نگہت حسین
بچے کی ابتدائی زندگی کے چھ برسوں کی اہمیت سے کون واقف نہیں! یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچے کی عادات اور مزاج بن رہا ہوتا ہے۔ ابتدائی چھ برسوں میں بچے کو جیسا ماحول ملے گا، آنے والے وقتوں میں وہ ویسا ہی نظر آئے گا۔ اس اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس عمر میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ اچھی اور مفید سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ بچوں کو ابتدائی عمر میں ہی ہاتھ میں کتابیں پکڑائی جائیں تو وہ مطالعے کی طرف راغب ہوجاتے ہیں اور کتابوں میں ان کی دلچسپی ہوجاتی ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ تجربہ ہے۔ جن مائوں نے اپنے بچوں کو کتابوں سے انسیت دلائی ہے اُن کے بچوں کی، زبان سیکھنے کی استعداد دوسرے بچوں کی نسبت کئی درجہ بہتر ہوتی ہے۔ مطالعے کے شوقین بچے تخلیقی رجحان رکھتے ہیں اور لکیر کے فقیر بننے کے بجائے جدت پسند ہوتے ہیں۔ پانچ ماہ کی عمر سے کتاب کا تعارف شروع کردیا جائے تو نتائج اسی لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں، کتاب سے دلچسپی بچے کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ پانچ ماہ کی عمر سے بچہ عموماً بیٹھنا شروع کردیتا ہے۔ اتنے چھوٹے بچوں کو کاغذ کے بجائے پلاسٹک اور کپڑے کی کتابیں جن میں رنگین تصاویر بنی ہوتی ہیں، متعارف کروائی جاتی ہیں۔ یہ کتاب سے بچے کا رشتہ استوار کرنے کا پہلا درجہ ہے، جس میں آپ کو خود بھی حصہ لینا ہوگا۔ ظاہر ہے صرف کتاب پکڑوا کر اپنے طور پر فارغ ہوکر بیٹھ جانے سے بچہ کتاب کو ایک طرف پھینک چکا ہوگا۔ خود کتاب سے چیزیں متعارف کروانا، جس چیز کی تصویر بنی ہو اس کی آواز متعارف کروانا اور رفتہ رفتہ تصویری کہانیوں کے بعد مختصر جملوں پر مشتمل کتابوں تک کا سفر بچے کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح خود بہت سی کہانیاں کتاب سے بچوں کو سنانا بہت ہی دلچسپ سرگرمی ہوتی ہے جس کے لیے بچے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ لیکن کتابوں کے ساتھ بچوں کا ذوق و شوق عمومی طور پر زیادہ پسندیدہ خیال نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کے خیال میں کتابیں پڑھنے کو ایک عمر پڑی ہے۔ ابتدائی عمر سے بچوں کو کتابیں پکڑانے والی مائوں کا مذاق تو بہت بنتا ہے، لیکن یہ باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینی چاہئیں۔ اب جب کہ نیورو سائنس انسانی دماغ کے ہر عمل کو ہمارے سامنے کھول چکی ہے تو آئیے دیکھیں کہ مطالعہ کرنے کی عادت بچے کے دماغ کی نشوونما میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔
نیورو ماہرین کے مطابق انسان کی زندگی کے ابتدائی چھ سال میں اس کی سیکھنے کی استعداد ساری زندگی کے مقابلے میں سب سے تیز ہوتی ہے۔ دماغ کے اہم کنکشن ابتدائی عمر میں ہی وجود میں آرہے ہوتے ہیں۔ ایک صحت مند بچہ فعال دماغ کے تقریباً200 بلین خلیاتی نیورون کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ صحیح قسم کے محرک کو دیکھتے ہوئے، ان میں سے ہر ایک دماغ کی 20 ہزار مختلف شاخوں/ کنکشنز کو جنم دیتا ہے، جن میں اضافی معلومات جمع ہوتی ہے۔ یہ کنکشن بچے کو ابتدائی عمر کے سیکھنے سکھانے کے تجربات کے ذریعے وجود میں آتے ہیں اور تاعمر سیکھنے اور دانش ورانہ صلاحیت کی بنیاد بناتے ہیں۔ جب والدین بچوں سے بات کرتے ہیں، نظمیں پڑھتے ہیں، اور کوئی کہانی سناتے ہیں تو دماغی روابط مزید قوی ہوجاتے ہیں اور مزید نئے کنکشن وجود میں آتے ہیں۔ اسی لیے سیکھنے کے لحاظ سے ابتدائی عمر انسان کی زندگی کا سب سے سنہری دور تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں بچوں کو نت نئی چیزوں اور ماحول سے متعارف کروانا جو کہ صحت مند دماغی نشوونما کے لیے ضروری ہو، بہت اہم ہے۔ دماغی نشوونما میں ایک اہم کردار مطالعے کا بھی ہے۔ مطالعے کی عادت کو اپنانے والے بچے ساری زندگی اس کے فوائد سمیٹتے ہیں۔
مطالعے کے شوقین بچوں کا تعلیمی سفر بھی زیادہ تر کامیاب ہوتا ہے، کیوں کہ ان کی معلومات اور سیکھنے کی استعداد دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ زبان تمام چیزوں کو سیکھنے میں مدد دیتی ہے، دنیا کا کوئی بھی علم زبان پر دسترس رکھے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ مطالعہ لسانی مہارتوں میں اضافہ کرتا ہے، جس کا نتیجہ بچے کی تعلیمی قابلیت میں اضافے اور کامیابی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ایسے بچے اپنے مافی الضمیر کو بہتر طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ کتاب کا مطالعہ توجہ کے ارتکاز کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے جو کہ اسکرین میں وقت گزارنے والے بچوں کی بہت کمزور ہوتی ہے۔ اسکرین کے نت نئے مناظر بچے کی توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت کو بہت کمزور کردیتے ہیں، نتیجتاً بچہ عام زندگی کے کسی بھی تعلیمی کام میں اپنی توجہ مرکوز رکھنے میں ناکامی کے باعث تعلیمی میدان میں ناکام ہونے لگتا ہے۔ غرض یہ کہ مطالعے کی عادت بچوں کو تعلقات بنانے، معاشرے میں مفید اور نمایاں کردار ادا کرنے کے علاوہ نفسیاتی طور پر بھی صحت مند بناتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے لیے اچھی باتصویر، رنگین کتابیں نہ صرف اسکرین سے دور رکھنے میں کامیاب ثابت ہوتی ہیں بلکہ آگے چل کر ان کو لکھنے لکھانے اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔ بچوں کو اور خود کو بھی کتاب کا دوست بنائیں، ہر ہفتے 500 روپے کے برگر کھلانے کے بجائے کتابیں دلائیں۔ اب جب کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال ہر شعبۂ زندگی کا ایک لازمی جزو بنتا جارہا ہے، ایسے میں مطالعے کا شوق بچوں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی فضول مصروفیات سے بچانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ مطالعے کے شوقین سوشل میڈیا کے استعمال کو بھی مطالعاتی سرگرمی میں تبدیل کرکے اس سے بہترین انداز میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اچھے مطالعے کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ ہمارے اطراف بہت سی ایسی زندہ مثالیں ہیں جو اردگرد کے خراب ماحول کے باوجود اپنی کتاب دوستی کی وجہ سے کیچڑ میں کنول کی مانند نظر آتی ہیں۔ جو ہم بچوں کو سمجھانا چاہتے ہیں وہی باتیں کہانیاں، مضامین، خبریں اور واقعات بہت بہترین طریقے سے بچوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو مطالعے کا عادی بنائیں۔ ذرا سی محنت اور وقت آپ کے بچے کی شخصیت کو سنوار دے گا۔