وزیراعظم عمران خان نے امریکہ سے اپنے ’’کامیاب‘‘ دورے سے واپسی پر ائرپورٹ پر اپنے استقبال کے لیے آنے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی ملک کے دورے سے نہیں بلکہ ورلڈ کپ جیت کر آرہا ہوں‘‘۔ ہم سب وزیراعظم کی خوشی میں شریک ہوتے ہوئے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کے دورۂ امریکہ سے پاکستان کے حق میں ایسے نتائج پیدا فرما دے کہ پاکستانی قوم کو بھی اس سے وہ خوشی حاصل ہوسکے جیسی خوشی ورلڈ کپ جیتنے پر ہوئی تھی۔ یہ قوم پاک امریکہ تعلقات میں کامیابیوں کے دعووں کے تاریخ کے حوالے سے بڑے تلخ اور دل خراش تجربات رکھتی ہے۔ یہ قوم ’’خوش فہمیوں‘‘ کی تاریخ سے اتنی زخم خوردہ ہے کہ اسے اب دودھ کیا، چھاج کو بھی پھونک پھونک کر پینے میں تامل ہوتا ہے۔
حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کو حق ہے کہ وہ جناب عمران خان کے دورۂ امریکہ کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے کامیاب دورہ قرار دیں۔ اللہ کرے اس دورے سے مسئلہ کشمیر کے حل میں پیش رفت ہوسکے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ دورہ ’’آفیشل ورکنگ وزٹ تھا‘‘۔ واضح رہے کہ امریکہ کا دورہ کرنے والے سربراہِ حکومت اور سربراہِ مملکت کے دورے کے پانچ درجے ہوتے ہیں: (1) اسٹیٹ وزٹ، (2) آفیشل وزٹ، (3) آفیشل ورکنگ وزٹ، (4) ورکنگ وزٹ، اور (5) پرائیویٹ وزٹ۔
ہر وزٹ کا پروٹوکول اور آداب مختلف ہوتے ہیں۔ آفیشل ورکنگ وزٹ میں ظہرانے کا اہتمام تو ہوتا ہے مگر توپوں کی سلامی اور دوسرے خیرمقدمی کے انتظامات نہیں ہوتے جو اسٹیٹ وزٹ اور آفیشل وزٹ میں ہوتے ہیں۔ اسٹیٹ وزٹ سربراہِ مملکت یا کسی ملک کے بادشاہ کے لیے ہوتا ہے۔ پاکستان میں جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق کے دورۂ امریکہ کو اسٹیٹ وزٹ کا درجہ دیا گیا۔ جنرل پرویزمشرف سب سے زیادہ امریکی صدر سے ملنے والے فوجی سربراہ مملکت تھے۔ مگر انہیں کبھی اسٹیٹ وزٹ کا پروٹوکول نہیں دیا گیا۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ جانے والے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پینٹاگون پہنچنے پر نہ صرف 21 توپوں کی سلامی دی گئی بلکہ ان کا خیرمقدم بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کیا۔
ماضی میں امریکہ سے جو وزیراعظم یا صدر دورہ کرکے لوٹتا تھا اُس کی شان میں بھی اسی طرح کی قصیدہ گوئی ہمیں سننے کو ملتی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کا سفر مختصر وفد اور کمرشل فلائٹ سے کرکے بہت اچھا کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کا نجی ایئرلائنز سے یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا، اس سے قبل وزیراعظم کی حیثیت سے 13 غیر ملکی دورے کیے جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، ترکی، ملائشیا، کرغیزستان اور دیگر غیر ملکی دورے انہوں نے وزیراعظم کے لیے مختص سرکاری جہاز میں کیے۔ کمرشل فلائٹ کے ذریعے سفر کی ابتدا پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان نے اپنے پہلے غیر ملکی دورۂ امریکہ کے موقع پر کی تھی۔ بعدازاں 1947ء سے اکتوبر 1958ء تک جتنے بھی وزرائے اعظم یا سربراہِ مملکت غیر ملکی دوروں پر گئے وہ عام کمرشل فلائٹ کے ذریعے ہی گئے تھے، اور ان کے وفد تو وزیراعظم عمران خان کے مختصر وفد سے بھی بہت زیادہ مختصر ہوا کرتے تھے۔ ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان بھی امریکہ کے پہلے سرکاری دورے پر کمرشل فلائٹ سے گئے تھے۔ ایک بار تو جنرل ضیا الحق بھی امریکہ کمرشل فلائٹ سے گئے تھے۔ اللہ کرے سادگی اور کفایت شعاری ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن جائے۔ اور یہ تب ہی بنے گی جب حکمران اسے دکھاوے اور ذاتی تشہیر کا ذریعہ نہ بنائیں، جیسے وطنِ عزیز میں قیام پاکستان کے بعد ابتدا میںحکمرانوں نے سادہ طرزِِ زندگی کو شعار بنایا تھا اور حکومتی امور کی انجام دہی میں اختیار کی جانے والی کفایت شعاری کو اپنی ذاتی امیج بلڈنگ کے لیے استعمال نہیں کیا تھا۔ جب کہ آج کا منظرنامہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے آئندہ کے لیے یہ پابندی لگا دی جائے کہ غیر ملکی دورے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ، وہ صرف کمرشل فلائٹ سے کیے جائیں گے۔
پاکستان کے قیام کے ابتدائی برسوں میں اقتدار میں رہنے والے حکمران اس سلسلے میں حد درجہ احتیاط کرتے تھے۔ خود بانیٔ پاکستان قائداعظم کی بحیثیت سربراہِ ریاست زندگی اس کی عملی مثال ہے۔ وزیراعظم خان لیاقت علی خان دورۂ امریکہ پر اپنے چند رکنی وفد کے ساتھ کمرشل فلائٹ سے لندن گئے تھے۔ لندن سے انہیں لینے کے لیے امریکی صدر ’’ٹرومین‘‘ نے اپنا جہاز بھیجا تھا۔
لیاقت علی خان واحد وزیراعظم تھے جن کا اتنے بڑے پروٹوکول کے ساتھ استقبال ہوا تھا کہ ایئرپورٹ پر امریکی صدر ٹرومین اپنی کابینہ اور کانگریس کے منتخب نمائندگان کے ساتھ بہ نفس نفیس موجود تھے۔ ان کا یہ تین ہفتے کا طویل سرکاری دورہ تھا، پورے دورے کے دوران انہیں ہر جگہ مکمل اسٹیٹ وزٹ کا پروٹوکول دیا گیا تھا۔ آج تک ایسا پروٹوکول پاکستان کے کسی دوسرے حکمران کو نہیں دیا گیا۔ البتہ بھارت کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کو بھی، جنہوں نے بھارتی وزیراعظم کی حیثیت سے پاکستان کے وزیراعظم سے پہلے امریکہ کا دورہ کیا، بالکل ایسا ہی پروٹوکول دیا گیا تھا۔ ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے استقبال کے لیے بھی امریکی صدر کینیڈی، خاتونِ اوّل کے ساتھ ایئرپورٹ پر آئے تھے۔ وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے اپنے دورۂ امریکہ میں امریکی کانگریس سے بھی خطاب کیا تھا اور امریکہ کی بڑی جامعات سے بھی۔ ایک بڑی جامعہ نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی تھی۔
لیاقت علی خان امریکی نیشنل پریس کلب بھی گئے تھے اور امریکی تھنک ٹینک بھی، ہر جگہ انہوں نے قیام پاکستان کی غرض و غایت کے ساتھ یہ بھی دنیا کو بتایا تھا کہ ’’پاکستان کے قیام کی کامیاب جدوجہد نے دنیا کی محکوم قوموں کے لیے قابض حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کے عمل کو تیز کردیا ہے۔ اب دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے گی کہ کس تیزی سے محکوم اقوام غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہوں گی۔‘‘
واضح رہے کہ لیاقت علی خان کا یہ دورہ دستور ساز اسمبلی سے قراردادِ مقاصد کی منظوری کے ایک سال بعد ہوا تھا جس کے خلاف لبرل اور سیکولر طبقے نے طوفان مچایا ہوا تھا۔ دورۂ امریکہ میں بھی اُن سے اِس حوالے سے تابڑ توڑ سوالات ہوئے تھے، جس پر انہوں نے معذرت خواہانہ طرزِعمل اپنانے کے بجائے اس پر دوٹوک مؤقف اختیار کیا اور امریکی عوام کے سامنے وضاحت سے بیان کیا کہ پاکستان برابری کی بنیاد پر دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول پر تعلقات قائم رکھنے کے فیصلے پر کاربند رہے گا۔ پاکستان ایک فلاحی اسلامی جمہوری ملک کے طور پر اپنے تمام شہریوں، بشمول اپنے غیر مسلم شہریوں کی فلاح و بہبود اور مساوی ترقی کے مواقع فراہم کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ کئی جگہ اُن سے نظامِ حکومت کے بارے میں بھی سوال کیا گیا۔ اُن کا ہر جگہ ایک ہی جواب تھا کہ یہ ملک سیاسی جدوجہد اور سیاسی عمل کے ذریعے ووٹ کی طاقت سے بنا ہے، عوام کے ووٹوں سے منتخب لوگ ہی اس کا نظامِ حکومت چلائیں گے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکی کانگریس اور امریکہ کے دیگر اداروں میں جو خطاب کیا تھا اُس پر آزاد دنیا کے آزاد میڈیا نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یہ خطاب ایک اسٹیٹس مین (مدبر) حکمران کا نوٹ ایڈریس تھا۔‘‘ ایک عشرہ ہوا لیاقت علی خان کا یہ خطاب ری پروڈیوس ہوا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ کی پوری تفصیلی رپورٹ میڈیا کے ذریعے آج کی نوجوان نسل کو دکھائی جائے، تاکہ وہ جان سکیں کہ پاکستان کے یہ وہ حکمران تھے جنہوںنے اپنے کردار سے دنیا میں پاکستان کا وقار بلند کیا تھا۔ پاکستان نے ایک باوقار، خوددار قوم کے طور پر قائداعظمؒ کی قیادت میں جب اپنے سفر کا آغاز کیا تھا تو دنیا کی سپر طاقتیں بھی ہمیں وہی عزت و احترام دیتی تھیں جو ایک آزاد، باوقار اور خوددار قوم کا استحقاق ہوتا ہے۔ اس موقع پر ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے… کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان روس کے دورے کی دعوت مسترد کرکے امریکہ گئے تھے اس لیے اُن کا ایسا استقبال ہوا تھا۔ تاریخی ریکارڈ کی روشنی میں یہ بے بنیاد اور بالکل غلط بات ہے۔ روس نے پاکستان کو دورے کی دعوت ایران میں پاکستان کے سفیر راجا غضنفر علی خان (مرحوم) کے ذریعے 1948ء میں دی (اُس وقت پاکستان میں روس کا سفارت خانہ موجود نہیں تھا)۔ وزیراعظم نے فوراً ہی یہ دعوت قبول کرلی۔ روس نے وزیراعظم کے دورے کی تاریخ 14 اگست رکھی تھی، جس پر انہیں کہا گیا کہ 14 اگست پاکستان کا پہلا یومِ آزادی ہے، آپ کوئی اور تاریخ خواہ 14 اگست کے چند دن بعد ہی ہو، رکھ لیں۔ 14 اگست کو وزیراعظم پاکستان کا باہر جانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کا کوئی جواب روس کی طرف سے کبھی نہیں آیا۔ لیاقت علی خان امریکہ کے سرکاری دورے پر دو سال بعد 1950ء میں گئے تھے۔