آزادئ اظہار کے “تاج محل” میں “سینسر کی جھگیاں”۔

آزادیِ اظہار اگر حقیقی معنوں میں آزادیِ اظہار ہو تو وہ ایسا آئینہ ہوتی ہے جو حکمرانوں کے ظاہر ہی کو نہیں باطن کو بھی آشکار کردیتی ہے

دنیا بھر کے حکمرانوں کو آزادیِ اظہار کے تاج محل میں ’’سینسر کی جھگیاں‘‘ تعمیر کرنے کا بڑا شوق ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں میں یہ شوق کچھ زیادہ ہی ہے۔ چنانچہ وہ سینسر کی جھگی کو کئی منزلہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک کوئی سیاست دان اقتدار میں ہوتا ہے وہ آزادیِ اظہار کا مخالف ہوتا ہے، مگر اقتدار سے باہر ہوتے ہی وہ اور اُس کی جماعت ’’نیک پروین‘‘ بن جاتے ہیں اور آزادیِ اظہار کے ترانے گانے لگتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت نواز لیگ ہے۔ اطلاعات کے مطابق نواز لیگ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک میں آزادیِ اظہار کی راہ ہموار کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ نواز لیگ کو شکایت ہے کہ عمران خان کی حکومت آزادیِ اظہار کی دشمن بن چکی ہے۔ وہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر دبائو ڈال رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت یقیناً ایسا ہی کررہی ہوگی، مگر میاں نوازشریف اور آزادیِ اظہار کے باہمی تعلقات پر ایک نظر ڈالنے میں کیا برائی ہے! آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے ایک بار کہا تھا کہ ہم نے ’’نظریاتی صحافیوں‘‘ کی ایک ٹیم تیار کی تھی مگر نوازشریف اس ٹیم کو لے اُڑے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جن لوگوں کے ’’نظریات‘‘ ہوتے ہیں اُنہیں کوئی لے کر نہیں اُڑ سکتا۔ مولانا محمد علی جوہر اور حسرت موہانی انگریزوں کے زمانے کے صحافی تھے، مگر انگریزوں کی عالمی طاقت بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ چنانچہ جنرل حمید گل نے جو ’’نظریاتی صحافی‘‘ تیار کیے ہوں گے وہ یقیناً نظریاتی نہیں ہوں گے۔ مگر یہاں جنرل حمیدگل کے اظہار پر توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ نوازشریف صحافیوں کو لے اُڑے۔ ’’لے اُڑنے‘‘ کا تجربہ بتاتا ہے کہ میاں صاحب نے صحافیوں کو کرنسی اور مراعات کے پَر لگادیے ہوں گے۔ اس کے بغیر کم از کم کوئی صحافی میاں صاحب کے ساتھ نہیں اُڑ سکتا۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہے جب میاں نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے اور انہوں نے میر شکیل الرحمن کے انگریزی اخبار دی نیوز کی مدیر ملیحہ لودھی پر ایک قابلِ اعتراض نظم شائع کرنے کے الزام میں ’’غداری‘‘ کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اُسی زمانے میں میاں نوازشریف نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اخبارات کے مطالعے نے میرے بال سفید کردیے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اخبارات کا مطالعہ حکمرانوں کو ’’صاحبِ نظر‘‘ بناتا ہے، البتہ آمروں کے بال اخبارات کے مطالعے سے واقعتاً سفید ہوجاتے ہیں، بلکہ اخبارات کا مطالعہ میاں صاحب جیسے حکمرانوں کا خون بھی سفید کردیتا ہے۔
چیک ادیب میلان کنڈیرا نے چالیس سال پہلے کہا تھا: آمریت کے خلاف انسان کی جدوجہد بھول کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے۔ میلان کنڈیرا کے زمانے میں آمریت سے مراد صرف فوجی آمریت اور کمیونسٹ آمریت تھی، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے آمریت کی سلطنت بہت وسیع ہوگئی ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ قوموں کو فوجی آمریت اور شاہانہ آمریت کا خطرہ درپیش ہے بلکہ جمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام نے ’’سول آمریت‘‘، ’’کارپوریٹ آمریت‘‘، ’’ذرائع ابلاغ کے مالکان کی آمریت‘‘ اور صحافیوں کے مفادات کی آمریت بھی پیدا کردی ہے۔ آمریت کی یہ تمام اقسام آزادیِ اظہار کے تاج محل میں کھلے اور ڈھکے چھپے سینسر کی جھگیاں تعمیر کررہی ہیں۔ چنانچہ آزادیِ اظہار کا تاج محل جھگی پاڑے کا منظر پیش کررہا ہے۔
پاکستان میں پریس سینسرشپ کا آغاز جنرل ایوب کے زمانے سے ہوا۔ جنرل ایوب خود کو ’’مردِ آہن‘‘ باور کراتے تھے، مگر ’’آزاد پریس‘‘ سے وہ اس طرح ڈرتے تھے جیسے آزاد پریس، آزاد پریس نہ ہو، جنرل ایوب کا آقا امریکہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈی نینس کے ذریعے آزاد پریس کو ’’غلام پریس‘‘ میں ڈھال لیا۔ غلام پریس کے مفہوم سے لوگ آگاہ نہیں، غلام پریس کا مفہوم ہے ’’No Press‘‘۔ ہمارے حکمرانوں کو غلام پریس بہت اچھا لگتا ہے، اس کی نفسیاتی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران خود کسی نہ کسی کے غلام ہوتے ہیں۔ کوئی امریکہ کا غلام، اور کوئی اسٹیبلشمنٹ کا غلام۔ کوئی بیک وقت دونوں کا غلام۔ ظاہر ہے غلام انسان دوسرے انسانوں کو آزاد نہیں دیکھ سکتا۔
ایچ جی ویلز نے کہیں لکھا ہے کہ سلطنتِ روما اس لیے زوال پذیر ہوئی کہ اُس زمانے میں اخبارات موجود نہیں تھے۔ ایچ جی ویلز کے اس قول سے استفادہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اس لیے ٹوٹا کہ آزاد پریس موجود نہیں تھا۔ جس وقت مشرقی پاکستان میں فوج اور مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا، الطاف حسین قریشی لکھ رہے تھے کہ وہاں محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ جنرل یحییٰ نے سقوط سے کچھ عرصہ پہلے فرمایا تھا کہ قوم گھبرائے نہیں ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ جنرل نیازی نے سقوطِ ڈھاکا سے ایک ہفتہ پہلے کہا تھا کہ بھارتی فوج ہماری لاشوں سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوگی۔ 15 دسمبر 1971ء تک کوئی نہیں کہہ رہا تھا کہ ملک ٹوٹنے والا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا ہوا تو معلوم ہوا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں نہیں تھا، بلکہ انتہائی کمزور ہاتھوں میں تھا۔ جنرل نیازی کا 16 دسمبر کو یہ حال تھا کہ وہ زندہ تھے اور بھارتی جنرل کے آگے ہتھیار ڈالنے سے ذرا پہلے انہیں فحش لطیفے سنا رہے تھے۔ جنرل رائو فرمان علی نے ایک بار ہفت روزہ تکبیر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ مشرقی پاکستان سے چھٹی پر گھر آئے تو ان کی ماسی نے اُن سے کہا ’’غدار بنگالیوں‘‘ کو سبق سکھا دیجیے گا۔ یہ غلام پریس کے پروپیگنڈے کا نتیجہ تھا۔ 1970ء کی دہائی میں پریس آزاد ہوتا تو وہ بتاتا کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟ مگر چونکہ پریس کا بڑا حصہ جنرل ایوب کے زمانے سے ’’پالتو‘‘ چلا آرہا تھا، اس لیے 15 دسمبر تک کسی پاکستانی کو علم نہ ہوسکا کہ اس کا ملک چند گھنٹوں میں دو ٹکڑے ہونے والا ہے۔ غلام پریس کی اتنی بڑی قیمت شاید ہی کسی قوم نے ادا کی ہو جتنی ہم نے کی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو خود کو ’’عوامی‘‘ بھی کہتے تھے اور ’’جمہوری‘‘ بھی۔ مگر وہ نہ عوامی تھے اور نہ جمہوری۔ وہ صرف ایک ’’سول آمر‘‘ تھے۔ چنانچہ انہوں نے بھی آزاد پریس کو کچلنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ان کے دور میں روزنامہ جسارت سمیت کئی اخبارات و جرائد کو بند کیا گیا۔ کئی صحافیوں اور ناشروں کو پابندِ سلاسل کیا گیا۔ بھٹو صاحب نے سرکاری اشتہارات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ بھٹو صاحب مغرب کے تعلیمی اداروں کے پڑھے ہوئے تھے، مگر مغربی تعلیم بھی ان کے جاگیردارانہ اور آمرانہ مزاج کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ تنقید کا ایک ایک لفظ انہیں دشمن کا فوجی نظر آتا تھا۔
جنرل ضیاء الحق ’’اسلامی‘‘ تھے، مگر ان کے اسلام میں ضمیر کی آزادی ’’گناہِ کبیرہ‘‘ تھی، اور انہوں نے اس گناہِ کبیرہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے صحافیوں کو ڈرایا، دھمکایا، انہیں کوڑے لگائے، جیلوں میں ڈالا۔ مگر انہوں نے صحافیوں کے ساتھ اس سے بھی بُرا سلوک کیا۔ انہوں نے درجنوں اہم صحافیوں کے ضمیر کو خرید لیا۔ ایک بار نوائے وقت کے مالک مجید نظامی نے پریس کانفرنس میں جنرل ضیاء الحق سے تنقیدی سوال پوچھا تو جنرل ضیاء الحق نے بھری پریس کانفرنس میں کہا کہ نظامی صاحب کیا میں بتائوں کہ میرے اقتدار میں آنے سے پہلے آپ کے ادارے کے مالی حالات کیا تھے اور اب کیا ہیں؟
پریس کے سلسلے میں فوجی آمروں کا نعرہ یہ تھا: ’’ڈرا دو، اٹھالو، جیل میں ڈال دو، مار دو‘‘۔ میاں نوازشریف نے ان تمام امکانات کو ایک نعرے میں ڈھال دیا: ’’خرید لو‘‘۔ چنانچہ میاں نوازشریف کے دربار میں صحافیوں کا ’’جمعہ بازار‘‘ لگ گیا۔ اس بازار میں صحافی کی خبر، انٹرویو، کالم، صفحہ، اسکرین سب کچھ بک گیا۔ میاں نوازشریف کا کمال یہ ہے کہ رائے اور ضمیر کی خریداری کے لیے لاکھوں بھی خرچ کرسکتے ہیں، کروڑوں بھی، اور ضرورت پڑے تو اربوں بھی۔ خریدار ہو تو ایسا ہو۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آزادیِ اظہار کے سب سے بڑے خریدار میاں نوازشریف اور ان کی جماعت اب آزادیِ اظہار کے تحفظ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ حالانکہ پاکستان کے آزادیِ اظہار کے تاج محل میں سینسر کی سب سے زیادہ جھگیاں میاں نوازشریف نے ڈالی ہیں۔
عمران خان خود تسلیم کرتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی سے سب سے زیادہ فائدہ ان کو ہوا۔ وہ ذرائع ابلاغ پر چھائے نہ رہتے تو آج بھی پاکستان کی سیاست میں قابلِ ذکر نہ ہوتے۔ مگر عمران خان بھی آزادیِ اظہار کے اتنے ہی خلاف ہیں جتنے دوسرے حکمران ہیں۔ ان کی خودپسندی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے خود کو پارلیمنٹ میں ’’سلیکٹڈ‘‘ کہنے پر پابندی لگوا دی۔ تحریک انصاف کے کارکنان عمران پر تنقید کرنے والے کالم نویسوں اور اینکرز کو سوشل میڈیا پر گالیاں دیتے ہیں۔ یہ گالیاں کالم نویسوں اور اینکرز کی شخصیت کو بھی ظاہر کرتی ہوں گی، مگر ان سے عمران خان کا باطن زیادہ آشکار ہوتا ہے۔ عمران خان کے اس باطن میں سینسر کی کئی جھگیاں رقص کناں ہیں۔
جنرل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، میاں نوازشریف اور جنرل پرویزمشرف کے ابتدائی زمانے میں ملک کے اندر ایک ہی ٹی وی اسٹیشن تھا، ایک ہی ریڈیو اسٹیشن تھا۔ اخبارات کی رسائی 20 سے 25 لاکھ افراد تک تھی، مگر پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی رسائی کروڑوں افراد تک تھی۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر حکمرانوں کا کامل غلبہ تھا، مگر وہ کروڑوں افراد تک اپنا جھوٹ پہنچاکر بھی مطمئن نہیں تھے۔ انہیں فکر تھی تو اس بات کی کہ آزاد پریس دوچار لاکھ افراد تک بھی سچ کیوں پہنچا رہا ہے؟ اس سے پاکستان کے حکمران طبقے کی کم ظرفی اور تھڑدلی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستانی قوم کو ’’سیاسی حیوانوں‘‘ کی قوم بنادیا ہے۔ اس بات کا سینسر کے تصور سے گہرا تعلق ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے حکمران سیاسی خبروں، تبصروں اور تجزیوں کو تو سینسر کرتے ہیں مگر ذرائع ابلاغ کا وہ مواد جو ہماری روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی زندگی کو تہ و بالا کرنے والا ہے اُس کے سلسلے میں حکمرانوں کا سینسر کبھی بروئے کار نہیں آتا۔ وطنِ عزیز میں جرنیلوں پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ وطنِ عزیز میں فوج پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ وطنِ عزیز میں خفیہ اداروں پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ وطنِ عزیز میں ’’وزیراعظم نوازشریف‘‘ پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ وطنِ عزیز میں وزیراعظم عمران خان پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ وطنِ عزیز میں امریکہ اور یورپ کے اہم ملکوں پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ وطنِ عزیز میں ملٹی نیشنلز پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ وطنِ عزیز میں ملک ریاض پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ وطنِ عزیز میں جاگیرداروں اور وڈیروں پر تنقیدی تبصرہ ’’Risk‘‘ ہے۔ مگر آپ وطنِ عزیز میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، نظریۂ پاکستان، ہماری تاریخ کے بڑے بڑے ہیروز کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ بھی لکھ سکتے ہیں۔ اس کی چند ٹھوس مثالیں ہم پیش کیے دیتے ہیں۔ روزنامہ ڈان کراچی نے ہم جنس پرستی کی حمایت میں ایک پورا صفحہ شائع کیا… کسی جنرل، کسی خفیہ ادارے، کسی حکومت اور کسی ریاست کو کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ حسن نثار نے جیو کے ایک پروگرام میں صاف کہا کہ پردے کے احکامات صرف امہات المومنین کے لیے تھے… کسی جنرل، کسی خفیہ ادارے، کسی حکومت، کسی ریاست نے اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ دی نیوز کراچی میں عافیہ شیربانو نے قندیل بلوچ کی برسی پر پورے صفحے کا مضمون لکھا اور قندیل بلوچ کی جسمانی نمائش کا دفاع کیا… کسی جرنیل، کسی خفیہ ادارے، کسی حکومت اور کسی حکمران کے ماتھے پر بل نہ پڑے۔ ممتاز ڈراما نویس حسینہ معین نے ایک انٹرویو میں چیخ کر کہا کہ پاکستان کا ٹیلی ڈراما اب خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا… کسی جرنیل، کسی خفیہ ادارے، کسی حکومت، کسی ریاست اور کسی حکمران نے اتنی بڑی بات کا نوٹس نہ لیا۔ ڈان میں چار معروف ڈراما نگاروں نے کہا کہ پاکستان میں ڈراما این جی اوز نے اُچک لیا ہے… کسی جنرل، کسی خفیہ ادارے، کسی حکومت، کسی ریاست اور کسی حکمران نے اس سلسلے میں سینسر کو آواز نہ دی۔ ایک ڈراما نگار نے کہا کہ اس سے ڈرامے میں ایک مثبت کردار کو بھی منفی بنانے کے لیے کہا گیا تاکہ یہ تاثر عام ہو کہ دنیا میں کہیں خیر موجود نہیں، ہر طرف بس شر ہی شر ہے، چنانچہ بُرے ہونے میں کوئی بُرائی نہیں… کسی جنرل، کسی خفیہ ادارے، کسی حکومت، کسی ریاست اور کسی حکمران نے یہ نہ سوچا کہ یہ بات ہمارے معاشرے کے لیے کتنی تباہ کن ہے۔ ڈاکٹر مبارک نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ اقبال ایک دہشت گرد شاعر ہے… کسی جنرل، کسی خفیہ ادارے، کسی حکومت، کسی ریاست اور کسی حکمران نے یہ نہ کہا کہ پاکستان میں مصورِ پاکستان پر کسی کو رکیک حملے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سیکولر لوگ آئے دن قائداعظم کو سیکولر باور کراتے رہتے ہیں جو دو سو فیصد جھوٹ ہے، مگر کوئی جنرل، کوئی خفیہ ادارہ، کوئی حکومت، کوئی ریاست اور کوئی حکمران اس کا بُرا نہیں مناتا اور سینسر کو بروئے کار نہیں لاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم بھی صرف سیاسی تبصروں اور تجزیوں کے حوالے سے ’’حساس‘‘ رہ گئی ہے۔ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہمارے ملک کے نظریے پر کوئی کلہاڑا بھی چلادے تو کوئی نہیں چونکتا۔
بلاشبہ آزادیِ رائے ’’مطلق‘‘ نہیں ہوتی۔ اقبال نے صاف کہا ہے ؎

گر فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
٭٭
ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

اِن شعروں کا مفہوم یہ ہے کہ کسی اسلامی معاشرے میں وہ آزادیِ فکر بروئے کار نہیں لائی جاسکتی جو انسان کو خدائی احکامات کا پابند تسلیم نہ کرتی ہو۔ ایسی آزادیِ افکار کو اقبال نے ابلیس کی ایجاد کہا ہے۔ اس طرح اقبال نے یہ حقیقت عیاں کردی ہے کہ آزادیِ فکر انہی لوگوں کے لیے زیبا ہے جو پختہ فکر کے حامل ہوں۔ جو اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ میں گہری جڑیں رکھتے ہوں۔ اگر فکر مذکورہ بالا معنوں میں پختہ نہ ہو تو آزادیِ افکار انسانوں کو حیوان بنانے کا عمل بن جاتی ہے۔ مگر تماشا یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’ابلیس کی ایجاد‘‘ اور انسانوں کو حیوان بنانے والی آزادیِ اظہار تو خوب پھل پھول رہی ہے، مگر جو آزادیِ فکر مذہب، تہذیب اور تاریخ کے تناظر میں حکمرانوں کے حوالے سے بنیادی سوالات اُٹھاتی ہے اس کو کوئی برداشت نہیں کرتا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر حکمران طبقہ آزادیِ فکر کے تاج محل میں سینسر کی جھگی کیوں ڈالتا ہے؟
سیاست اور صحافت کی نوعیت میں ایک دائمی کشمکش کا رشتہ ہے۔ سیاست جس بات کو ’’Conceal‘‘ کرنا چاہتی ہے صحافت اسے ’’Reveal‘‘ کرنا چاہتی ہے۔ چنانچہ حکمران پوشیدہ بات کو پوشیدہ رکھنے کے لیے آزادیِ اظہار کے تاج محل میں سینسر کی جھگیاں ڈالتے ہیں۔
افلاطون نے کہا تھا کہ سیاست کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے، یا تو حکمران کو فلسفی بنادو یا فلسفی کو حکمران۔ افلاطون نے یہ بات کہہ کر سیاست کو علمی فضیلت کے تابع کیا تھا، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے سیاست کا نعرہ یہ ہوگیا ہے: یا تو حکمران کو بدمعاش بنادو، یا بدمعاش کو حکمران۔ ظاہر ہے کہ جب سیاست اور جرم یک جا ہوجائیں گے تو وہ آئینے کو کیسے برداشت کرسکیں گے! آزادیِ اظہار اگر حقیقی معنوں میں آزادیِ اظہار ہو تو وہ ایسا آئینہ ہوتی ہے جو حکمرانوں کے ظاہر ہی کو نہیں باطن کو بھی آشکار کردیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جو حکمران آزادیِ اظہار کے تاج محل میں سینسر کی جھگیاں ڈالتے ہیں وہ دراصل آئینے کو دھندلانے یا توڑنے کا کام کرتے ہیں۔