کوئی ہے جو کراچی کے مظلوموں کی آواز سن سکے؟۔
ملک میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن سندھ اور کراچی میں ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور بدانتظامی نے تباہی مچادی ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقے بارش سے جل تھل ہوگئے۔ حیدرآباد میں شدید بارش سے نشیبی علاقے زیرآب آگئے۔ سڑکیں اور گلیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ نظام زندگی مفلوج ہونے سے لوگ مسائل سے دوچار ہیں۔ جامشورو میں بھی صورتِ حال انتہائی خراب رہی، اور بارش سے پہاڑی علاقوں کا پانی شہر میں داخل ہوگیا۔ انڈس ہائی وے اور ریلوے اسٹیشن بھی ڈوب چکے ہیں، جبکہ مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے۔ بدین میں بارش کے بعد بڑے مسائل پیدا ہوگئے۔ سڑکیں، گلیاں ڈوبی ہوئی ہیں، جبکہ دفاتر اور گھروں میں پانی جمع ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بارش کے باعث ندی نالوں میں بھی طغیانی آگئی جس سے علاقے میں نظام زندگی درہم برہم ہے۔ بارش سے ٹنڈو محمد خان کے نشیبی علاقے زیرآب آگئے۔ چاندنی چوک، اناج منڈی اور شاہی بازار میں پانی جمع ہوگیا، لوگ مشکل میں پھنسے رہے۔ نواب شاہ اور ٹھٹہ میں بھی بادل جم کر برسے، جس سے سڑکیں تالاب بن گئیں۔ انتظامیہ کی غفلت کے باعث یہاں بھی لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
پیر کو مون سون کی پہلی بارش میں سندھ کے دیگر شہروںکی طرح کراچی کا نظام بھی تباہ ہوگیا ہے۔ کراچی جس کا شمار دنیا کے جدید اور بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور جس کا ملک کی معیشت میں بڑا نہیں بلکہ سب سے بڑا حصہ ہوتا ہے، ہمیشہ حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارش کے بعد کراچی کسی کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ بدقسمتی سے اس شہر کی 1980ء کی دہائی کے بعد یہی تاریخ ہے۔ پہلے اس شہر میں لوگ معلوم اور نامعلوم گولیوں سے ہلاک ہوتے تھے، اب سندھ حکومت اور بلدیہ کراچی کی غفلت اور بدانتظامی سے ہلاک ہورہے ہیں۔ صرف بارش کے باعث کرنٹ لگنے سے کراچی میں بیس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ شہر تو دھول اور مٹی میں پہلے ہی اٹا ہوا تھا اور نالوں میں کچرا بھرا ہوا تھا، ایسے میں بارش جو اللہ کی رحمت ہے، بدانتظامی نے اس کو زحمت میں تبدیل کردیا ہے، اورکراچی کے لوگ بارش کی خوشیاں منانے کے بجائے اپنے پیاروں کے نالے میں گرنے اور کرنٹ لگنے کے باعث مرجانے والوں کے غم میں مبتلا ہوگئے ہیں، جنہیں اب قبرستان کی زمین بھی مہنگی اور بدحال مل رہی ہے۔ اس وقت کراچی کا کون سا علاقہ ہے جو زیر آب نہیں ہے؟ بارش کے پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں اور مرکزی شاہراہوں پر پانی جمع ہوگیا ہے، کئی نالے بھی ابل پڑے ہیں۔ جبکہ شہر کی مرکزی شاہراہوں پر پانی جمع ہونے سے شدید ٹریفک جام رہا اور گاڑیاں گھنٹوں پھنسی رہیں۔ لیاقت آباد انڈر پاس کو پانی جمع ہونے کی وجہ سے بند کردیا گیا۔ ٹاور، تبت سینٹر، عیدگاہ چوک، ایوانِ صدر روڈ اور آئی آئی چند ریگر روڈ پر پانی جمع ہوگیا۔ میٹروپول، پی آئی ڈی سی، قیوم آباد، شیر شاہ، حسن اسکوائر، گلبائی، ٹیپو سلطان روڈ بھی پانی میں ڈوب گئے، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ محمود آباد کے علاقے میں نالہ بھرجانے کے باعث پی ای سی ایچ سوسائٹی اور ایڈمن سوسائٹی محمودآباد میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔ جمشید ٹاؤن میں بھی نالے ابل پڑے۔ ایئرپورٹ روڈ، کالا بورڈ، ڈرگ روڈ اور سعید آباد میں بھی پانی کی نکاسی نہ ہوسکی۔ گلستانِ جوہر کے جہاں دیگر علاقے متاثر ہیں، وہیں کامران چورنگی سے یونیورسٹی کی طرف جانے والی سڑک جو پہلے ہی خراب تھی اب بارش کے بعد تباہ و برباد ہوکر بند ہوگئی ہے۔ غرضیکہ ہر علاقہ، محلہ اور کاروباری مرکز متاثر ہے اور تادم تحریر زیرآب ہے۔ شہر میں دو دن سے نوّے فیصد کاروباری سرگرمیاں بند ہیں۔ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کا نظام ابتدائی چند بوندوں کے بعد ہی بہہ گیا تھا۔ جبکہ کے الیکٹرک کے بلوں سمیت کئی حوالوں سے اذیت کا شکار شہریوں کو، کے الیکٹرک کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ شدید بارشوں کے باوجود شہر میں مجموعی طور پر بجلی کی فراہمی کا سلسلہ بغیر تعطل کے جاری رہا۔ اب اس شہر کا کوئی والی یا وارث ہوتا تو وہ کے الیکٹرک سے پوچھتا کہ شہر میں بجلی نام کی چیز کہاں ہے؟ کراچی میں بارشوں کے باعث ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ بجلی کے ننگے تار اور خراب وائرنگ تھی، لیکن ہمیں ابھی تک یہ خبر نہیں ملی کہ سندھ یا کراچی یا پھر ایم کیو ایم کے نئے اتحادی پی ٹی آئی کے حکمرانوں نے ان اموات پر کے الیکٹرک سے سوال کیا یا ان کے خلاف کوئی مقدمہ قائم ہوا۔ ان سے ایک کام جو ایک نوٹس پر ہونا تھا وہ بھی وقت پر نہیں ہوا۔ صوبے بھر کے سرکاری اور نجی اسکولوں کو بند کرنے کا نوٹیفکیشن بھی ایک دن بعد جاری کیا گیا۔ اسکول والے اور والدین اس دوران تذبذب کا ہی شکار رہے۔ اور یہ بھی نہیں کرتے تو کراچی کے لوگ کیا کرسکتے تھے! کیوںکہ ان کا مقدمہ لڑنے والا، ان کے مسائل کو سمجھنے والا اس شہر میں کوئی ہے ہی نہیں۔کراچی شہر کی انتظامی ایبنارملٹی کا حال یہ ہے کہ بارش سے کئی ماہ قبل سپریم کورٹ نے کراچی کے تمام نالوں کی صفائی کرنے کا حکم دے دیا تھا، اُس پر بھی عمل نہیں کیا گیا،کیونکہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں حکومت یا انتظامیہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ یہ پتا نہیںٖ کس کے کنٹرول میں ہیں کہ ان پر مسلط لوگ سپریم کورٹ کی بھی نہیں سنتے۔
اس وقت سندھ میں بحران اور ایمرجنسی کی صورت حال ہے۔ شہرِ قائد میں اسپتالوں، ٹرانسپورٹ اور تعلیم کا نظام پہلے ہی تباہ ہوچکا ہے۔ کراچی والے بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں، پانی کو ترستے ہیں۔کراچی میں پانی کی قلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً شہر کے ہر دوسرے شخص کو اس کی ضرورت کا پانی مل نہیں پا رہا۔ ایک طرف تو پانی کی قلت ہے اور دوسرا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کی دستیابی کا بہت دشوار ہونا ہے۔ گزشتہ 19 برسوں سے شہر کی آباد ی میں سالانہ اوسطاً 2.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اور اب اس کی آبادی ڈھائی کروڑ کے قریب ہے جبکہ 2018ء کی مردم شماری میں 1کروڑ 90 لاکھ ہے، لیکن اس کے باوجود گزشتہ 13 سال سے شہر میں پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، جس کے باعث اب صورت حال یہ ہے کہ شہر کو اپنی ضرورت سے 56 فیصد پانی کم فراہم کیا جارہا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے حکام برملا پانی کی اس قلت کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن کرتے کچھ نہیں ہیں ۔ اس وقت یہاں کے شہری ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر ہیں، ریاست کے اداروں اور ٹینکر مافیاکے گٹھ جوڑ نے یہاں کے لوگوں کو مہنگا پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ ایک عام شہری جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے، وہ کہاں سے پینے اور پکانے کا پانی خریدے؟ اس وقت لاوارث کراچی کا تقریباً ہر دوسرا شہری پانی کے حصول کے لیے اپنا سکون، وقت اور پیسہ تینوں ہی صرف کررہا ہے۔کیوں کہ اگر اُسے پانی مل بھی رہا ہے تو سیوریج ملا پانی مل رہا ہے۔کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں فراہم کیا جانے والا 90 فیصد پانی ماحولیاتی اور آبی آلودگی کے باعث پینے کے قابل نہیں ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ کے ہی حکم پر کراچی کے پانی کے حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا تاکہ حکومتی خراب کارکردگی کی وجہ جانی جا سکے۔ اس سلسلے میں شہر کے مختلف علاقوں سے پانی کے نمونے تجزیے کے لیے بھیجے گئے۔ جب رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ ان 118 نمونوں میں سے90.7 فیصد انسانی استعمال کے لیے ناموزوں ہیں، اور صحت اور انسانی جان کے لیے خطرناک ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کے لوگوں کو اس رپورٹ کے بعد پینے کا صاف پانی ملنا شروع ہوگیا ہے؟ کیوں کہ یہ لاوارث شہر ہے اس لیے اس کا جواب بھی نفی میں ہی ملے گا۔کراچی کے لیے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کا اگر کوئی منصوبہ بنا تو وہ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کے دور میں بنا، اور دوسرا کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کا منصوبہ ’’کے فور‘‘ کے نام سے نعمت اللہ خان کے دور میں بنا، جو نعمت صاحب ہوتے تو اب تک بن چکا ہوتا، لیکن یہاں کے سفاک حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں کی وجہ سے یہ آج تک زیر تکمیل ہے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوجائے تو اس منصوبے کے تحت شہر کو مجموعی طور پر 650 ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جائے گا۔ منصوبے کے پہلے اور دوسرے مرحلوں میں 260، جب کہ تیسرے مرحلے میں 130 ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جائے گا۔ لیکن یہ منصوبہ کم از کم 11 سال سے تاخیر کا شکار چلا آرہا ہے اور اس پر لاگت کا تخمینہ بھی 15 ارب روپے سے بڑھ کر 75 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس شہر کا کوئی وارث ہوتا تو پوچھتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ کراچی کے ساتھ اس ظلم کی کیا وجہ ہے؟ لیکن کوئی ہے نہیں تو شہر کے لوگ اس ظلم کے ساتھ جی رہے ہیں اور ان کے اپنے انہیں روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی عنوان سے مار رہے ہیں۔
اس شہر کی کس کس چیز کا رونا رویا جائے! ہر چیز ہی تباہ حال اور برباد ہے۔ اوپر شہر کے لوگوں کے بسوں کے سفر کا ذکر ہوا۔ ہم نے بچپن سے سنا ہے کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے، لیکن کراچی میں ہم نے اپنے بچپن سے دیکھا ہے کہ سفر وسیلہ بنتا ہے پریشانی اور جھنجھلاہٹ کا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس لاوارث شہر کی ٹرانسپورٹ کا حال بھی تاریخی طور پر بد سے بدتر ہے۔ اس شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے لیکن ایک تازہ ریسرچ کے مطابق شہر کی سڑکوں پر جو گاڑیاں ہیں ان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا حصہ محض ساڑھے چار فی صد کے لگ بھگ ہے، جو زیادہ سے زیادہ 42 فی صد مسافروں کی ضروریات ہی پوری کرسکتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت آمد و رفت کے لیے پرائیویٹ گاڑیوں کا استعمال کرتی ہے جو شہر کے کُل ٹریفک کا تو 36 فیصد ہے لیکن اس سے صرف 21 فی صد مسافروں کی ضروریات ہی پوری ہوتی ہیں۔
کراچی میں رکشوں اور ٹیکسیوں کی تعداد شہر کے کُل ٹریفک کا 10 فی صد ہے جو آٹھ فی صد مسافروں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ بسوں کی تعداد 4000 سے بھی کم ہے جو 56 لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت مہیا کرتی ہیں، یہ تعداد روزانہ سفر کرنے والوں کا 42 فی صد ہے۔ گویا کراچی میں ایک بس کے حصے میں یومیہ 257 مسافر آتے ہیں۔ اس شہر کے ساتھ ستم یہ ہوا ہے کہ عبدالستار افغانی کے بعد یعنی 1980ء کی دہائی کے بعد اگر پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت دور کرنے کے لیے کام ہوا تھا تو وہ بھی نعمت اللہ خان کا ہی دور تھا جس میں کئی منصوبے سامنے آئے، اور جن میں سے کچھ عارضی تھے اور کچھ لانگ ٹرم تھے، لیکن اس کے بعد تو ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران حکومت محض 10 نئی بسیں ہی سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوئی ہے، جب کہ ایک اور تحقیق کے مطابق کراچی کے شہریوں کو سفر کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اس وقت دس ہزار بڑی بسوں کی ضرورت ہے، اور موجودہ بسیں اور منی بسیں جس حالت میں چل رہی ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس وقت اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ شہر کے لوگ روزانہ ان بسوں پر ہر لمحہ موت کے رسک کے ساتھ سفر کررہے ہوتے ہیں۔ اس وقت شہر کراچی میں لوگوں کی اکثریت موٹر سائیکلوں یا اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرتی ہے۔ گزشتہ 11 سال سے صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ اس کے ساتھ ایم کیو ایم کسی نہ کسی عنوان سے یہاں مسلط رہی ہے، لیکن انہوں نے اس پر کوئی کام نہیں کیا۔ موجودہ نااہل حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ماضی کی وفاقی حکومت کا کراچی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی ماس ٹرانزٹ بس ریپڈ سسٹم کا 22 کلومیٹر طویل گرین لائن ٹریک منصوبہ جو سرجانی ٹاؤن کو ایم اے جناح روڈ سے ملاتا ہے، وہ بھی ابھی تک مکمل ہونے سے قاصر ہے۔ اسی طرح سرکلر ریلوے پر بھی باتوں کے سوا کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ ماضی میں سرکلر ریلوے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا مؤثر ذریعہ تھی، جس کے ذریعے روزانہ ہزاروں مسافر اپنی منزلِ مقصود پر پہنچتے تھے۔ لیکن عدم توجہ اور ایم کیو ایم کی سفاکی کے باعث سرکلر ریلوے 1999ء میں بند ہوگئی۔ اس دوران اس کا 43 کلومیٹر طویل ٹریک تجاوزات کی نذر ہوگیا، اور کئی مقامات پر تو ریلوے ٹریک کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے، اور سرکلر ریلوے اسٹیشن کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل ہونے کے ساتھ نشئی لوگوں کی پناہ گاہ بن گئے ہیں۔ اب یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل قریب میں جدید ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنے، کراچی کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کے برابر لانے، اور لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہوگا یا نہیں؟ فی الحال تو اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی اس وقت حکومت کے مزے لے رہی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ان کا حقیقی معنوں میں اپنا نہیں ہے اور یہ شہر اور اس کے لوگ لاوارث ہیں۔ لیکن اس صورتِ حال میں جماعت اسلامی ایک بار پھر کراچی کے شہریوں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کراچی میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی خدمت کی ایک تاریخ ہے، ان لوگوں نے جب اختیار تھا اُس وقت بھی شہر کے لوگوں کی دیانت داری اور اہلیت کے ساتھ خدمت کی، اور جب اختیار کے بغیر رہے اُس وقت بھی کبھی خدمت کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا ہے۔ حالیہ بارشوں کے شروع ہوتے ہی جماعت اسلامی نے پورے شہر میں اپنے کارکنوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ مسافروں اور راہ گیروں کی محفوظ ٹھکانوں اور گھروں تک پہنچنے میں مدد کریں۔ محلے اور گھروں میں داخل ہونے والے برساتی پانی کی نکاسی میں تعاون کریں۔ شہریوں کی گاڑیاں جو خراب ہوگئی ہیں یا پانی میں پھنس گئی ہیں انہیں نکالنے میں مدد دیں۔ سیورج مین ہول جن پر ڈھکن نہیں ہیں ان کو مناسب انداز میں کور کریں تاکہ کسی بھی قسم کے حادثے سے بچا جاسکے۔ عیدِ قرباں کے لیے مویشیوں اور بیوپاریوں کا خیال رکھیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر کام جماعت اسلامی کی قیادت اپنے کارکنوں سے کروا رہی ہے، جو ریاست کے کرنے کے کام ہیں۔ حکمرانوں کے پاس وسائل ہیں جو وہ روزانہ کی بنیاد پر ہڑپ کررہے ہیں، جبکہ یہ خالی ہاتھ لوگ اپنے وسائل کے ساتھ اس مشکل مرحلے میں کراچی کے شہریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیاری کے ایم پی اے سید عبدالرشید گھٹنوں گھٹنوں پانی میں لیاری کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اسی طرح ملیر کے وائس چیئرمین یوسی توفیق الدین و دیگر بھی اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کے ساتھ ان کی مشکل میں موجود ہیں۔ وہ گٹر لائنیں کھلوا رہے ہیں، لوگوں کو صاف پانی پہنچا رہے ہیں۔ یعنی جماعت کے منتخب اور غیر منتخب دونوں عوام کے درمیان موجود ہیں۔ پھر صرف یہی نہیں، اس سے قبل کے الیکٹرک کے ظلم پر بھی جماعت اسلامی کی جدوجہد مثالی رہی ہے اور اس نے کئی حوالوں سے عوام کو ریلیف دلایا ہے۔عوام کو ڈھارس بندھی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی تو کھڑا ہے، کوئی تو اپنے حقیقی پن کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اس پس منظر میں بارش کے بعد کی صورت حال پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ صوبائی حکومت، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور کے الیکٹرک نے بارانِ رحمت کو کراچی کے شہریوں کے لیے زحمت بنا دیا ہے۔ وزیر بلدیات، میئر کراچی اورکے الیکٹرک کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ان کی نااہلی اور ناقص کارکردگی نے عوام کو مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار کردیا ہے۔ جبکہ بارش کے دوران کرنٹ لگنے کے واقعات پرانہوں نے درست سوال اٹھایا ہے کہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کی ذمہ داری آخر کس پر عائد ہوتی ہے؟ بارش کی پیشگوئی کے باوجود پہلے سے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ اور تاحال عوام کو ریلیف دینے کے لیے صوبائی حکومت، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور کے الیکٹرک کے حکام کی طرف سے بھی کوئی خاطر خواہ سرگرمی سامنے نہیں آئی۔
اس وقت کراچی سمیت پورا سندھ بدحال ہے، جہاں لوگ سیوریج نالوں میں گررہے ہیں، وہیں پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کا راج ہے، مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ کہیں بھی کسی بھی محکمے میں ریاست کی رٹ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ قانون اور اس کی بالادستی معلوم نہیں کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لاوارث کراچی میں بارش سے پیدا ہونے والی تباہ کاریاں ہمارے حکمرانوں کی سفاکی کا اشتہار ہیں۔ کوئی ہے جو کراچی کے مظلوموں کی آواز سن سکے؟