صرف کشمیریوں کا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا رول ماڈل ہے‘‘۔ معروف صحافی امین یوسف نے بھی بشیر سدوزئی کو اس کاوش پر مبارک باد دی۔
تقریب کی خوب صورت نظامت شکیل احمد خان نے کی، جبکہ بڑی تعداد میں اربابِ علم و دانش کے ساتھ موسیٰ کلیم، حنیف عابد، اویس ادیب انصاری، سعید احمد سعید، عثمان دموہی، اسجد بخاری، رونق حیات، نفیس احمد خان نے بھی شرکت کی۔ کتاب کا سرورق معروف آرٹسٹ شاہد محمود شاہد نے ڈیزائن کیا ہے۔