۔3 مارچ 2016ء کو بھارت کی بحریہ کے اعلیٰ افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے اُس وقت گرفتار کیا جب وہ ایران کی سرزمین سے پاکستان میں داخل ہوکر بلوچستان میں تخریب کاری، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کی واردات میں ملوث پایا گیا۔ یاد رہے اُسی زمانے میں بلوچستان میں ہزارہ برادری کے سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے ذرائع ابلاغ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی واردات کا مرتکب تھا، جبکہ بھارت کی سرکار نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ اس کی بحریہ کا افسر ہے، بلکہ اسے ریٹائرڈ شدہ افسر قرار دیا اور الٹا پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے کلبھوشن کو اغوا کیا تھا کیونکہ وہ ایران میں کاروبار کررہا تھا۔ پاکستان نے 8 اپریل 2016ء کو اس کی ابتدائی رپورٹ (FIR) درج کرادی اور 10 اپریل 2017ء کو ایک فوجی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنادیا، جس پر بھارت نے بڑا واویلا مچایا اور کہا کہ یہ سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے، اور 8 مئی 2017ء کو اس کے خلاف بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں اس فیصلے پر عمل درآمد رکوانے کے لیے درخواست دائر کردی، جسے بین الاقوامی عدالت نے منظور کرتے ہوئے پاکستان کو عمل درآمد روکنے کی تاکید کردی۔ یہاں پاکستان کو سخت اعتراض کرنا چاہیے تھا، کیونکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے بین الاقوامی عدالت کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مجاز نہیں ہے۔ یہ حکومتِ وقت (نواز حکومت) کی کمزوری اور نااہلی تھی کہ اُس نے اِس اہم مسئلے پر مؤقف اختیار نہیں کیا۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے عمران حکومت کے اٹل مؤقف پر ملزم کو بھارت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا، تاہم پاکستان کو ہدایت کی کہ وہ ملزم کو بھارت کے قونصلر(Consuler) سے ملنے کی اجازت دے۔ البتہ 23 دسمبر 2017ء کو پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت ملزم کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کی اجازت دی، جبکہ بھارت نے منفی پروپیگنڈا کرکے حالات کو مزید بگاڑ دیا۔ اس طرح پاکستان نے قونصلر کو ملزم سے ملنے کی اجازت نہیں دی کہ مبادا بھارت مزید پروپیگنڈا کرکے پاکستان کو بدنام کرے۔ حالانکہ ملزم اپنے دوسرے اقبالی بیان میں یہ کہہ چکا تھا کہ اُس نے بلوچستان میں خون خرابہ کروایا تھا۔ پاکستان نے اٹارنی جنرل انور منصور کی قیادت میں وکلا کی اچھی ٹیم بھیجی تھی، جس نے پاکستان کے مؤقف کو بہت مؤثر انداز میں پیش کیا تھا، جس کے باعث مذکورہ عدالت (ICJ) نے 17 جولائی 2019ء بروز بدھ دوٹوک فیصلے میں بھارت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ اس مقدمے کا فیصلہ پاکستان کی عدالت ہی کرے گی البتہ اگر وہ چاہے تو اس مقدمے کی ازسرِنو سماعت کرے۔ یہ ضرور ہے کہ عدالت نے سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا اور ملزم کو بھارتی قونصل کی رسائی پر اصرار کیا۔
دریں اثناء پاکستان کے جسٹس تصدق جیلانی نے جو مذکورہ عدالت کے ایڈہاک جج ہیں، فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان نے 21 مئی 2017ء سے بھارت کو چھ مراسلے بھیجے ہیں، جس میں تفتیش میں اُس کے تعاون کی درخواست کی تھی، حتیٰ کہ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اگر بھارت چاہے تو اپنے ہی قانون کے تحت ملزم پر مقدمہ چلائے، جو پاکستان کو منظور ہوگا۔ نیز انہوں نے دو نامور بھارتی صحافیوں (KARAN THANAR اور PARVEEN SWAMI) کے بیان کا بھی حوالہ دیا، جنہوں نے کہا تھا کہ کلبھوشن یادیو دہشت گرد ہے۔ (بحوالہ ڈان 18جولائی 2019ء، بروز جمعرات)
بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) کے اس فیصلے سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بھارت پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے، جبکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق وہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے۔ اس ضمن میں وہ اجمل قصاب کا ذکر کرتا ہے، جسے پاکستان حکومت اولاً اپنا شہری ہی نہیں مانتی تھی، لیکن پاکستان کے صحافیوں نے اُس کے قومی شناختی کارڈ حتیٰ کہ اُس کے والد کی نشاندہی تک کردی۔ یہ ضرور ہے کہ یہ پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ اس کا کوئی شہری کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب نہ کرے۔ جبکہ آئے دن پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہوتا رہتا ہے، جس کے کھرے ہندوستان، افغانستان، حتیٰ کہ ایران میں نظر آئے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ آخر کلبھوشن ایران سے پاکستان میں کیسے داخل ہوا؟ عالمی عدالت کو اس پہلو پر خاص طور پر روشنی ڈالنی چاہیے تھی۔ کیونکہ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایران تو پاکستان پر الزام عائد کرنے سے کبھی نہیں چوکتا، جبکہ وہ عوام کی نظروں میں کلبھوشن یادیو کا میزبان اور سہولت کار بنا ہوا ہے۔ ویسے بھی وہ رسوائے زمانہ انسان دشمن اور جنگی جرائم میں ملوث بشارالاسد جیسے درندے کی حمایت کرتا ہے جسے ملک کی صرف 30 فیصد اقلیت کی حمایت حاصل ہے (یعنی 10 فیصد علوی+ 10 فیصد نصاریٰ + 10 فیصد کرد نسل پرست)۔
جہاں تک پاکستان میں اس فیصلے کے بارے میں ردعمل کا تعلق ہے تو وہ محض جذباتی ہے، مثلاً بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ کلبھوشن کو سزائے موت کیوں نہیں دی گئی؟ تو اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی میثاق برائے انسانی حقوق کی شق نمبر 6 (4) میں سزائے موت کے مجرم کو فوری طور پر معافی مانگنے کا حق دیا گیا ہے، جبکہ اصرار کیا گیا ہے کہ ایسی معافی، مراعات یا سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ جبکہ آرٹیکل 6 (شق6-) میں یہ اصرار کیا گیا ہے کہ سزائے موت کے مجرم کو سزا کی منسوخی کے خلاف یا اس پر عمل درآمد روکنے کے سلسلے میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ شق6(6)۔ مبصرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان اس میثاق کی توثیق کرچکا ہے۔ لہٰذا قانوناً وہ اس پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ اسی طرح 28 رکنی یورپی اتحاد (EU) نے اپنے تمام ممالک میں سزائے موت منسوخ کردی ہے اور ترکی کے یورپی اتحاد میں داخلے کی راہ میں ایک رکاوٹ سزائے موت کا مسئلہ بھی ہے۔ حالانکہ حقیقتاً وہ ترکی کو اس لیے قبول نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ ناقدین یہ کہتے ہیں کہ آخر امریکہ نے بھی تو بعض ریاستوں میں سزائے موت برقرار رکھی ہے کیونکہ ایمل کاسی کو اس نے زہر کا انجکشن دے کر موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اگر پاکستان اس ضمن میں امریکہ کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا ہے تو اسے عظیم تر طاقت بننا پڑے گا، اور ٹرمپ جیسا آبرو باختہ سربراہ پیدا کرنا ہوگا جو پاکستان کے بس میں نہیں ہے۔ اس واقعے کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان کو بھارت کو پیشکش کرنی چاہیے کہ وہ اس سے مذاکرات بحال کرے اور انسداد دہشت گردی پر کوئی جامع لائحہ عمل بھی تیار کرے۔ مساوی تعداد پر مشتمل ایک مشترکہ عدالت بین الاقوامی قانون بشمول انسداد دہشت گردی کی روشنی میں مشترکہ فیصلے کرے، اور اگرارکان میں تعطل پیدا ہوجائے تو فریقین مل کر تیسرے ملک کو اپنا ثالث مقرر کریں جیسے مودی صاحب نے ٹرمپ سے کانا پھوسی میں درخواست کی تھی۔ اس کے لیے انہیں اخلاقی جرأت کی ضرورت ہوگی ،جسے وہ اپنی قوم سے مشاورت کے بعد اختیار کرلیں۔