رشتوں کی قاتل تہذیب

نظام سرمایہ داری کی بنیاد اسراف کا کلچر ہے، اس میں سرمایہ کار ایک ایسی تہذیب کو فروغ دیتے ہیں جس میں انسان صرف ضروریات پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ بہت سی غیر ضروری چیزوں کو اپنی ضروریات بنالیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انسانی خواہشات میں خوش لباس ہونا، طرح طرح کے مزیدار ماکولات و مشروبات کا استعمال، خوب صورت گھر کی خواہش اور اس کی آرائش شامل ہیں۔ یہ سب فطری نعمتیں ہیں اور خدا کو یہ بات بھی پسند نہیں کہ اس نے جس شخص کو خوش حال بنایا وہ پھٹے حالوں میں رہے اور خدا کے فضل کا اپنے طرزِ زندگی میں اظہار نہ کرے۔ لیکن ہمارے لیے خواہشات کو ایک حد میں رکھنا ضروری ہے۔ نظامِ سرمایہ داری کی فطرت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے سینے کو حرص و ہوس کی بھٹی بنادیتا ہے، اور اس سے جو آگ نکلتی ہے وہ ہمہ وقت ہل من مزید کا تقاضا کرتی ہے، غیر ضروری اشیاء کی خریداری کی ایک دوڑ لگی رہتی ہے جس کے سبب گھروں کے بجٹ درہم برہم رہتے ہیں، حیثیت سے زیادہ خرچ کے باوجود تشفی نہیں ہوتی اور محرومی کا احساس رہتا ہے، حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، رزقِ حلال پر اکتفا کرنے کے بجائے آدمی ناجائز کمائی کی طرف جاتا ہے اور بیوی بچوں کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات گھر والوں کو آدمی کے لیے فتنہ بنادیتی ہیں، اور خاندان کے خاندان اور پوری قوم اسراف کے کلچر کو اختیار کرکے شیطان کے بھائی بند گروہ میں شامل ہوجاتی ہے۔ اسراف کے اس کلچر کو فروغ دینے کے لیے اشتہارات سے لے کر ثقافتی تقاریب تک سارے حربے اختیار کیے جاتے ہیں، انہی میں ایک حربہ بینکوں کے کریڈٹ کارڈ کا بھی ہے۔ اس بارے میں 19 مئی کے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کی ایک خبر ملاحظہ ہو:
”امریکہ میں کریڈٹ کارڈز سے بلاوجہ کی خریداری ایک سنگین مسئلے کا روپ دھار چکی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ہر سال 20 ملین سے زائد لوگ شاپنگ کرتے ہیں اور اس بات سے قطعی بے خبر رہتے ہیں کہ انہوں نے کتنا پیسہ خرچ کر ڈالا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی جاری کردہ سروے رپورٹ کے مطابق اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر اورین کوان کا کہنا ہے کہ بلاوجہ شاپنگ کرنے والوں میں 90فیصد عورتیں ہوتی ہیں۔ یہ ایک طرح کی بیماری ہے جس کا بآسانی علاج ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر اورین کو بلاوجہ خریداری میں مبتلا ایک خاتون نے بتایا کہ دس سال سے خود کو بلاوجہ خریداری سے روک نہیں سکی۔ اکثر اوقات غیر ضروری خریداری کرنے لگتی ہوں تو مجھے قطعی محسوس نہیں ہوتا کہ میں نے کیا خریدا۔ ڈاکٹر اورین کے مطابق بلاوجہ خریداری ایک طرح کی نفسیاتی بے قاعدگی ہے۔ یعنی کسی بھی فرد کے اندر عام زندگی میں طبیعت میں بے چینی یا معمول کے خلاف ایسے افعال جن کو عام طور پر وہ کرنے سے کتراتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اینٹی ڈپریشن تھراپی یا ادویہ سے آئوٹ آف کنٹرول شاپنگ کے رجحان سے بچایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر لوگوں کو آئوٹ آف کنٹرول شاپنگ کے مضر اثرات کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب اُن پر ہزاروں ڈالر کا قرضہ چڑھ جاتا ہے۔ مستقل خریداری کرنے والوں پر کیے گئے سروے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ کے طول و عرض میں دو کروڑ کے لگ بھگ افراد بلاوجہ خریداری کرتے ہیں۔ تیس سے چالیس سال کی عمر کی عورتیں اور بلاوجہ خریداری کی لعنت میں مبتلا لوگ اپنی بربادی اور تباہی کا ذمہ دار کریڈٹ کارڈ کمپنیوں کو قرار دیتے ہوئے کمپنیوں کے خلاف دعوے دائر کررہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حالیہ دنوں میں مختلف کریڈٹ کارڈ کمپنیوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات دائر کیے جاچکے ہیں۔ اس قسم کے تمام مقدمات میں صرف ایک ہی مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ کریڈٹ کارڈ کمپنیوں کی وجہ سے بے جا خریداری کی جانب مائل ہوکر اپنی جمع پونجی، حتیٰ کہ ملازمتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اسراف کے اس کلچر نے مغربی معاشرے میں جو صورتِ حال پیدا کی ہے اس نے انسانوں سے گھر کی راحت چھین لی ہے، اب رشتے بے معنی ہوگئے ہیں، اور سب سے محترم رشتہ جو ماں کا ہے اُس کی بھی وقعت نہیں رہی۔“
اس سلسلے میں 19 مئی کے ’’نوائے وقت‘‘ میں اسرار احمد کسانہ کا ایک مضمون آیا ہے، اس کے کچھ اقباسات ملاحظہ ہوں۔ یہ مضمون امریکہ میں یو مِ ماں منانے کے موقع پر لکھا گیا ہے۔ مضمون نگار ”پارٹ ٹائم ماں“ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
”روایتی طور پر اس دن تمام امریکی اپنی مائوں کے پاس جاتے ہیں اور انہیں تحائف دیتے ہیں۔ اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق ہر شخص اپنی ماں کو خوشیاں دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ اس کے احسان کا شکر گزار ثابت ہوسکے جو ہر ماں اپنے بچے کی پیدائش سے لے کر اُس کے جوان ہونے تک اُس پر کرتی ہے۔ اکثر لوگ اپنی مائوں کے پاس دن کے آغاز میں ہی پہنچ جاتے ہیں اور شام میں انہیں کسی ریسٹورنٹ وغیرہ میں کھانا کھلا کر واپس ان کے گھر چھوڑ جاتے ہیں، اور یوں اس دن کا عمومی طور پر اختتام ہوتا ہے۔ مائیں بھی اس دن کا سال بھر انتظار کرتی رہتی ہیں کہ ان کے جگر گوشے انہیں ملنے کے لیے ایک دن ضرور آئیں گے، اور بالآخر جب وہ دن آتا ہے تو وہ ابھی اپنے بچوں کو جی بھر کر دیکھ نہیں پاتیں کہ دن کا سورج ڈھل جاتا ہے اور ان کی خوشیوں، امیدوں اور چاہتوں کو رات کا اندھیرا اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ جوں جوں رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جاتا ہے ماں کی بے چینی اور اضطراب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے، اور اس کو خیال آتا ہے کہ اب اسے اپنے جگر گوشے کو دیکھنے کے لیے مزید 365 دن انتظار کرنا پڑے گا، اور یہ بھی کیا معلوم کہ وہ اگلے سال تک زندہ بھی رہے گی یا نہیں۔
بیاسی سالہ مسز البرٹ کو گزشتہ اتوار میں نے اپنی تمام نقاہت اور بے بسی کے باوجود چند تھیلے اٹھائے ہوئے دیکھا تو فوراً اُن کی جانب لپکتے ہوئے پوچھا کہ اتنا وزن کیوں اٹھا رہی ہیں؟ کہنے لگیں کہ تمہیں معلوم ہے ناں کہ آج مدرز ڈے ہے اور میرے دونوں بیٹے فلوریڈا سے اور بیٹی نیو جرسی سے آرہے ہیں۔ میں ان کی خاطر تواضع کے لیے کچھ چیزیں لے کر آئی ہوں، مجھ سے چلا تو نہیں جارہا تھا مگر بچے بھی تو پورے سال کے بعد آرہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ تمہارا دل نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے پاس رہیں یا تمہیں اپنے پاس بلالیں؟ تو کہنے لگیں کہ ہاں چاہتا تو ہے مگر ایسا ہوگا نہیں، بلکہ اب جس چیز سے مجھے خوف آرہا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مجھے کہا ہے کہ اِس سال جب وہ آئیں گے تو مجھے کسی اولڈ ایج ہوم میں داخل کرا دیں گے کیونکہ اب میں زیادہ دیر اکیلے اپنے گھر میں نہیں رہ سکتی۔ مسز البرٹ نے کمر جھکائے ہوئے اپنی گردن موڑتے ہوئے مجھ سے کہاکہ تم بھی تھوڑے وقت کے لیے آکر میرے بچوں سے مل لینا۔ ٹھیک ہے مسز البرٹ۔ میں نے کہا۔
تین چار گھنٹے کے بعد میں اُن کے گھر دوبارہ گیا تو میری مسز البرٹ کے بچوں سے ملاقات ہوئی، جو اپنی اپنی جگہ پر خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے اُن کے بڑے بیٹے جان سے کہہ ہی ڈالا کہ عمر کے اس موڑ پر تمہاری ماں کو اب تم سب کی بہت ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو کہ ہمارے کلچر میں بوڑھے ماں باپ کو اس طرح اکیلا چھوڑنا ایک جرم کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور بزرگوں کی خدمت کرکے جنت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک لمحہ توقف کیے بغیر جان نے مجھے جھٹ سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، شاید تمہارے کلچر میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ ہمیں جب توجہ کی ضرورت ہوتی ہے تو ڈے کیئر، بے بی سینٹرز (آیا) یا آفٹر اسکولوں کے دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنے والدین کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی محنت کے بل بوتے پر ہوں۔ مجھے جب ماں کی ممتا کی ضرورت تھی تو میری ماں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رنگ رلیوں میں گم تھی اور اپنی زندگی انجوائے کررہی تھی۔ اب ہمارا وقت ہے۔ ہمارے لیے اتنا بھی بہت ہے کہ مل لیں۔ ایک دن ہم اپنی جاب چھوڑ کر ہزاروں میل کے فاصلے سے ماں کو ملنے آگئے ہیں۔“
خاندان اور گھرانے کی اقدار کی یہ تباہی نظام سرمایہ داری نے اسراف کے کلچر کے ذریعے ہی پیدا کی ہے۔ اس تہذیب میں اصل حیثیت اپنی مادی اور نفسانی خواہشات کو حاصل ہے، اور خواہشات کی تکمیل کے لیے اندھا دھند دوڑ نے سارے رشتوں کو بے معنی بنادیا ہے، حتیٰ کہ ماں کا رشتہ بھی بے معنی ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی عام زندگی میں اسراف کے کلچر کا غلبہ ہوگیا ہے، اور خاص طور پر شادی بیاہ ،بلکہ خوشی کے ساتھ ساتھ غم کے مواقع پر بھی بے جا اخراجات کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔ حضور رسالت مآبؐ نے فرمایا ہے: ’’بڑی برکت والا نکاح وہ ہے جس میں بہت کم خرچ ہو‘‘۔ اور آپؐ نے فرمایا ’’یاد رکھو، قیامت کے دن ہر عمارت اس کے مالک کے لیے وبال ہوگی سوائے اس کے کہ جو بقدرِ حاجت اور ضرورت ہو‘‘۔ اس ضرورت میں یقیناً آرائشی ضروریات بھی شامل ہیں، مگر ان سب چیزوں کی ایک حد ہونی چاہیے، ورنہ اسراف کی تہذیب کے جو نتائج مغربی معاشرے میں ہیں وہ ہمارے معاشرے پر بھی حاوی ہوجائیں گے۔