گزشتہ دورِ حکومت میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاس بھاری اکثریت نہیں تھی، اس لیے وہ خواہش کے باوجود کشمیر کے حوالے سے کوئی بڑا ایڈونچر نہ کرسکا۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اور بھارت میں الیکشن کے بعد کشمیر کے حوالے سے پاکستانی پالیسی کیا رہی اور کیا ہوتا رہا، اس کا جائزہ لینے سے آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ بھارت کو کشمیر کے بارے میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی جرات کیوں ہوئی۔ کیونکر بھارتی پالیسی سازوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب پاکستان مسئلہ کشمیر سے بہت حد تک پیچھے ہٹ چکا ہے، بھارت کے ساتھ تعلقات اس کی مجبوری ہیں اور اب پاکستان کشمیر کے حوالے سے کچھ بھی کرنے سے باز رہے گا۔ ذرا جائزہ لیتے ہیں:
وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی مودی کو خط لکھا، جس پر سردمہری کا اظہار کیا گیا۔ اس کے باوجود مذاکرات کی بات کردی گئی جس کی بھارتیوں کی جانب سے باقاعدہ تردید بھی کی گئی۔ الیکشن میں مودی کی جیت کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ مودی کی جیت کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کی جیت پر مبارکبادیں دی گئیں۔ نوجوت سنگھ سدھو کو حلف برداری کی تقریب میں بلا کر آرمی چیف کے قریب ہونے اور پیار کی جپھی ڈلوائی گئی۔ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا گیا جس کا مقصد بھارت میں پاکستان کا مثبت تاثر پیدا کرنا قرار دیا گیا۔ مندروں کی بحالی کے لیے اربوں کے فنڈز جاری کیے گئے، اس سلسلے میں سیالکوٹ میں مندر کا باقاعدہ افتتاح بھی ہوچکا۔ کرتارپور کوریڈور کے لیے ترلے کیے گئے۔ پوری پاکستانی قیادت اس تقریب میں شریک ہوئی جسے بھارت نے اپنی خوشامد سمجھ لیا۔ بار بار مذاکرات ملتوی کرنے کے باوجود پاکستان کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے پر زور دیا گیا۔ وزیراعظم کی جانب سے یہ بات کی گئی کہ وہ بار بار بھارتی وزیراعظم کو فون کررہے ہیں لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔ جہادی تنظیموں کے خلاف ملکی تاریخ کا سخت ترین کریک ڈاؤن کیا گیا۔ حافظ سعید اور دیگر کو نظربند کرنے کے بجائے پہلی مرتبہ باقاعدہ دہشت گردی کے مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔ علی امین گنڈاپور جیسے بندے کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ اور امورِ کشمیر کا وزیر بناکر غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا گیا۔ مدارس کے خلاف شکنجہ کسا گیا ہے اور عالمی سطح پر یقین دہانیاں کرا دی گئی ہیں کہ ان کا نصاب وغیرہ تبدیل کردیا جائے گا۔ سلامتی کونسل میں بھارت کو ووٹ دیا گیا۔ بھارتی حملے کے دوران گرفتار ہونے والے پائلٹ ابھی نندن کو دو دن میں واپس بھیج دیا گیا۔ پاکستان نے معمولی عالمی دباؤ پر بھارت کے لیے فضائی روٹ کھول دئیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی بات کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے اب مسئلہ کشمیر حل ہونے کو ہے اور ہماری ساری امید امریکی صدر سے وابستہ ہے۔ ہم نے تو یہ سب کر دکھایا لیکن بھارت ہمارے ہر اقدام کو کمزوری سمجھتا رہا۔
انڈیا کو یہ سب کرنے کی ہمت کیوں ہوئی؟ اس نے ہمیں کیوں اتنا کمزور اور بے توقیر سمجھا؟
دراصل ہم سیاست میں مصروف تھے۔۔۔۔۔ اندرونی سیاست میں، گرفتاریوں، جلسوں، گرما گرم بیانات اور الزام تراشیوں میں۔ کشمیر کے حالات اور کنٹرول لائن پر نظر رکھنے کے بجائے سائبر ٹیمیں بناکر سیاسی ٹرینڈز چلوا رہے تھے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ اب پاکستانی صرف ٹوئٹر پر جنگ لڑ سکتے ہیں۔ ان کی توجہ اب دفاع پر نہیں صرف آپس کی لڑائیوں پر ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم کسی کو مورد الزام ٹھیرا دیں، کسی کی حب الوطنی پر شک کریں۔ ایک ایسا ملک جس کی حکومت اور اپوزیشن باہم دست و گریبان ہوں، ہر کوئی ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہا ہو، ادارے ویڈیوز جاری کررہے ہوں یا کسی ویڈیو کی وضاحت میں لگے ہوں، معیشت اس حد تک گر چکی ہو کہ اسٹاک مارکیٹ 20 ہزار پوائنٹس کی تنزلی کا شکار ہوجائے، اہلِ اقتدار کے اقدامات سے ایسا لگے کہ ان کی اب ساری امید کسی بیرونی ریاست کے صدر کی ثالثی پر ہے، اور ہم ہر صورت اپنا مثبت تاثر پیش کرنے کے چکر میں یہ بھول یہ جائیں کہ بعض اوقات ”لاتوں کے بھوت، باتوں سے نہیں مانتے“، کشمیر پر بات کرنے والی ہر آواز کو عالمی دباو پر خاموش کرا دیا گیا ہو، حتیٰ کہ ہمارا نام نہاد ثالث کشمیر کے لیے بات کرنے والے ایک رہنما کی گرفتاری کو اپنے دباو کا نتیجہ اور کامیابی قرار دے۔۔۔ اس کے دشمن جرات مند ہو ہی جاتے ہیں، وہ اپنی من مرضی کرتے ہیں، کوئی بھی ان کے خلاف بولنے والا نہیں ہوتا۔
ٹرمپ سے امیدیں لگانے والوں کو 1971ء یاد رکھنا چاہیے جب امریکی بحری بیڑا نہ آنا تھا، نہ آ سکا۔
الوداع کشمیریو! ہم مصروف تھے، ہم مصروف ہیں۔ تمہارا اللہ حافظ
(عاصم حفیظ۔۔۔شیخوپورہ)
پاکستان میں صحت سے متعلق آگہی کی ضرورت
اعداد و شمار کے مطابق جسمانی، نفسیاتی، ذہنی امراض میں ملک کی ایک تہائی آبادی مبتلا ہے۔ اس کی بڑی وجہ آگہی کی کمی ہے۔ دیگر وجوہات یہ ہیں: اکثریت کو خالص اور متوازن غذا میسر نہیں ہے۔ معاشی تنگی کی وجہ سے لوگ بہتر غذا خرید نہیں پاتے اور بہتر علاج نہیں کرا پاتے۔ ملک کی 99 فیصد آبادی کو نہیں معلوم کہ غذائی چارٹ کیسے بنائیں، کھانوں کا انتخاب کیسے کریں۔ سرکاری اسپتالوں میں صفائی اور طبی سہولتوں کی کمی رہتی ہے، معیاری اسپتالوں میں فیس بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی ہر ایک استطاعت نہیں رکھتا۔ اکثر ڈاکٹر مریضوں کو مہنگی اور ضرورت سے زائد ادویہ تجویز کرتے ہیں تاکہ انہیں زیادہ فیس ملے اور ادویہ کی خریداری پر بھی وہ کمیشن لیتے ہیں۔ نجی اسپتالوں کی انتظامیہ غیر ضروری طور پر مریضوں کو زیادہ دن اسپتال میں رکھتی ہے تاکہ زیادہ پیسے بناسکے۔ ایک جنرل فزیشن مریض کو فوری آرام کے لیے انجکشن بھی لگادیتا ہے۔ درد سے فوری آرام دینا ایمرجنسی میں بہت ضروری ہوتا ہے۔ لیکن عمومی امراض میں فوری علاج کے بجائے مستقل اور مناسب علاج ہونا چاہیے۔ یہ کام ماہر طبیب کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو اگر بنیادی طبی اصولوں اور غذائی چارٹ پر معلومات دی جائیں تو امراض میں کمی ممکن ہے۔ لیکن پاکستان میں عام لوگ خود اپنی صحت سے لاپروائی برتتے ہیں۔ سگریٹ، پان، گٹکے کا بے تحاشا استعمال انسانی جسم اور دماغ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اشیاء مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں اور لوگ انہیں خرید کر کھا رہے ہیں۔ لوگ ورزش میں دلچسپی نہیں لیتے اور غذائی پرہیز بالکل نہیں کرتے۔ معذوروں کی تعداد بھی ملک میں اسی لیے زیادہ ہورہی ہے۔ معذور لوگ بھی اگر ابتدا میں ہی جسمانی ورزش، فزیوتھراپی کرلیں تو جسمانی معذوری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو صحت کے بنیادی اصولوں سے متعلق آگہی دی جائے۔ ورزش، غذائی پرہیز، غذائی چارٹ پر عمل کرنے کا رجحان پیدا کیا جائے۔ ایسے مراکزِ صحت ہونے چاہئیں جہاں لوگوں کو صحت سے آگہی دینے کے لیے مفت یا بہت کم فیس پر ماہرین موجود ہوں۔ سرکاری اور نجی سطح پر پورے ملک میں ایک بھی مرکز ایسا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی امراض کی عمومی وجوہات یہ ہیں:
گھریلو لڑائی جھگڑے، معاشی تنگی، پسند کی شادی نہ ہونا، کوئی ذہنی صدمہ، والدین کی طرف سے بچوں کو مناسب تربیت اور ماحول کا نہ ملنا، شوہر بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا۔ ماہر نفسیات کا کام یہ ہوتا ہے کہ ایسے مریضوں اور ان کے گھر والوں سے تبادلہ خیال کرکے ان کی نفسیاتی اُلجھن کی اصل وجہ معلوم کرے اور مشاورت کرے، تاکہ مریض کو اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد مل سکے اور وہ نارمل زندگی بسر کرسکے۔ لیکن زیادہ تر ماہرین فوری طور پر مریض کو سکون پہنچانے والی ادویہ دیتے ہیں اور اصل وجہ معلوم نہیں کرپاتے۔ وہ بے مقصد لمبی گفتگو مہینوں بلکہ برسوں مریض سے کرتے رہتے ہیں جبکہ اصل وجہ معلوم کرنا صرف تین سے چار نشست (سیشن) میں ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایلوپیتھی طریقہ علاج سب سے مقبول ہے، اس کے بعد جڑی بوٹیوں سے علاج اور ہومیوپیتھی طریقے ہیں۔ جڑی بوٹیوں کے (ہربل) طریقۂ علاج کو پاکستان میں مزید فروغ ملنا چاہیے۔ کیونکہ یہ قدرتی طریقہ ہے اور لمبا عرصہ استعمال کرنے سے ضمنی اثرات بہت ہی کم ہوتے ہیں، اس کے برعکس ایلوپیتھی ادویہ کے ضمنی اثرات بہت ہوتے ہیں۔ فوری (ایمرجنسی حالت) اور پیچیدہ نوعیت کے امراض میں سرجری میں ایلوپیتھک طریقہ زیادہ کارآمد ہے، تاہم عمومی امراض کا قدرتی جڑی بوٹیوں سے علاج کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ پاکستان میں کئی معیاری ہربل کمپنیاں ہربل پروڈکس تیار کررہی ہیں۔ پاکستانی عوام کو ہربل ادویہ ماہر طبیب کے مشورے سے استعمال کرنی چاہئیں۔
(نوید خان… کراچی)