کچی عمر کے خطرات

لڑکے ہوں یا لڑکیاں، جب وہ جوانی کی سرحد میں قدم رکھتے ہیں تو ایک خطرناک موڑ پر ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کی جذباتی کیفیت انہیں گمراہ کرسکتی ہے۔ ذہن ناپختہ ہوتا ہے، گھر میں توجہ نہیں ملتی، ہمدرد اور دوست کی تلاش میں باہر نظر جاتی ہے، کوئی بھی چند میٹھے بول بول کر انہیں فریب دے سکتا ہے۔ اخبارات، ٹیلی ویژن کی فحاشی اور طرح طرح کی تقاریب کے رنگ ذہنی کج روی بھی پیدا کرتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اسکول ہو یا کالج یا گھر، ہر موڑ پر آوارہ نوجوانوں اور پیشہ ور بدمعاشوں کا سامنا ہوتا ہے۔ کچھ قیمتی لباس میں شاندار کاروں میں آتے ہیں، کچھ پیدل ہوتے ہیں اور دور تک پیچھا کرتے ہیں۔ پہلے فقرے بازی ہوتی ہے، پھر چھوٹی سی چٹ یا لمبا چوڑا خط پکڑا دیا جاتا ہے۔ ایسے موقع پر لڑکی کانپ جاتی ہے، اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس چٹ یا خط کا کیا کرے! اسے پھینکنے کو بھی جی نہیں چاہتا، پاس رکھنا بھی خطرناک ہے۔ اس موقع پر اگر لڑکی اپنے والدین کو اعتماد میں نہ لے اور ایک غلط حرکت گوارا کرلے تو ایک کے بعد دوسری غلط حرکت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اور لڑکی آہستہ آہستہ جال میں پھنستی چلی جاتی ہے۔ اس سارے چکر میں اگر اور کچھ نہ ہو، سب خیریت رہے، تب بھی لڑکی اپنی ذہنی پاکیزگی اور معصومیت کا بڑا حصہ کھو دیتی ہے، قلب و نظر گناہ آلود ہوجاتے ہیں۔ نوخیز لڑکیوں کی طرح اس عمر کے لڑکوں کا بھی مسئلہ ہے کہ قدم قدم پر اچھے لوگ کم، برے لوگ زیادہ ہوتے ہیں، اور اچھے لوگ اتنے ہمدرد اور دوست نظر نہیں آتے جس قدر کہ برے لوگ انہیں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر گھروں میں نوخیز اولاد پر نظر رہے، ان کے ساتھ محبت و ہمدردی کا برتائو ہو، وہ بڑوں سے ڈرنے کے بجائے انہیں اپنا دوست سمجھیں تو گھر سے باہر انہیں محبت کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لڑکیوں، لڑکوں کا آج ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ زیبائش اور بنائو سنگھار کی نئی نئی چیزیں ان کے دل کو للچاتی ہیں، یہ ایک ایسی کمزوری ہوتی ہے جس کو تحفے تحائف دینے والے جانتے ہیں اور اس سے غلط مراسم پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی اس کمزوری سے محفوظ رکھنے کی تدبیر کیجیے۔ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کا حلقہ ملاقات وسیع ہوتا ہے اور وہ آپس میں کھل کر گفتگو کرلیتے ہیں، بہت سی چیزوں کے بارے میں انہیں معلومات حاصل ہوتی ہیں اور ترغیب و تحریص کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن لڑکیاں ایک محدود دائرے میں رہتی ہیں اور اس دائرے میں بھی کھل کر گفتگو نہیں کرسکتیں، انہیں گھر سے باہر کی دنیا کے بارے میں صحیح علم نہیں ہوتا کہ یہ دنیا کیسی ظالم ہے اور کیسی بری جگہ ہے۔ اس لیے ان کا دھوکے میں آنا آسان ہے، اور غلط راہ پر ایک قدم ہی ان کی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ لڑکے غلط راہ پر جاکر صحیح راہ پر واپس آسکتے ہیں، لیکن لڑکی ایک بار کسی غلط ہاتھ میں پہنچ گئی تو ہمیشہ کے لیے پھنس جاتی ہے، اس کی واپسی کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ بعض لڑکیوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ جس کو وہ کھیل یا مذاق سمجھ رہی ہیں یہ کس قدر خطرناک ہے۔ ایک نے خط پھینکا دوسری نے جواب دیا، اور یہ تحریر اسے بلیک میل کرنے کے لیے کافی ہے۔ پھر ایک لڑکی اپنی ہمجولیوں کو بھی پھنسانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ زمانے کے ہاتھوں ایسے زخم کھاتی ہے کہ یہ زخم کسی کو بتا بھی نہیں سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہر لڑکی کو مشتبہ سمجھا جائے اور اس پر بے جا سختی کی جائے، لیکن کچی عمر میں ان کی نفسیات سمجھنے، انہیں ذہنی طور پر مطمئن رکھنے، صحیح راہ واضح کرنے اور اچھے برے کی پہچان کرانے کی ضرورت ہے۔ اس میں والدین یا سرپرستوں کی کوتاہی لڑکی کے مستقبل پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
لڑکوں کا معاملہ بھی آج کل اچھا نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی صحبت کیسی ہے؟ دوست احباب کس اہمیت کے حامل ہیں؟ اس کی مستقل جاسوسی فائدہ نہیں دے گی۔ لڑکوں میں اتنی سمجھ بوجھ اغازِ جوانی میں ہی پیدا کردینی چاہیے کہ وہ نیک صحبت کو بری صحبت پر ترجیح دیں۔ یہ انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ انسان اچھائی سے زیادہ برائی میں کشش محسوس کرتا ہے۔ شیطان ہر برائی کو خوشنما اور خوش کن بناکر پیش کرتا ہے۔ اس لیے نوجوان لڑکوں کو بھی آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے۔ آزاد چھوڑنے کا مطلب ان کو تنہا چھوڑنا ہے، اور اگر وہ تنہا ہوجائیں گے تو شیطان کو ان کا رفیق بننے کا موقع مل جائے گا۔ اس لیے والدین، سرپرست، بڑے بھائی، بڑی بہنیں سب نو عمر لڑکوں، لڑکیوں کے معاملات میں دلچسپی لیں۔ ان سے بے تکلفانہ بات چیت کریں تاکہ وہ اپنا حالِ دل کہہ سکیں، اور اندر ہی اندر گھٹنے کا سلسلہ نہ رہے، اور نہ یہ محسوس ہو کہ ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ بچوں کی محبت دل میں ضرور ہوتی ہے لیکن اس محبت کا اظہار بھی ہونا چاہیے، اور محبت کی یہ طاقت ہی انہیں غلط راستے پر جانے سے روک سکتی ہے۔ اپنے بچوں سے محبت کرنے والے بنیں، ان کے رازدار بنیں، ان کے دوست اور مشیر بنیں، پھر کسی اور کو انہیں گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
مسئلہ صرف نوخیز لڑکیوں کا نہیں ہے، ان کا بھی ہے جو ابھی کمسن ہیں، عہدِ طفولیت میں ہیں، انہیں بھی گلی کوچوں میں منہ اٹھائے ہر جگہ جانے اور گھومنے پھرنے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بچیاں ہیں مگر ان کا لباس بھی نیم عریاں نہیں ہونا چاہیے۔ آج کی دنیا میں بدکاروں کی نظر سے چھوٹی بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں، اور یہ ان کی درندگی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم آج ایک خطرناک ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں انسانوں کے ساتھ درندے بھی بستے ہیں۔
اس لیے چھوٹی بچیوں کا مسئلہ بھی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ اور بچیاں ہوں یا نو عمر لڑکیاں، لباس سب کا سادہ ہونا چاہیے، ایسے فیشن اور ایسا بھڑک دار نہیں ہونا چاہیے کہ دعوتِ گناہ دے اور گناہ کی ترغیب کا ذریعہ ہو۔ بچیوں کو بھی ابتدا سے ہی ’’حجاب‘‘ سکھایئے۔ صرف رسمی رواجی پردہ کوئی محفوظ چیز نہیں ہے۔ شیطان سے حفاظت کے لیے ذہن و نظر، لباس، چال ڈھال، عادات و اطوار میں ’’حجاب‘‘ کارفرما ہونا چاہیے۔ یہی ان کی حفاظت کرے گا۔ باقی اللہ سے دعا کرتے رہیے کہ وہ آپ کے گھرانے کو محفوظ رکھے۔