میری معلمانہ زندگی کی تلخ و شیریں یادیں

کتاب : میری معلمانہ زندگی کی تلخ و شیریں یادیں
مصنف : پروفیسر رشید احمد انگوی
ضخامت : 288 صفحات
قیمت : 400 روپے
ناشر : الخلیل ریسرچ سینٹر،
16 جی ،مرغزار کالونی، ملتان روڈ لاہور
فون : 03004723514
ویب گاہ : www.arc.com
برقی پتا : rasheedangri16@gmail.com
فیس بک لنک: facebook.com/rasheed.angvi
پروفیسر رشید احمد انگوی بنیادی طور پر حیاتیات (زولوجی) کے استاد ہیں، تاہم اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کی محبت، فہم اور اطاعت کا جذبہ فراواں عطا فرمایا ہے، اور علم و ادب اور تحریر و تقریر کی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور کیا ہے۔ وادیٔ سون سیکسر (خوشاب) کے ایک پہاڑی گائوں انگہ میں پیدا ہوئے، اسی نسبت سے ’انگوی‘ ان کے نام کا جزوِ لازم قرار پایا ہے۔ حصولِ تعلیم کے شوق میں خوشاب، چنیوٹ، رحیم یار خان اور ملتان سے ہوتے ہوئے جامعہ پنجاب لاہور پہنچے، اور یہاں سے مارچ 1969ء میں ایم ایس سی حیاتیات میں درجۂ اول میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ 30 جون 1969ء کو بلوچستان میں افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قصبہ فورٹ سنڈیمن کے انٹرمیڈیٹ کالج سے بطور ایڈہاک لیکچرر تدریس کے سفر کا آغاز کیا، پھر لورالائی، سبی، خواجہ فرید کالج رحیم یار خان، گورنمنٹ کالج صادق آباد، گورنمنٹ کالج لاہور، ایف سی کالج لاہور، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس اور گورنمنٹ کالج ٹائون شپ میں لیکچرر سے پروفیسر اور صدرِ شعبہ تک کے طویل مراحل طے کیے، اور آخر 31 اگست 2006ء کو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج گوجرانوالہ سے بطور پرنسپل سبک دوش ہوئے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوگئی، بلکہ ان کے قدیم رفیقِ کار منصورہ ڈگری کالج لاہور کے پرنسپل پروفیسر شیخ رفیق احمد نے گوجرانوالہ کالج سے سبک دوشی سے قبل ہی اپنے کالج میں بطور وائس پرنسپل ان کی خدمات حاصل کرلی تھیں۔ یہاں سے بطور پرنسپل دار ارقم کالج فیصل آباد منتقل ہوگئے اور دسمبر 2011ء میں منصورہ ڈگری کالج میں واپس بطور پرنسپل بلا لیے گئے۔ مارچ 2015ء تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ اس طویل عرصے میں جہاں بھی گئے اپنے حسنِ سلوک، تعلقِ خاطر، تعلیمی نظم و ضبط اور دعوتِ دین کی داستانیں چھوڑ آئے۔
تمام عمر ’’حیاتیات‘‘ کے خالصتاً سائنسی اور بظاہر خشک مضمون کی تعلیم و تدریس میں بسر کرنے کے باوجود گہرا دینی شعور رکھتے ہیں اور شاعری سے بھی شغف ہے۔ قرآن حکیم اور اقبالیات مطالعے کے میدان میں ان کے پسندیدہ شعبے ہیں، چنانچہ تعلیم و تربیت کی عمر بھر کی مصروفیات سے فراغت کے بعد ’’فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں بھی جنوں میرا‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے والدِ محترم قاضی محمد خلیل کے نام کی مناسبت سے ’’الخلیل ریسرچ سینٹر‘‘ قائم کرکے تحقیق و تصنیف کے کام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اب تک (1) رحمن، قرآن، انسان، (2) تلقینِ اقبال، (3) براہیم کی تلاش، (4) مطالعہ سورہ البقرہ، (5) اسلامی مملکت کا دفاع قرآن کی روشنی میں، (6) علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات، (7)لمحۂ موجود_ اور تعلیماتِ اقبال، (8) یقین۔ عمل۔ محبت، (9) جب عدلیہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، (10) وقت کی پکار، سیاسی انقلاب، (11) زرداری دورِ حکمرانی کی حقیقتیں، (12)ملالہ، کے عنوانات کے تحت چھوٹی بڑی درجن بھر کتب شائع ہوچکی ہیں، جب کہ قرآن حکیم کی شرح ’خلیل التفاسیر‘ زیر طبع ہے۔ ان کی تازہ ترین زیر مطالعہ کتاب ’’میری معلمانہ زندگی کی تلخ و شیریں یادیں‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس میں مصنف نے 1969ء سے شروع ہوکر 2015 ء میں اختتام پذیر ہونے والی طویل تدریسی مصروفیات کی اچھی بری، پسندیدہ اور ناپسندیدہ ہر طرح کی یادیں جمع کردی ہیں۔ کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام ان الفاظ میں کیا ہے: ’’اپنے پیارے والدین والد گرامی استاذ العلماء، شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی محمد خلیلؒ (شاگردِ خاص محدث کبیر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ و علامہ شبیر احمد عثمانیؒ) اور والدہ محترمہ انور جان، بنتِ حضرت مولانا قاضی حسین محمدؒ نقشبندی مجددی، خطیب جامع مسجد پنجاب سینٹر فیروزپور چھائونی و شاگردِ خاص حضرت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کے نام (رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْرا)۔
کتاب کا آغاز ’’میں کیا، میری بساط کیا‘‘ کے عنوان سے افتتاحیہ سے ہوتا ہے، اور ’’حرفِ آخر‘‘ کے عنوان سے اختتامیہ پر مکمل ہوتی ہے۔ افتتاحیہ اور اختتامیہ کے درمیانی صفحات میں یادداشتوں کو 14 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آخری باب ’گوشۂ خاص‘ ہے جس میں انہوں نے تدریسی یادداشتوں سے ہٹ کر اپنے عظیم القدر اسلاف اور قابلِ ذکر احباب کا تذکرہ نہایت اخلاص اور محبت سے کیا ہے۔ کہنے کو تو یہ پروفیسر رشید احمد انگوی صاحب کی ذاتی خصوصاً پیشہ ورانہ زندگی کی یادداشتیں ہیں، تاہم قاری کے لیے اس میں سیکھنے اور حاصل کرنے کو بہت کچھ ہے۔ کتاب کے مطالعے سے یہ بات بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ اگر انسان کا نصب العین اس کے سامنے واضح ہو تو مشکل سے مشکل حالات میں بھی اس کے حصول کی سعی اور کامیابی کی جانب پیش رفت کی جاسکتی ہے، اور حالات کے دھارے کو اپنے مطلوبہ رخ پر موڑا جا سکتا، تاہم اس کے لیے عزم مصمم لازم ہے۔
کتاب خوبصورت رنگین اور بامقصد سرورق کے ساتھ عمدہ کاغذ پر شائع کی گئی ہے، طباعت معیاری ہے، مضبوط جلد، اور اعلیٰ گرد پوش کا بھی اہتمام ہے۔ حروف خوانی پر خاص توجہ دی گئی ہے، اس لیے دورانِ مطالعہ کتابت کی غلطیاںذہنی کوفت کا سبب نہیں بنتیں۔ تعلیم و تدریس کے پیشے سے منسلک اساتذہ و طلبہ کے علاوہ دین کی دعوت کا ذوق اور اس کی اہمیت کا احساس رکھنے والوں کو بھی کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔