افغان بحران اور پاکستان

وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف کی ملاقات

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں پاکستان کی جانب سے دورے کی باضابطہ دعوت دی گئی تو اسے ضرور قبول کریں گے اور وزیراعظم عمران خان سے بھی ملیں گے۔ یہ خبر طالبان کے قطر میں واقع سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دوران اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ واپسی پر افغان طالبان سے ملیں گے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو نہ صرف یہ دعوت قبول کریں گے بلکہ اس دورے کے موقع پر وزیراعظم عمران خان سے بھی ملیں گے۔ ترجمان افغان طالبان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے امریکی دورے میں کہا تھاکہ طالبان سے ملیں گے اور طالبان کوکہیں گے کہ افغان حکومت سے مذاکرات کریں، ہم تو خطے اور ہمسایہ ممالک کے دورے وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں، لہٰذا اگر ہمیں پاکستان کی طرف سے رسمی دعوت ملتی ہے تو ہم جائیں گے، کیونکہ پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ طالبان پر تو پہلے سے ہی یہ الزامات ہیں کہ وہ پاکستان کی پراکسی ہیں، تو کیا اس دورے سے افغانستان کے اندر اور باہر ان پر مزید الزامات نہیں لگیں گے؟ سہیل شاہین کا کہنا تھاکہ وہ لوگ جن کے پاس طالبان کے خلاف کوئی اور دلیل نہیں ہے وہ ان پر اسی قسم کے بے معنی الزامات لگاتے ہیں، ایسے الزامات ہم پر ماضی میں بھی لگائے جاچکے ہیں اور مستقبل میں بھی لگتے رہیں گے جن کی ہمیں کوئی پروا نہیں ہے۔ ترجمان نے کہاکہ ایک تو ہمارے اسلامی اور قومی مفاد ہیں، جن میں ہم کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنے دیتے، البتہ جہاں تک دوسرے ممالک یا پھر ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطے قائم کرنے کا سلسلہ ہے، تو ان کے ساتھ ہمارے رابطے ہیں بھی، اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ رابطے مستقبل میں بھی برقرار اور بحال رہیں۔
ترجمان افغان طالبان کا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان کے مسئلے کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی۔ پہلے مرحلے میں جاری مذاکرات اب اختتامی مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں، تو پھر ہم دوسرے مرحلے میں تمام افغان فریقین سے بات چیت کریں گے، جس میں افغان حکومت بھی ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہوسکتی ہے۔ سہیل شاہین نے کہا کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ پہلے بھی گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کیے ہیں اور اب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں اگر کوئی کچھ کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔
اسی اثناء وفاقی وزیر برائے سیفران و انسدادِ منشیات شہر یار آفریدی نے کہا ہے کہ پاکستان افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے، وزیراعظم عمران خان کا کامیاب اور تاریخی دورۂ امریکہ افغان امن عمل کی بنیاد بنے گا، پُرامن اور ترقی کی راہ پر گامزن افغانستان پاکستان میں امن میں معاون ثابت ہوگا۔ شہریارخان آفریدی کا افغانستان کی تاریخی وادی پنج شیر آمد پر افغان وزیر صحت ڈاکٹر فیروزالدین فیروز اور ڈپٹی گورنر صادقی نے پُرتپاک استقبال کیا۔ واضح رہے کہ شہریارخان آفریدی کئی دہائیوں بعد وادی پنج شیر کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر ہیں۔ اس موقع پر وزیر سیفران شہر یار خان آفریدی نے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے مزار پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی اور دعا کی۔ انہوں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات بھی قلمبند کیے۔ شہر یار آفریدی نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پُرامن اور ترقی کی راہ پر گامزن افغانستان پاکستان میں امن میں معاون ثابت ہو گا۔ انہوںنے کہاکہ تمام افغان سیاسی قائدین اور سیاسی گروہ پاکستان کے لیے برابر ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان افغان امن عمل کا سب سے بڑا پارٹنر ہے اور افغان عوام افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔
افغانستان میں قیامِ امن کے سلسلے میں ہونے والی حالیہ کوششوں اور رابطوں کے علی الرغم بدامنی کے شدید واقعات بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ ان ہی واقعات کے تسلسل میں گزشتہ دنوں کابل میں ہونے والے تین بم دھماکوں کے نتیجے میںکم ازکم 15 افراد جاں بحق اور40 زخمی ہوگئے۔ پہلا دھماکا صبح کے وقت کابل کے علاقے مکرویانِ کہنہ میں ہوا جب وزارت مائنز اینڈ پیٹرولیم کے ملازمین کو لے جانے والی بس میں نصب بم زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک ہوئے جن میں 5 خواتین اور ایک بچہ بھی شامل تھا۔ افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق بس میں دھماکا ہونے کے فوراً بعد اسی علاقے میں ایک موٹر سائیکل سوار خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں 7 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ تیسرا دھماکا کابل کے علاقے پی ڈی 9 میں ایک کار میں ہوا۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی اور کہا کہ انہوں نے غیرملکی فوجیوں کو نشانہ بنایا جس میں غیر ملکی افواج کے 9 اہلکار ہلاک ہوئے اور دو گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ تاہم اس دعوے کی حکومت نے تصدیق نہیں کی ہے۔
افغان دارالحکومت کابل میں ستمبر میں ہونے والے افغان صدارتی انتخابات میں نائب صدارت کے امیدوار اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سابق سربراہ امر اللہ صالح کے دفتر پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کا کہنا ہے کہ گرین ٹرینڈ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر پر ہونے والے اس حملے میں 50 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا جس میں سیکورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان گولیوں کا تبادلہ جاری رہا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ واقعے میں متعدد حملہ آور ہلاک کیے گئے ہیں۔ نصرت رحیمی کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کا نشانہ انتخابات میں نائب صدر کے امیدوار اور خفیہ ادارے کے سابق سربراہ امراللہ صالح تھے جنہیں عمارت سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے، جبکہ دیگر 85 شہریوں کو بھی اندر سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ حملے کی فوری طور پر کسی بھی جانب سے ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے، تاہم طالبان اور داعش چونکہ کابل میں اس طرح کے حملے پہلے بھی کرتے رہے ہیں، اس لیے بعید نہیں کہ یہ حملے بھی ان ہی دو گروپوں میں سے کسی نے کیے ہوں۔ لیکن یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ اب تک اس اہم ترین حملے کی ذمہ داری ان دونوں گروپوں کی جانب سے کیوں تسلیم نہیں کی گئی؟ خیال رہے کہ گزشتہ روز افغانستان میں صدارتی مہم کا آغاز ہوا تھا، جبکہ ووٹنگ کا عمل ستمبر کے آخر میں ہوگا۔ حملے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے بتایاکہ امراللہ صالح حملے میں محفوظ رہے ہیں اور صدارتی انتخابات کا پُرامن انعقاد ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
دریں اثناء وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی مشترکہ طور پر ہونے والی ملاقات میں بھی افغان امن عمل اور اس میں پاکستان کے کردار پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے۔ ترجمان وزیراعظم آفس کے مطابق اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ملاقات کی، جبکہ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور بھی موجود تھے۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی سیکورٹی صورت حال پر تبادلہ خیال کے علاوہ وزیراعظم کے حالیہ دورۂ امریکہ اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار پر بھی بات چیت کی گئی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی حالیہ ملاقات کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جارہی ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے وزیراعظم کی تعریفوں کے پیچھے پاکستان سے طالبان پر امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں مدد فراہم کرنے کا مطالبہ سرفہرست رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی اس دورے کو ایک ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا کہ ایک طرف امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے یہی مطالبہ دہراتے ہوئے پاکستان کو طالبان پر دبائو ڈالتے ہوئے افغان امن عمل میں کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے، جب کہ دوسری جانب پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی مرمت کے لیے عرصے سے بند تکنیکی امداد کی بحالی کے اعلان کے ذریعے بھی پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو فوجی امداد کی بحالی کا لالچ دینے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا ایک مقصد جہاں پاکستان کو طالبان پر اثرانداز ہونے کے لیے آمادہ کرنا ہے وہیں پاکستانی قیادت کو شیشے میں اتارنے کا دوسرا مقصد اس پر پچھلے ستّر برسوں کے دوران کی جانے والی امریکی سرمایہ کاری کو دریا برد ہونے سے بچاتے ہوئے پاکستان کو روسی اور چینی کیمپ میں جانے سے روکنے کی کوشش کرنا ہے، جس کا اشارہ پاکستان کی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پچھلے کچھ عرصے سے دیا جاتا رہا ہے۔ بہرحال آنے والے دنوں میں دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی قیادت چاروں اطراف سے پھیلے بین الاقوامی اور علاقائی دبائو سے خود کو کیونکر اور کس طرح نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ افغان بحران میں کوئی بڑی تبدیلی اس حوالے سے اُس کی سب سے بڑی اور اولین آزمائش ہوگی۔