بھارت کے منصوبہ سازوں کو کرن سنگھ کا انتباہ
بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے چند دن پہلے ہی مذاکرات کے بغیر مسئلہ کشمیر حل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مذاکرات کے بغیر مسئلہ حل کرنے کا واضح مطلب طاقت آزمائی تھا۔ راجناتھ سنگھ کے اس ذومعنی جملے کے ساتھ ہی یہ سوال اُٹھنے لگا تھا کہ گزشتہ تیس برس میں بھارت نے کشمیرکو فتح کرنے کے لیے طاقت آزمائی میں پہلے ہی کون سی کسر رکھ چھوڑی تھی جسے اب پورا کیا جانا مقصود ہے؟ اس اعلان کی گونج ابھی فضائوں میں ہی تھی کہ نریندر مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دووال نے کشمیر کا دورہ کیا، اور اس کے ساتھ ہی وادی میں مزید دس ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کردیا، جس سے عمومی تاثر یہی لیا گیا کہ بھارت کی حکومت یک طرفہ طور پر بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور ایکٹ 35Aکو ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کرچکی ہے ۔ یہ دفعات ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کی دوسری ریاستوں سے خصوصی اور الگ شناخت دینے کے ساتھ اس کے اپنے آئین کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ کشمیر کی خصوصی شناخت کا معاملہ اُس وقت سے گرم ہے جب ریاست جموں وکشمیر کے آخری مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ متنازع الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ یہ الحاق صرف تین امور خارجہ، دفاع اور مواصلات تک محدود تھا، باقی امور چلانے کے لیے ریاست آزاد تھی، اور اس آزادی کے تحفظ کے لیے ریاست کے اپنے آئین کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ اس آئین کے اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کے تحت غیر ریاستی باشندے کشمیر میں زمین خریدنے اور ملازمت کرنے کے حق دار نہیں تھے۔ یہ قانون ریاست کے دونوں منقسم خطوں آزاد ومقبوضہ کشمیر میں من وعن اپنایا اور جاری رکھا گیا ہے۔ دس ہزار فوجیوں کے اضافے سے یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ بھارت عدالتی چکروں میں اُلجھے بغیر ہی کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعات ختم کرسکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں ریاست میں ہونے والی بے چینی اور احتجاج کو کچلنے کے لیے اضافی فوج تعینات کی جا رہی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی روایتی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی نے اس کوشش کو آگ سے کھیلنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ تاہم اس دوران ایک اہم آواز ریاست کے آخری حکمران اور ماضی کی تلخ وتاریک کہانی کے اہم ترین کردار ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ نے بلند کی ہے۔
ڈاکٹر کرن سنگھ اپنے باپ کی بطور مہاراجا کشمیر معزولی کے بعد نئے انتظام میں ریاست کے صدر بنائے گئے گئے، جبکہ شیخ عبداللہ وزیراعظم نامزد ہوئے تھے۔ 88 سالہ کرن سنگھ دہلی میں کانگریس کی سیاست کرتے چلے آرہے ہیں۔ ڈاکٹر کرن سنگھ نے ایک خصوصی انٹرویو میں ایک واقف حال کے طور پر جہاں سری نگر اور دہلی کے تعلقات کے مدوجزر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہیں بھارتی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ’’اس معاملے پر احتیاط سے کام لیا جائے‘‘۔
کرن سنگھ نے کہا ہے کہ 26 جنوری 1952ء کو بطور صدرِ ریاست جموں وکشمیر خود انہی کے دستخط سے آئین ساز اسمبلی کا تیار کردہ آئین نافذالعمل ہوا ہے، اس لیے وہ بتانا چاہتے ہیں کہ کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی شقوں یا کشمیر کے آئین کے خاتمے کے سیاسی، قانونی، آئینی اور جذباتی اثرات ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ اس سارے معاملے کی پہلی بنیاد ہری سنگھ کا معاہدۂ الحاق ہے جو تین نکات کے گرد گھومتا ہے۔ پھر نہرو اور شیخ عبداللہ معاہدہ ہے، جس کی روشنی میں مَیں نے آئین ساز اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا، اور اس اسمبلی نے جو آئین بنایا اُس پر میں نے ہی دستخط کے۔ کرن سنگھ کا کہنا تھا کہ گو الحاق حتمی ہے مگر دہلی اور سری نگر کا رشتہ حتمی طور پر طے نہیں ہوا، اس حوالے سے دہلی کا مؤقف ہمیشہ الگ اور سری نگر کا الگ رہا ہے۔ کرن سنگھ نے بھارت کے منصوبہ سازوں کو انتباہ کیا ہے کہ وہ جن بنیادی اور پیچیدہ معاملات کو چھیڑنے چلے ہیں ان کی کئی جہتیں ہیں۔ باپو(مہاراجا ہری سنگھ) نے جس ریاست کا بھارت سے الحاق کیا تھا اس کی اُس وقت کی تیس فیصد آبادی اور پینتالیس فیصد رقبہ تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی صورت پاکستان، اور اقصائے چن کی صورت چین کے پاس ہے۔ ڈاکٹر کرن سنگھ کا کہنا تھا کہ کشمیر کی خصوصی شناخت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چار پہلوئوں سے خطرناک ہے: اول یہ کہ پوری ریاست جس کا سربراہ مہاراجا ہری سنگھ تھا اور جس کا انہوں نے بھارت سے الحاق کیا تھا، اب عملی طور پر موجود نہیں بلکہ تین ملکوں کے کنٹرول میں ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے ساتھ سری نگر اور دہلی کے انتظام اور اختیارات کا معاملہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا۔ تیسرا یہ کہ اس وقت ریاست کے مختلف یونٹس میں دوری ہے، وادی کشمیر، جموں اور لداخ مختلف سوچیں اپنائے ہوئے ہیں۔ چوتھا یہ کہ وادی میں ہر طرف قبرستان ہیں، پنڈت دربدر ہیں اور کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں، ڈوگروں کو بھی وہ عزت نہیں ملی جس کے وہ حق دار تھے۔کنٹرول لائن پر فائرنگ سے ان کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے، اور ان کی مشکلات حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔کرن سنگھ کا کہنا تھا کہ ان وجوہات کی بنا پر طے شدہ معاملات کو چھیڑنا بھارت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔
اس انٹرویو میں کرن سنگھ نہ صرف خود اپنے ساتھ ہونے والے سلوک سے شاکی نظر آئے بلکہ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے برتائو پر بھی خفگی ظاہر کرتے رہے۔ ان کا ذاتی شکوہ یہ تھا کہ مجھے صدرِ ریاست بناکر تاریخ نے نظرانداز کردیا، گویاکہ غیر مؤثر بنادیا گیا۔ اسی طرح وہ دہلی میں کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر کہتے ہیں کہ دہلی میں یہ کہنا تو آسان ہے کہ کشمیر ہمارا ہے، مگر میں پچاس برس سے دہلی میں مقیم ہوں، میں نے عملی طور پر ریاست جموں وکشمیر کا درد دہلی اور بھارت میں نہیں دیکھا، جو کچھ ہے صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ کرن سنگھ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی دو اہم کوششوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ پہلا یہ کہ 1964ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے مسئلے کے حل کی کچھ تجاویز کے ساتھ شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیجا، مگر شیخ عبداللہ ابھی پاکستان میں ہی تھے کہ نہرو کا انتقال ہوگیا، اور یوں معاملہ وہیں دب کر رہ گیا، کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ اس سمجھوتے کا اصل مسودہ کیا تھا۔ دوسری کوشش جنرل پرویزمشرف اورمن موہن سنگھ کے دور میں ہوئی تھی، مگر یہ فارمولا انجام تک نہ پہنچ سکا۔ اس کی مخالفت سید علی گیلانی اور ایل کے ایڈوانی کی طرف سے ہوئی تھی۔
کشمیر کی اُلجھی ہوئی کہانی کا واحد اہم ترین زندہ کردار ڈاکٹر کرن سنگھ ہیں، اور اُن کا یہ انٹرویو بھارت کے لیے چشم کشا ہے، جو طاقت کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی احمقانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔