پاکستانی سائنسدانوں نے سائیکلوپیا مرض کا جانور ماڈل تیار کرلیا

مملکتِ پاکستان کے سائنسدانوں نے انسانی پیدائشی نقص پر مبنی ایک جانور کا ماڈل تیار کیا ہے۔ اس نقص کو جو پیدائشی ہوتا ہے، سائیکلوپیا کہا جاتا ہے، جس کا ماڈل عام پھل مکھی میں بنایا گیا ہے، اور اب یہ مکھی عین انسانی پیدائشی نقص کا ایک چھوٹا ماڈل ہے۔ یہ ماڈل ڈاکٹر مشتاق حسین اور ان کی پوسٹ گریجویٹ شاگرد ثانیہ شبیر اور فوزیہ رضا نے جن کا تعلق ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اینڈ بایومیڈیکل سائنسز کی بایوانفارمیٹکس اور سالماتی ادویہ کی تجربہ گاہ سے ہے، تیار کیا ہے۔ انہوں نے پھل مکھی میں ماڈل بنایا ہے جس کا حیاتیاتی نام ڈروزوفیلا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کے 75 فیصد جین ڈروزوفیلا میں پائے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر انسانی بیماریوں کی آزمائش کے لیے پھل مکھی یا ڈروزوفیلا ایک بہترین جانور ثابت ہوئی ہے۔ اب تک ماہرین اس مکھی پر 150 سے زائد امراض پیدا کرکے انسانی بیماریوں کی تحقیق آگے بڑھا چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر جینیاتی امراض ہیں۔ اسی بنا پر تجربہ گاہوں میں چوہے کے ساتھ ساتھ پھل مکھی بھی ایک بہت اہم تحقیقی معاون سمجھی جاتی ہے۔
پاکستان میں کئی ایسے افراد دیکھے گئے جن کی آنکھوں کے ڈیلے دھیرے دھیرے سکڑ کر ان میں اندھے پن کی وجہ بن رہے تھے۔ اسی بنا پر اس پراسرار مرض کو سمجھنا بہت ضروری تھا۔ ماہرین کا قیاس تھا کہ شاید یہ مرض ایک جین ’مارک تھری‘ کی خرابی یا اس میں نقص کی وجہ سے پیدا ہورہا تھا۔ انسانی بچے بہت سے نقائص کے ساتھ بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اندازاً ہر لاکھ بچوں میں سے ایک بچہ سائیکلوپیا کے پیدائشی نقص کے ساتھ جنم لے سکتا ہے۔ اس طرح کے بچوں کی دونوں آنکھیں نہیں ہوتیں اور پیشانی کے اطراف ایک آنکھ یا دوحصوں میں منقسم ایک آنکھ ہوسکتی ہے۔ ایسے نومولود کے منہ اور ناک یا تو مکمل طور پر نہیں بنے ہوتے، یا پھر غائب ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ اپنی پیدائش کے صرف چند گھنٹوں بعد ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ سائیکلوپیا بچے اکثر مُردہ پیدا ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان میں اس کیفیت کی درست وجہ جاننے میں دقت پیش آتی رہی ہے، جس کے تحت اب مکھی ماڈل بنایا گیا ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ دورانِ حمل ذیابیطس، بعض زہریلے مرکبات اور دیگر وجوہ سے بھی سائیکلوپیا بچے پیدا ہوسکتے ہیں۔ سالماتی سطح پر بعض پروٹین کے غلط اظہاریوں (ایکسپریشن) کی وجہ سے بھی یہ نقص سامنے آتا ہے۔سائنسدانوں کی اس ٹیم کا خیال ہے کہ اگر مزید سائیکلوپیا مکھیاں بن سکیں تو اس سے نقص کی جینیاتی اور فعلیاتی تفصیل جاننے میں بہت مدد مل سکے گی۔ پاکستان میں بھی سائیکلوپیا بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن ملک میں رجسٹری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی درست تعداد معلوم کرنا قدرے مشکل ہے۔

پاکستانی بچوں میں موبائل کے خطرناک اثرات

کم عمر بچوں میں موبائل کا استعمال بڑھتا جارہا ہے اور اس کے خراب اثرات سامنے آرہے ہیں۔ موبائل کے زیادہ دیر استعمال سے بچوں میں آنکھوں کی مختلف بیماریاں بھی تیزی سے پھیلنے لگی ہیں۔ دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں رہائش پذیر بچوں میں موبائل کا کثرت سے استعمال مشاہدے میں آیا ہے۔ تین سال سے پانچ سال کی عمر تک کے بچوں میں موبائل کا استعمال بھی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے جس سے ان بچوں میں آنکھوں کی بیماریاں، آنکھوں میں خشکی پیدا ہونا، آنکھوں کا جلنا اور نظر کمزوری کے ساتھ ساتھ چھوٹی عمر میں چشمے لگانے کا معاملہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچوں میں موبائل کا استعمال نقصان دہ ہے۔ موبائل سے جو شعاعیں نکلتی ہیں ان کے باعث آنکھوں سے پانی بہنا، دماغ کی کمزوری، اور ہڈیوں کی کمزوری جیسی موذی بیماریاں بھی لاحق ہوسکتی ہیں۔ اگر پانچ سال سے کم عمر بچے روزانہ کئی گھنٹے موبائل استعمال کریں تو وہ اگلے چند ہفتوں میں آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوجائیں گے اور ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ انہیں چشمے کے بغیر مشکل ہی سے دیکھنا نصیب ہوگا۔جو بچے موبائل، ٹیبلٹ اور ویڈیو گیمز زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کی جسمانی نشوونما بھی اُس تیزی سے نہیں ہوتی جس طرح کھیل کود کرنے، دھوپ لینے اور موبائل استعمال نہ کرنے والے بچوں کی جسمانی و ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ کھیلنے کودنے اور روزانہ دھوپ لینے والے بچے تندرست بھی رہتے ہیں، جبکہ موبائل استعمال کرنے والے اکثر بچے چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ جو بچے زیادہ دیر تک کمرے میں بند رہتے ہیں اور موبائل سے چمٹے رہتے ہیں، ان میں دھوپ نہ لینے کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی بھی ہوجاتی ہے۔

اب ائیرکنڈیشنر جیب میں ہوگا

ریون پاکٹ نامی اے سی کو اس خصوصی ٹی شرٹ کی گردن اور کمر کے درمیان موجود جیب میں رکھ دیا جائے گا اور یہ خاموش ڈیوائس گردن پر ٹھیر کر تھرمو الیکٹرک کولنگ خارج کرے گی۔ اسے استعمال کرنے کے لیے ایک خاص ٹی شرٹ کو پہننا ہوگا۔ گرم موسم میں تو یہ اے سی آپ کا جسمانی درجہ حرارت 13 ڈگری تک پہنچائے گا، جبکہ سرد موسم میں یہ جسمانی درجہ حرارت بڑھا کر 8 ڈگری تک لے جائے گا۔کمپنی کے مطابق اس اے سی میں پلیٹیر ایفیکٹ استعمال کیا گیا ہے جو کہ عام طور پر گاڑی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اے سی ایک موبائل ایپ کی مدد سے کنٹرول ہوگا، جبکہ آٹومیٹک موڈ بھی کمپنی مستقبل میں متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے، اور یہ سنگل چارج پر 24 گھنٹے کام کرسکے گا۔ اس کے بعد یو ایس بی سی پورٹ سے 2 گھنٹے میں اسے مکمل چارج کرنا ممکن ہوگا۔ فی الحال یہ اے سی کرآڈ فنڈنگ کے لیے پیش کیا جارہا ہے جس کی شپنگ مارچ 2020ء میں شروع ہونے کا امکان ہے اور وہ بھی صرف جاپان میں۔ اس کی قیمت 12 ہزار جاپانی ین (لگ بھگ 19 ہزار پاکستانی روپے)سے زائد رکھی گئی ہے۔