امریکہ پاکستان سفارتی تعلقات، گرم جوشی اور سرد مہری ساتھ ساتھ

وہ بھی ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے ڈیڑھ سال قبل جنوری 2018ء میں ٹویٹ کیا کہ’’ہم نے 33 ارب ڈالر دے کر غلطی کی، پاکستان نے ہمیں دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا‘‘۔ اور یہ بھی ٹرمپ ہی ہیں جو اب صدقے، واری جارہے ہیں۔ وجہ جو بھی ہو، لیکن اصل بات اس کا برقرار رہنا ہوگا۔ سفارت کاری امکانات پیدا کرنے کا فن ہے، اور اتار چڑھاؤ کا شکار تعلقات کو پٹری پر لانے کا امکان ہمیشہ ہوتا ہے۔ دونوں جانب مثبت پیش رفت رہی تو یہ دروازے کھلے رہیں گے۔ لفظ ’’مثبت‘‘ کا معنی اسلام آباد اور واشنگٹن کے نزدیک کبھی ایک نہیں ہوسکتا۔ کم سے کم مشترکہ نکات پر اتفاق سے دونوں ملک آگے بڑھ سکتے ہیں۔ 70 سالہ پاک امریکہ تعلقات کو اسی ڈیڑھ سالہ دور کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کبھی تیوریاں چڑھائی گئیں، تو کبھی آستینیں۔ کبھی خزانوں کے منہ کھولے گئے، تو کبھی ’ڈومور‘ کے تقاضے ہوتے رہے۔ اتار چڑھاؤ کا یہ سلسلہ ہے کہ رکنے میں نہیں آرہا۔ وزیراعظم عمران خان کے دورے میں بھی واشنگٹن انتظامیہ کا یہی اصول کارفرما رہا۔ وہ چاہتی ہے کہ افغانستان میں اُس کے یرغمال بنائے گئے شہری رہا ہونے چاہئیں، امریکی فوجیوں کی پُرامن اور محفوظ واپسی میں پاکستان تعاون کرے، اور طالبان۔ افغان انتظامیہ میں معاہدے کی پاسداری کے لیے پاکستان اپنے ذمے کوئی کردار لے۔ امریکہ اور پاکستان کے سفارتی تعلقات ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ گرم جوشی اور سردمہری ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان 21 سے 23 جولائی تک امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے تھے، جہاں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سے ملاقات کی۔ امریکی انتظامیہ نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے گیارہ نکاتی مطالبات رکھے ہیں۔ یہ مطالبات کیا ہیں، دفتر خارجہ ان کی تفصیلات بتانے سے گریز کر رہا ہے، لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے سامنے سرنڈر ہوئے ہیں، اور وہ تمام تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ جن گیارہ مطالبات کی بات ہورہی ہے ان کا تعلق افغانستان سے امریکی فوجوں کی مکمل حفاظت کے ساتھ واپسی سے ہے، اور اس کے بعد پاکستان سے ضمانت لی جارہی ہے کہ وہاں امن قائم کرنے کے لیے طالبان کو راضی رکھنا بھی پاکستان کی ذمہ داری ہوگی۔ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی، لیکن شرط یہی ہے کہ اسلام آباد افغانستان میں امن قائم کرے۔ وزیراعظم نے یقین دلایا کہ وہ وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کرکے انہیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی، لیکن اب امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد وہ طالبان سے ملاقات کرکے انہیں براہِ راست مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے پاکستانی امریکی کاروباری شخصیات اور سرمایہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ اس ملاقات کے شرکا کو پاکستان میں پائے جانے والے معاشی اور کاروباری مواقع اور خطے میں پاکستان کے اہم محلِ وقوع کے فوائد حاصل کرنے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ کئی سرمایہ کاروں نے توانائی اور سیاحت جیسے شعبوں میں دل چسپی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کے قائم مقام منیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ لپٹن سے بھی ملاقات کی اور حالیہ معاشی پیش رفت اور آئی ایم ایف کی معاونت سے جاری ہونے والے اقتصادی اصلاحاتی پروگرام سمیت مختلف اہم امور پر تبادلۂ خیال کیا، اور آئی ایم ایف پروگرام کے قرض کی واپسی کی مدت میں توسیع کی درخواست بھی کی۔
عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد پہلی بار امریکہ گئے۔ ان کے دورے کو بھی کامیاب قرار دیا جارہا ہے۔ انہوں نے پہلی بار امریکہ میں باقاعدہ عوامی جلسہ کرنے کی روایت بھی ڈالی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ فوجیوں کو محفوظ واپس لایا جائے گا، اسی مقصد کے لیے اس وقت امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے، یہ سب کچھ پاکستان کی مدد سے ہی ہورہا ہے۔ اگلے سال امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں، واشنگٹن کی سوچ یہ ہے کہ اگر پاکستان طالبان کو مزید مذاکرات پر تیار کرتا ہے اور انہیں اشرف غنی حکومت کو تسلیم کرنے اور کسی بندوبست کا حصہ بننے پر راضی کرلیتا ہے تو یہ امریکہ کے لیے بڑی کامیابی ہوگی، کیونکہ اس طرح وہ اپنی فوجیں افغانستان سے نکال سکے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے وقت یہی نکات امریکی صدر کے ذہن میں تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب امریکہ کے اپنے مفادات ہوتے ہیں تو وہ فراخدلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی صدر اور سیکریٹری آف اسٹیٹ سے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ ترجمان امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ مورگن آرتیگس نے پریس بریفنگ کے دوران جو کچھ بھی کہا ہے اس کا تجزیہ ضروری ہے۔ مورگن آرتیگس نے کہا کہ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ پہلی ملاقات تھی، جس نے امریکی صدر اور سیکریٹری خارجہ کو وزیراعظم عمران خان سے ملنے کا موقع فراہم کیا تاکہ وہ ذاتی تعلق اور ہم آہنگی قائم کرسکیں، اب ہم سوچ رہے ہیں کہ پہلی ملاقات کی کامیابی پر پیش رفت کریں، وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان پر زور دیں گے، امریکی نکتہ نظر سے یہ اہم پیش رفت ہوگی۔ ترجمان نے کہا کہ امریکی صدر اور سیکریٹری خارجہ کے ساتھ ملاقات میں جو کچھ بھی طے ہوا ہے اب اُس پر عمل ہونا چاہیے، اور یہ وقت ہے کہ وعدوں پر عمل درآمد کیا جائے، وزیراعظم نے امریکی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ 48 گھنٹوں میں امریکی یرغمالیوں سے متعلق اچھی خبر ملے گی، ہم انسانی زندگی کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور بیرون ملک یرغمال امریکی شہریوں کی محفوظ واپسی کے لیے ہر ممکن وسائل کا استعمال کریں گے، وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا کہ ہم ان کی واپسی کے لیے مل کر کام کریں گے۔
اس دورے کا سب سے اہم اور بنیادی نکتہ امریکہ اور پاکستان کے مابین اعتماد کی بحالی اور دونوں ممالک کی افواج کے مابین تعلقات ازسر نو استوار کرنا تھا۔ یہ بداعتمادی اس لیے دہرا المیہ ہے کہ پاک فوج نے فاٹا اور سوات جیسے دشوار گزار پہاڑی علاقوں سے مسلح گروہوں کی بیخ کنی کے لیے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن امریکہ میں اسے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پینٹاگون کا دورہ کیا، اور قائم مقام سیکریٹری دفاع رچرڈ اسپینسر، حال ہی میں نامزد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی سے ملاقات کی۔ اس دورے میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کی ٹیم کے ساتھ آئندہ کچھ عرصے میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے امکانات پر براہِ راست گفتگو کا بہترین موقع ملا۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ امریکہ نے خطے میں سلامتی سے متعلق پاکستان کے تحفظات اور بالخصوص بھارت کی ریاستی سرپرستی میں پاکستان میں دہشت گردی جیسے خدشات کا ادراک کیا ہے۔
سلامتی سے متعلق روس اور چین کے ساتھ روابط بڑھانے سے افغانستان میں جاری امن عمل میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ فاٹا میں ہونے والے حالیہ انتخابات اس جانب پیش رفت ہیں۔ ماضیِ قریب میں صدر بش کے دور کی ’’ڈومور‘‘ کی رٹ جاری تھی۔ اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان پر افغان طالبان کی معاونت اور دہرا کھیل کھیلنے جیسے الزامات سے تعلقات مزید خراب ہوئے۔ عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ کی فضا یکسر مختلف تھی، امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر رُکن کے مطابق اگر اسلام آباد ’’دہشت گردی اور عسکریت سے متعلق اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے‘‘ تو دیرپا تعلقات کی بحالی کے لیے ’’دروازے کھلے ہیں‘‘۔ پاک امریکہ تعلقات کی بحالی کے لیے دروازے کب تک کھلے رہیں گے، وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کو وہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں۔