صارفیت میں محصور معاشرہ اور کتاب سے تعلق

مادیت اور صارفیت میں محصور معاشرے کا رشتہ کتابوں سے ٹوٹ چکا ہے۔ صارف کلچر نے انسانی ذہن کو اس قدر مادیت پرست بنادیا ہے کہ انسان کی معراج اب صرف مادی عروج اور ترقی بن کر رہ گئی ہے۔ کتابوں میں روحانیت کی جو خوشبو ہوتی ہے اُس سے ہمارا سماج دور ہوچکا ہے۔ ایسی صورت میں کتاب کلچر کو فروغ دینا وقت کی ضرورت بن جاتی ہے، کیونکہ اس کلچر سے دوری کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا چہرہ بھی مسخ ہوتا جارہا ہے اور بہت سی منفی قدریں ہمارے معاشرے کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ جرائم اور دیگر برائیوں کے بڑھنے کی اصل وجہ بھی کتاب کلچر سے دوری ہے۔ کتاب کلچر سے دوری کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ اعلیٰ اقدار، افکار اور خیالات کے دروازے بند ہوگئے ہیں، جبکہ ماضی سے لے کر اب تک کتاب ہی ایک ایسی چیز تھی جو نہ صرف انسان کو اسرارِ فطرت سے آشنا کرتی تھی بلکہ آدابِ زندگی بھی سکھاتی تھی۔ کتاب ہی ہے جو احساس کے نئے نئے دروازے کھولتی ہے اور انسانوں کو متانت اور تمکنت سکھاتی ہے۔ کتاب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے بہتر کوئی دوست نہیں ہے۔ تنہائی کا سب سے بہترین رفیق کتاب کو ہی کہا گیا ہے۔ لیکن آج معاشرہ تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔ اب کتاب کی جگہ موبائل اور انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ شاید آج کا معاشرہ مادی ترقی پر مرکوز ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لیے روحانیت کے لیے بہت کم جگہ رہ گئی ہے۔ جبکہ انسانی اقدار اور روحانیت کے تحفظ کے لیے کتابوں سے رشتہ جوڑنا بہت ضروری ہے کہ یہی کتابیں ہیں جو ہمیں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے آشنا کرتی ہیں اور ہمارے ضمیر اور ذہن کو نئی زندگی عطا کرتی ہیں۔ اس لیے کتاب کلچر سے دوری آج کے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے جس پر دانش ورانِ قوم و ملّت کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کو کتابوں سے کیسے جوڑا جائے اور مطالعے کے رجحان کو کیسے بڑھاوا دیا جائے۔ کیونکہ جب تک کتاب اور کاغذ پر توجہ مرکوز نہیں کی جائے گی، حالات نہیں بدل سکتے۔
پرانے زمانے میں لوگ کتابوں کی جستجو میں دور دراز علاقوں کا سفر کرتے تھے، صعوبتیں برداشت کرتے تھے۔ لیکن آج جبکہ پہلے کے مقابلے میں نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کتابوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے، لوگ کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے اب معاشرے کے بیدار اور حساس افراد کی ذمے داری بنتی ہے کہ کتاب کلچر کے تحفظ کے لیے کوشش کریں، اور اس کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک بہترین صورت تو یہ ہے کہ ہر گائوں، قصبے اور شہر میں لائبریریاں قائم کی جائیں اور کتابیں ردی میں بیچنے کے بجائے لائبریریوں کو دی جائیں۔ آج بہت سے لوگ اپنی کتابیں ردی میں بیچ دیتے ہیں، اس طرح کے بہت سے المناک واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ بہت سی قیمتی کتابیں بڑے مصنفین کے وارثوں نے ردی میں بیچ دیں۔ اس طرح کے واقعات یقیناً احساس دلاتے ہیں کہ کتابوں کی جو قدر و قیمت تھی وہ اب ختم ہوتی جارہی ہے۔
تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ جنہوں نے اپنی ذاتی لائبریریوں میں نادر و نایاب کتابوں کا قیمتی اثاثہ محفوظ رکھا ہوا ہے اور انہیں یہ کتابیں اپنی جان سے بھی عزیز تھیں۔ انہیں احساس تھا کہ ان کتابوں سے روشنی پھیلے گی۔ مگر اب صورتِ حال یہ ہے کہ کتابوں کے لیے گھروں میں جگہ نہیں رہ گئی ہے۔ جن گھروں میں کتابوں کی روشنی ہوتی ہے وہ گھر آباد رہتے ہیں، لیکن جو گھر کتابوں سے محروم ہیں وہاں تاریکیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ پرانے زمانے میں کتابیں تحفے میں دی جاتی تھیں اور بہت ہی قیمتی تحفہ سمجھی جاتی تھیں، مگر آج کے عہد میں کتابوں کی کوئی اہمیت اور معنویت نہیں رہ گئی ہے۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ دانش گاہوں کے اساتذہ اور طلبہ آگے آئیں اور لوگوں کو کتاب کی معنویت اور اہمیت و افادیت سے آگاہ کریں، اور مطالعے کے رجحان کو آگے بڑھائیں۔ اس رجحان کو تقویت دینے کے لیے دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں بھی اس طرح کی مہم چلانی چاہیے، تاکہ ہمارے معاشرے کا رشتہ کتابوں سے قائم ہوسکے، کیونکہ کتابیں ہی ہیں جن سے دنیا میں بہت سے انقلابات بپا ہوئے ہیں اور بہت سے ملکوں کی تصویر و تقدیر بھی بدلی ہے۔ کتابوں سے رشتہ جوڑ کر ہم اپنی روایت اور تہذیب کا بھی تحفظ کرسکتے ہیں۔
(ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی ،جولائی2019 ،شیخ عقیل احمد

پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے
ہے لازوال عہدِ خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
ہے تیرے گلستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دور
خالی ہے جیب گل زر کامل عیار سے
جو نغمہ زن تھے خلوتِ اوراق میں طیور
رخصت ہوئے ترے شجرِ سایہ دار سے
شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تُو
نا آشنا ہے قاعدۂ روزگار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ!۔

زرکامل عیار: کسوٹی پر پورا اترنے والا سونا۔ کھرا سونا۔
خزاں کے موسم میں جو شاخ درخت سے ٹوٹ جاتی ہے، وہ بہار کے بادل سے ہری بھری نہیں ہوسکتی۔ اس پر ہمیشہ خزاں چھائی رہتی ہے۔ نہ کبھی اسے پتّے لگتے ہیں نہ پھل۔
اے مسلمان! تیرے باغ میں بھی پت جھڑ کے موسم کا دور دورہ ہے اور پھول کی جیب کھرے سونے سے خالی ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کا ایمان کمزور ہوگیا ہے، اس لیے ان پر پستی اور زوال چھا گیا ہے۔
جو پرندے پتّوں کی تنہائی میں نغمے گا رہے تھے، وہ تیرے سائے والے درخت سے رخصت ہوگئے۔ یعنی جو شاخ درخت سے کٹ کر الگ ہوچکی ہو، وہ سوکھ جاتی ہے۔ اس پر نہ کوئی پرندہ بیٹھتا ہے اور نہ ان کی نغمہ زنی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔
تُو کٹی ہوئی شاخ سے سبق حاصل کر۔ یہ اس لیے کہتا ہوں کہ تُو زمانے کے قاعدے سے ناواقف ہے۔
قوم کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھ۔ تیرے لیے بہار کی امید اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ درخت سے چمٹا رہے۔