قرآن: واضح، مفصل اور آسان(کلام الٰہی کی اپنی گواہی)۔

تالیف : قرآن: واضح، مفصل اور آسان
(کلام الٰہی کی اپنی گواہی)
مدیرہ اعلیٰ : ڈاکٹر طاہرہ بشارت
مؤلف : ڈاکٹر محمد شریف نظامی
صفحات : 20 … قیمت:15 روپے (برائے صدقہ جاریہ)
ناشر : بلال اسلامک سینٹر
-155 اے بلاک۔ پی سی ایس آئی آر
ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی، فیز II، لاہور
فون:0303-4325835
0331-4912359
برقی پتا : nigamiurdu@gmail.com
قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو خالقِ کائنات نے اپنی انسان نامی مخلوق کی رہنمائی کے لیے اتاری ہے، تاکہ وہ اس کتاب میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اِس مختصر اور عارضی زندگی کو اس طرح بسر کرے کہ اس کی آخرت یعنی کبھی نہ ختم ہونے والی ابدی زندگی سنور جائے اور وہ اپنے خالق و مالک کی رضا اور جنت میں مستقل ٹھکانہ حاصل کرسکے۔ مگر انسانوں کی غالب اکثریت علم و حکمت کے اس خزانے قرآن مجید کو فراموش کیے ہوئے ہے۔ اس اکثریت میں سے بہت بڑا حصہ تو قرآن مجید کی اس حیثیت اور اہمیت سے آگاہ ہی نہیں، یا اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اور جو اقلیت اس کی اہمیت سے آگاہی کی دعویدار ہے وہ بھی معلوم نہیں کیوں اس خیال کی اسیر ہوچکی ہے کہ قرآن حکیم بلاشبہ ایک مبارک اور مقدس کتاب ہے جس کے احترام کا تقاضا ہے کہ اسے عقیدت سے چوما جائے، آنکھوںسے لگایا جائے اور قیمتی جزدان میں سجاکر اونچی جگہ رکھا جائے، اور اگر بہت کیا جائے تو ثواب کے لیے اس کی تلاوت کرلی جائے، زیادہ سے زیادہ ناظرہ پڑھ لیا جائے۔ اس سے آگے بڑھ کر اسے سمجھنا اور اس کے پیغام پر غور و فکر کرکے اس پر عمل کرنا، اور معاشرے میں اس کے احکام کو نافذ کرنا تو گویا ہمارے لیے ایک اجنبی خیال اور ناقابلِ فہم تصور ہے۔ عام سوچ یہی ہے کہ یہ ایک نہایت مشکل اور دقیق کتاب ہے جس کا سمجھنا عوام کا کام ہے نہ ان کے بس کی بات۔ یہ علماء و فضلا کا کام ہے۔ حالانکہ خود قرآن مجید کی رہنمائی اور تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ بار بار اپنے بارے میں یہ وضاحت کرتا ہے کہ یہ کتاب پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے واضح، آسان اور روشن دلیل ہے، جو صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔
زیرنظر مختصر مگر جامع کتابچہ ’’قرآن: واضح، مفصل اور آسان (کلام الٰہی کی اپنی گواہی)‘‘ کا موضوع یہی ہے۔ مؤلف ڈاکٹر محمد شریف نظامی دیباچے میں اس طرزِعمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مندرجہ بالا رویوںکا سبب کیا ہے؟ اس کی ٹوہ لگانے آگے بڑھتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بنیادی وجہ قرآن فہمی کا ادراک نہ ہونا ہے۔ اس ضمن میں یہ افسوسناک امر بھی اپنی سنگینی کے ساتھ سامنے آتا ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، وکیل، صحافی اور سول سروس کے عہدیداران تو کجا، اعلیٰ ترین ڈگریوں والے (پی۔ ایچ۔ ڈی، ایف آر سی ایس،چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور بیرسٹر ایٹ لا وغیرہ) معاشرے کے مؤثر حضرات میں سے بلا خوفِ تردید 99 فیصد نے ایک بار بھی پورے قرآن حکیم کو اس توجہ سے نہیں سمجھا ہوگا جس قدر اپنی ڈگریوںکے حصول میں دماغ کھپایا… اور نہ ہی اس کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کیا۔
قرآن فہمی سے دوری کی ایک اہم وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ قرآن مجید ایک ایسی زبان میں ہے جو ہمارے ملک کے کسی ایک طبقے کی بھی مادری زبان نہیں۔ لہٰذا اس کا سمجھنا ہمارے لیے مشکل اور بس سے باہر ہے۔ اس لولے لنگڑے عذر کا فوری جواب تو یہ ہے کہ جی ہاں انگریزی تو ہماری مادری زبان ہے ناں! جس کو عروج و ترقی کا زینہ سمجھتے ہوئے اس میں مہارت حاصل کرنے والے ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے بال سفید ہوجاتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر محمد شریف نظامی علم کیمیا میں پی ایچ ڈی ہیں اور پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سے چیف سائنٹفک آفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ یوں بنیادی طور پر سائنسی تحقیق سے وابستگی کے باوجود دینی علم اور اردو ادب سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ چنانچہ اردو اور انگریزی میں سائنسی، معلوماتی اور اسلامی موضوعات پر ان کے کم و بیش چار درجن مقالات و مضامین پاکستان ہی نہیں چین، برطانیہ، پولینڈ اور امریکہ کے بین الاقوامی اہمیت کے حامل رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ سائنسی تحقیق کے میدان میں ان کی کاوشوں کے اعتراف میں انہیں ’’لیڈر ان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ (امریکہ) اور ’’انٹرنیشل مین آف دی ایئر 2001ء‘‘ برطانیہ کے اعزازات سے نوازا گیا، جب کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز نے انہیں ’’شیلڈ آف آنر‘‘ عطا کی۔ ڈاکٹر شریف نظامی طبعاً ایک درویش منش انسان ہیں، ہر طرح کے تکبر اور ریا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا ہے۔ اسلام اور امتِ مسلمہ کے لیے درد ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، چنانچہ سرکاری ملازمت سے فراغت کے بعد خود کو انہی مقاصد کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں، اور آج کل ملک میں اردو کے سرکاری سطح پر نفاذ کے لیے شب و روز کوشاں ہیں اور ’’قومی زبان تحریک‘‘ کی قیادت کررہے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ بھی ان کے دردِ دل کا عکاس ہے جس میں انہوں نے ملتِ اسلامیہ پاکستان کو قرآن کی طرف رجوع کرنے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت کی جانب متوجہ کیا ہے۔
کتابچے کے آغاز میں سابق انسپکٹر جنرل پولیس سلیم لون صاحب کی تحریر ’’گزارش احوال‘‘ شامل کی گئی ہے، اس نہایت مؤثر تحریر کا اختتام وہ ان سطور پر کرتے ہیں:
’’یہ کتاب ثواب کے ساتھ ساتھ کتابِ انقلاب بھی ہے، جس کا ثبوت مسلمان امت کا دورِ اوّل ہے۔ آج بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ اور ترجیحات کو درست کرکے خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو قرآن فہمی کے ذریعے ہدایت کے بے پناہ خزانوں سے محروم ہونے سے بچا لیں۔‘‘
کتابچے میں مؤلف نے قرآن حکیم کی آیات کو دو عنوانات کے تحت جمع کیا ہے۔ پہلا عنوان ہے ’’صاف صاف اور واضح‘‘، جس میں وہ آیات درج ہیں جن میں خود اللہ تعالیٰ یہ وضاحت فرماتا ہے کہ قرآن کی آیات گنجلک اور ناقابلِ فہم نہیں بلکہ نہایت واضح اور صاف ہیں۔ دوسرا عنوان ’’مفصل اور آسان‘‘ ہے، اور اس حصے میں خود قرآن کا یہ دعویٰ سورتوں کے حوالوں، متن اور ترجمے سے اجاگر کیا گیا ہے کہ یہ مشکل نہیں بلکہ آسان فہم اور مفصل ہے۔ کتابچے کے آخر میں ماہرالقادری مرحوم کی مشہور نظم ’’قرآن کی فریاد‘‘ بھی شاملِ اشاعت کردی گئی ہے، جو یقینا اشعار کی زبان میں قرآن سے مسلمانوں کی بے رخی اور لاتعلقی کی نہایت مؤثر الفاظ میں تصویرکشی ہے۔ اس نظم کی شمولیت سے کتابچہ زیادہ مؤثر، بامقصد، جاندار اور مفید ہوگیا ہے۔ کتابچے کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ کوئی افادۂ عام کے لیے وسیع پیمانے پر شائع کرنا چاہے تو مؤلف کی اجازت سے یہ نیک کام کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر شریف نظامی کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کا توشہ بھی بنائے۔

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد