ایف 16 طیاروں کے لیے لاجسٹک سپورٹ، حقیقت کیا ہے؟۔

لاجسٹک سپورٹ فروخت کیے گئے طیاروں کو قابو میں رکھنے کا ایسا بندوبست ہے جس کی قیمت پاکستان کے ٹیکس دہندگان ادا کریں گے

امریکہ نے پاکستان کے زیرِ استعمالF-16 طیاروں کو آلات اور لاجسٹک معاونت فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس فیصلے کا اعلان امریکی ڈیفنس سیکورٹی کوآپریشن ایجنسی (ڈی ایس سی اے) نے محکمۂ خارجہ کی منظوری کے بعد 26 جولائی کو کیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس معاونت پر 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔
اس اعلان پر تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر شور بلکہ چائے کی پیالی میں جو طوفان برپا ہوا، وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ چند چیختی چنگھاڑتی شہ سرخیاں کچھ اس طرح ہیں:
٭امریکہ نے وزیراعظم عمران خان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے
٭وزیراعظم کے کامیاب دورۂ امریکہ کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے
٭اسلحہ پر پابندی کا خاتمہ
٭صدرٹرمپ نے پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرلیا
٭ہندوستان میں صفِ ماتم بچھ گئی
معاونت اور لاجسٹک سپورٹ سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ گویا امریکہ بہادر فراخ دلی کا مظاہرہ کر تے ہوئے اپنے خزانۂ عامرہ سے پاکستان کی مدد فرمارہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں یہ ایک سودا ہے جس کی پوری قیمت پاکستان کو بالکل ابتدا ہی میں ادا کرنی ہوگی۔ اس رقم سے پاکستان کو کیا حاصل ہوگا؟ کچھ بھی نہیں، کہ یہ رقم اُن 60 امریکی ماہرین کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہوگی جو F-16 طیاروں کی نقل و حرکت پر 24 گھنٹے نظر رکھیں گے۔
اس سودے کی تفصیل سے پہلے F-16 طیاروں کی خریداری پر ایک نظر:
امریکی اسلحہ ساز ادارے لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin) کے بنائے ہوئے F-16کی خریداری پاکستان سمیت تیسری دنیا کے تقریباً تمام ہی حکمرانوں کا خواب ہے۔ فلسطین، عراق اور افغانستان میں اس کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے اور فضائی ہتھیاروں کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ فی زمانہ ایف 16 سے اچھا کوئی طیارہ موجود نہیں۔ فضائی جنگ کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین و پاکستان کا بنایا ہوا JF-17 تھنڈرکچھ اعتبار سے F-16 پر سبقت رکھتا ہے۔ F-16 جو بنیادی طور پر ایک لڑاکا طیارہ ہے، تباہ کن میزائل اور بموں سمیت بھاری وزن لے کر اڑ سکتا ہے۔ ایف 16 خود تو ریڈار کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے لیکن زمین، سمندر یا فضا میں نصب ریڈار سے خارج ہونے والی تابکار شعاعیں اس عقاب کی نگاہوں سے چھپ نہیں سکتیں، اور ان شعاعوں کا تعاقب کرتے ہوئے اس کے پروں سے نکلنے والے میزائل تاک تاک کر ریڈار کو نشانہ بنا لیتے ہیں۔گویا دشمن کے علاقے میں پہنچتے ہی یہ سب سے پہلے ان کے دفاعی نظام کو مفلوج کردیتا ہے۔
ایف 16 سے پاکستانی حکمرانوں کا عشق کوئی نیا نہیں۔ ضیاالحق مرحوم نے بھی ایف 16 کی خریداری کے لیے معاہدہ کیا تھا، اور اس کے بعد طیارہ ساز ادارے لاک ہیڈ مارٹن کو پیشکی ادائیگی بھی کردی گئی۔ لیکن امریکی کانگریس نے پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی لگادی۔ لاک ہیڈ نے پابندی کے بعد رقم کی واپسی سے انکار کردیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ جہازوں کی کھیپ تیار ہوچکی ہے، لہٰذا رقم واپس نہیں ہوسکتی، اور چونکہ پابندی حکومت نے لگائی ہے اس لیے لاک ہیڈ اس کی ذمہ دار نہیں۔
دس بارہ سال بعد جب لاک ہیڈ کو ان طیاروں کا ایک دوسرا خریدار مل گیا تو یہ رقم اس تکلف سے واپس ہوئی کہ اس کا ایک حصہ لاک ہیڈ نے گودام کے کرائے اور سروس چارجز کے نام پر رکھ لیا، کچھ رقم گندم اور سویابین کی شکل میں واپس ہوئی، اور ایک حقیر سا حصہ نقد عطا ہوا۔ لاک ہیڈ کے بنائے ہوئےC-130 افراد و اسباب بردار طیارے 1963ء سے پاک فضائیہ کے بیڑے میں شامل ہیں۔
9/11کے بعد پرویزمشرف کے سر پر F-16خریدنے کا سودا سوار ہوا، اور ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود 36 طیاروں کے لیے 5 ارب 30 کروڑ کی خطیر رقم لاک ہیڈ مارٹن کے حوالے کردی گئی۔ عام خیال یہی تھا کہ اس بار بھی کانگریس فروخت پر پابندی لگادے گی۔ لیکن امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ کے اجلاسوں میں پاکستان کے خلاف تلخ گفتگو کے باوجود سودے کے خلاف کوئی تحریک پیش نہیں کی گئی، اور 13 اکتوبر 2009ء کو آدھے یعنی 18 طیارے پاکستان فضائیہ کے سابق سربرہ ایئر مارشل رائو قمر سلطان کے حوالے کردیئے گئے۔ امریکی ریاست ٹیکساس (Texas) میں فورٹ ورتھ کے امریکی اڈے پر ہونے والی اس تقریب میں پاکستان کے سابق سفیر جناب حسین حقانی اور امریکی فضائیہ کے سربراہ بھی موجود تھے۔
حسبِ توقع اس سودے کے خلاف کانگریس میں کوئی تحریک نہ آنے پر کریڈٹ کے متضاد دعوے سامنے آئے۔ پرویزمشرف کا دعویٰ تھا کہ ان کی روشن خیال پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان کی سیاسی تنہائی ختم ہوچکی ہے اور قوموں کی برادری میں پاکستان نے ایک بلند مقام حاصل کرلیا ہے۔ وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری اس کا کریڈٹ اپنی خارجہ پالیسی کو دے رہے تھے۔ جبکہ طیاروں کی حوالگی کے وقت جناب حسین حقانی کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب کی قیادت میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت کی کوششوں سے ملک کی خارجہ پالیسی عالمی رائے عامہ کی امنگوں سے ہم آہنگ ہوچکی ہے، لہٰذا اب امریکی کانگریس کے لیے پاکستان کی مخالفت ممکن نہیں۔
دوسری طرف واشنگٹن کے سیاسی و عسکری حلقوں نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا۔کانگریس کی مجلسِ قائمہ میں بش انتظامیہ نے اس سودے کی جو تفصیلات بیان کیں، اس سے اندازہ ہوا کہ یہ طیارے محض تجارتی نشان اور نام کی حد تک ہی ایف 16 ہوں گے، پاکستان مخالف لابیوں کی تسلی و تشفی کے لیے بش انتطامیہ نے جو وضاحتیں فراہم کیں اس کے مطابق:
٭ان طیاروں میں Westinghouse کے ریڈار نصب نہیں جو F-16کا بنیادی جزو ہے۔ یہ ریڈار دشمن کے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے اور ان سے نکلنے والی شعاعوں کے تعاقب میں میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
٭ان طیاروں پر Dynamic Position Devices (DPS)نصب ہوں گے، جس کی مدد سے ان طیاروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے گی۔ DPS سے جاری ہونے والے سگنل خلا میں موجود امریکی سیاروں کو طیارے کے مقام سے باخبر رکھیں گے تاکہ یہ ناپسندیدہ ہاتھوں میں نہ جاسکیں۔
ان طیاروں کے استعمال کے لیے کڑی شرائط عائد کی گئی ہیں، جن کے مطابق انھیں محض دفاعی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، اور صرف پاکستان کی فضائی حدود میں پرواز کرنے کی اجازت ہوگی۔ ان طیاروں پر جوہری اسلحہ بھی نصب نہیں کیا جائے گا۔
بش انتظامیہ نے کانگریس کی مجلسِ قائمہ کے روبرو سماعت کے دوران مؤقف اختیارکیا کہ ضروری پیش بندیوں اور حفاظتی اقدامات کے بعد ان طیاروں کا ناپسندیدہ استعمال تقریباً ناممکن ہوگا۔ ماہرین نے ان اقدامات کو کسی بھی ممکنہ ناکامی سے مبرا قرار دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجلس قائمہ میں گرماگرم بحث کے باوجود کانگریس کے ذریعے اس سودے کو منسوخ کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ان کڑی شرائط کی منظوری اور انھیں معاہدے کا حصہ بنانے کو بش انتظامیہ نے بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔ امریکیوں کے لیے یہ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والا معاملہ تھا کہ اس سے ایک خطیر ہاتھ آگئی اور بہت سے حساس آلات کی عدم تنصب سے اس کی پیداواری لاگت بھی کم ہوگی۔
سب سے بڑھ کر بیڑے کی نگرانی کا بہت ہی مؤثر نطام وضع کیا گیا ہے، جس کے مطابق ان طیاروں کے ہر اسکواڈرن پر دو امریکی نگران تعینات کیے جائیں گے، جن کے مشاہرے، سفر اور قیام و طعام پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ یعنی فروخت کے بعد بھی یہ طیارے براہِ راست امریکہ بہادر کی زیرنگرانی رہیں گے اور اس نگرانی کا جملہ خرچ منافع سمیت پاکستان ادا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سودے کو ’تحریک امن‘ یا Peace Drive کا نام دیا گیا۔
اس پس منظر میں اگر لاجسٹک سپورٹ کے حالیہ سودے کا جائزہ لیا جائے تو چچا سام کی حالیہ پیشکش نگہبانی کے نظام کو پاکستان کے خرچ پر مزید مؤثر ومربوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔
تکنیکی مدد اور لاجسٹک سپورٹ کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ اس سودے کے نتیجے میں امریکی اہلکار 24 گھنٹے پاکستان کے زیرِ استعمال طیاروں کی نگرانی یا Monitoring کے لیے موجود رہیں گے۔ بیان کے مطابق امریکی اہلکاروں کی موجودگی سے امریکی ٹیکنالوجی کی حفاظت و نگرانی، اور ان کا ’غلط استعمال‘ ناممکن ہوجائے گا۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سودا خطے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے لیے معاون ثابت ہوگا۔گویا لاجسٹک معاونت سے پاکستان کو تو کچھ حاصل نہ ہوگا لیکن قوم کے خون پسینے سے کشید کیے گئے ساڑھے بارہ کروڑ ڈالر امریکہ کے 60 نگہبانوں یا رقیبوں کے مشاہرے اور مراعات پر خرچ ہوں گے جو اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ طیارے ہندوستان کے خلاف استعمال نہ ہوسکیں۔
قارئین یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان کو اس بندوبست کی ضرورت کیا ہے؟ تو آپ کو یاد ہوگا پلوامہ کے بعد جب پاک فضائیہ نے ہندوستان کے خلاف کامیاب فضائی کارروائی کی تو مودی جی نے واشنگٹن کو شکایت لگائی کہ پاکستان سودے کی خلاف وزری کرتے ہوئےF-16 ہندوستان کے خلاف استعمال کررہا ہے، اور ثبوت کے طور پر دہلی نے ایک F-16 مار گرانے کا دعویٰ کیا۔ امریکی حکام نےF-16کے بیڑے کی گنتی (Inventory)کرکے دہلی کے دعوے کو مسترد کردیا۔ اس کے بعد سے پاکستان چاہتا تھا کہ امریکی نگرانوں کی تعداد بڑھا کر 60 کردی جائے، لیکن جنوری 2018ء میں پاکستان پر عائد غیر اعلانیہ پابندی کی بنا پر یہ ممکن نہ تھا۔ اب اس قدغن کو جزوی طور پر اٹھاکر مزید امریکی نگہبانوں کی پاکستان تعیناتی ممکن کردی گئی ہے، جس کے بعد پاکستانی فضائیہ کے لیےF-16کی ’آزادانہ‘ پرواز میں سہولت ہوجائے گی۔ بقول کلیم عاجز
زنجیر بھی تیری ہے دیوانہ بھی تیرا ہے
قانون کے مطابق یہ سودا توثیق کے لیے امریکی کانگریس کو پیش کیا جائے گا۔ کانگریس کے نام منظوری کی درخواست میں صراحت کے ساتھ درج ہے کہ پاکستان کے لیے عسکری مدد بدستور منجمد رہے گی، اور لاجسٹک سپورٹ یا Technical Support Team (TST) کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی سودے میں طے شدہ شرائط کے مطابق استعمال ہو، اور پاکستا ن کو اس سلسلے میں غیر ضروری مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
امریکہ کی جانب سے یہ اعلان پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے دورۂ واشنگٹن کے چند روز بعد سامنے آیا ہے، جس کے دوران دونوں ملکوں نے باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔ اسی دورے کے حوالے سے محکمہ خارجہ کی ترجمان محترمہ مورگن اورتیگس (Morgan Ortagus)نے ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ سے کیا گیا وعدہ یاد دلاتے ہوئے عمران خان پر زور دیا کہ افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے طالبان پر دبائو ڈالا جائے۔ امریکی ترجمان کے مطابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ طالبان کو افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ مورگن اورتیگس نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں کلیدی پیش رفت کا وقت آگیا ہے اور دونوں ممالک کی مضبوط و دیرپا شراکت داری افغان مسئلے کے پُرامن حل اور تنازعات کے خاتمے کی مشترکہ کوششوں سے مشروط ہے۔
قارئین نے یقیناً نوٹ کیا ہوگا کہ لاجسٹک سپورٹ فروخت کیے گئے طیاروں کو قابو میں رکھنے کا ایسا بندوبست ہے جس کی قیمت پاکستان کے ٹیکس دہندگان ادا کریں گے، لیکن نقد سودے کو احسان قرار دیتے ہوئے اس کی بنیاد پر ڈومور کا مطالبہ شروع کردیا گیا۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

……………………

اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم۔

masoodabdali.blogspot.com

پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔