مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کی صاحبزادی جو پارٹی کی مرکزی نائب صدر ہیں، غالباً پہلی بار سیاسی دورے پر کوئٹہ آئیں، 25 جولائی2019ء کو کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں حزب ِاختلاف کے جلسہ عام میں شریک ہوئیں۔ کوئٹہ ایئر پورٹ پر پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اُن کا استقبال کیا۔ اس روز کوئٹہ اور صوبے کے دوسرے مقامات پر بھی حزبِ اختلاف نے یوم سیاہ منایا، اور جلسہ بھی ملک کے اندر ہونے والے جلسوں سے کم نہ تھا۔ تاہم ان ساری تیاریوں میں پشتون خوا میپ کا حصہ غالب دکھائی دیا۔ جلسہ گاہ میں بھی اس جماعت کے کارکن پارٹی جھنڈے اٹھائے غالب تھے۔ باقی جماعتیں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی اور نیشنل پارٹی بھی شریک تھیں۔ جے یو آئی کی حاضری جزوی بھی نہ تھی۔ اگر یہ جماعت اپنے کارکن شریک کراتی تو جلسہ بلاشبہ عظیم الشان ہوتا۔ اس دن قدغنیں بھی دکھائی دیں۔ کوئٹہ چمن شاہراہ تین مقامات پر بند کی گئی۔ کوئٹہ ژوب شاہراہ بوستان کے مقام پر بند تھی، جس کی وجہ سے قافلے جلسے میں شریک نہ ہوسکے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود سیاسی کارکنوں نے کسی تصادم سے گریز کیا، حالانکہ انہیں روکنا کسی کے بس سے باہر تھا، البتہ انہوں نے سوشل میڈیا پر احتجاج ریکارڈ کرایا اور دکھایا کہ ایف سی اہلکار قافلے روکے ہوئے ہیں۔ تاہم کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ دراصل مسلح افراد کے ذریعے بند کرائی گئی جو ایک اسمگلر صادق اچکزئی کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ یہ اسمگلر کسٹم کے ڈپٹی کلکٹر عبدالقدوس شیخ کے قتل کے الزام میں حراست میں تھا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیاں، نیٹو سپلائی،دوسری مال بردار گاڑیاں اور عام گاڑیاں روکی گئی تھیں۔ مسلح افراد چہرے ڈھانپے ہوئے تھے، جو کلاشنکوف اٹھائے ہوئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کسی تاجر کی اتنی ہمت ہے کہ وہ انٹرنیشنل شاہراہ کو دو دن اسلحہ کے زور پر بند رکھے، اور وہ جسے قتل کے الزام میں دھرلیا گیا ہو؟ ظاہر ہے کہ ان افراد نے عین اسی روز کہ جب اس شاہراہ سے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو کوئٹہ جانا تھا، کسی کے کہنے پر اتنا بڑا قدم اٹھایا کہ جس کے آگے لیویز، پولیس، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، یہاں تک کہ بلوچستان حکومت بھی بے بس تھی۔ گویا یہ ساری بدمعاشی جلسے پر اثرانداز ہونے کے لیے کی گئی اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ عوام الناس اور ٹرانسپورٹرز کو عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ ادارے ان اعمال کے مرتکب ہوں گے تو لامحالہ ان پر اعتراض ہوگا، ان کے خلاف باتیں ہوں گی۔ ویسے بھی قلعہ عبداللہ کے اندر بڑی قبائلی دشمنیوں کو دوام دینے کے لیے اداروں کو مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔ اور بات درست بھی دکھائی دیتی ہے کہ آپریشن ردالفساد جاری ہے اور ان علاقوں میں لوگ بھاری اسلحہ سے لیس ہیں۔ ایک جھڑپ میں کئی کئی لوگ مر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ غالباً رمضان المبارک میں ایک شخص کو دشمن داروں نے سڑک پر بم نصب کرکے دھماکے سے اڑا دیا۔ کوئی گرفتاری ہوئی، نہ کوئی روک ٹوک، نہ آپریشن۔ تعجب ہے کہ قومی شاہراہ مسلح افراد نے بند کی ہوئی تھی، اور انتظامیہ ممنوعہ خودکار اسلحہ کی بنیاد پر بدمعاشی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے مذاکرات کرتی رہی۔ اطلاع آتی ہے کہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ دوسرے روز شام کو خبر آئی کہ پی ٹی آئی کے ایک رکن بلوچستان اسمبلی مبین خان نے کامیاب مذاکرات کے ذریعے احتجاج ختم کرا دیا۔ یعنی ایک نان لوکل شخص کو کامیابی ملی۔ یہ طرزِعمل درست نہیں۔ اس طرح کے حربے مسائل پیدا کریں گے۔ برقی میڈیا کو الگ جکڑ کے رکھ دیا گیا ہے۔ جلسے کے روز آل پارٹیز کوآرڈی نیشن کمیٹی کے رہنمائوں نے فوری پریس کانفرنس کے ذریعے توجہ دلائی کہ جلسے کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو شرکت سے روکا جارہا ہے۔ یہ پریس کانفرنس پشتون خوا میپ کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال، نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جان بلیدی، پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر علی مدد جتک، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکریٹری جنرل مابت کاکا، اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنمائوں نے کی۔ ان کے مطابق اندرونِ صوبہ مختلف علاقوں سے جلسے میں شرکت کے لیے آنے والوں کا راستہ روکنے کے لیے مختلف مقامات پر قومی شاہراہوں کو مسلح قبائلی افراد نے بند کردیا ہے۔ کوئٹہ قلعہ عبداللہ شاہراہ کو چار مقامات پر، جبکہ کوئٹہ ژوب شاہراہ کو بوستان کے مقام پر بند کیا گیا۔ پریس کانفرنس میں مزید بتایا گیا کہ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں اطلاع دی گئی ہے کہ جلسے کی سیکورٹی ان کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ آل پارٹیز کی ذمہ داری ہے۔
گویا اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہوئے جو قابلِ مذمت ہیں۔ بہرحال مریم نواز نے کوئٹہ ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات چیت کی، بعد ازاں پارٹی کارکنوں سے خطاب کیا۔ پارٹی رہنمائوں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ بعد ازاں ایوب اسٹیڈیم میں بڑے جلسہ عام سے مریم نواز، نیشنل پارٹی کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخار، جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع، پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر علی مدد جتک سمیت دوسرے رہنمائوں نے خطاب کیا۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان کا خطاب آخری یعنی صدارتی تھا۔ برقی ذرائع ابلاغ نے غیر اعلانیہ پابندی کی وجہ سے مریم نواز کے دورے اور جلسے سے خطاب کی کوریج سے گریز کیا۔ ذکر ہوا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) جو کہ حزب اختلاف کا حصہ ہے، کے کارکن اس جلسے میں شریک نہ ہوئے۔ جلسہ گاہ میں اُن کی جھنڈیاں اِکا دُکا دکھائی دیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جے یو آئی کی پوری توجہ تین دن بعد یعنی 28جولائی کو ملین مارچ کے عنوان سے اپنے پروگرام پر تھی۔ یقیناً بڑے پیمانے پر تیاریاں ہوئیں جس کے نتیجے میں کوئٹہ کے اندر بلوچستان کی تاریخ کے بڑے مارچ کا انعقاد کرنے میں وہ کامیاب ہوئی۔ کوئٹہ کے زرغون روڈ پر عوامی طاقت کا مظاہرہ ہوا۔ مولانا فضل الرحمان اور دوسرے رہنمائوں نے خطاب کیا۔ یہ جے یو آئی کے حالیہ جاری احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کا آخری پروگرام تھا جس کا اعلان خود مولانا فضل الرحمان نے بھی کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے یہاں وفاقی حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے اگست تک کی ڈیڈ لائن دی، دوسری صورت میں اکتوبر میں جمعیت کے کارکن پورے ملک سے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ مولانا نے کہا کہ موجودہ حکومت انتخابات میں دھاندلی اور جعلی مینڈیٹ کے ذریعے مسلط کی گئی، اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ان انتخابات کو شفاف تسلیم نہیں کرتیں، اور ان کا متفقہ مطالبہ ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کو ذلیل و رسوا اور گرانے کے بعد ہی گھروں کو لوٹیں گے۔