مریم نواز کی سیاسی مزاحمت

کیا مریم نواز پاکستانی سیاست میں اپنے والد میاں نوازشریف کی قیادت کا خلا پُر کرسکیں گی؟۔

کیا مریم نواز پاکستانی سیاست میں اپنے والد میاں نوازشریف کی قیادت کا خلا پُر کرسکیں گی؟کیونکہ نوازشریف بھی جانتے ہیں کہ اب اُن کے لیے عملی طور پر سیاست کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اسی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ ان کی جگہ مریم نواز مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی سنبھالیں اور مزاحمتی سیاست کرکے خود ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اب عملی طور پر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر مریم نواز کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے۔ شہبازشریف اگرچہ نوازشریف کی عدم موجودگی میں پارٹی کے صدر ہیں، مگر معاملات عملاً نوازشریف اور مریم نواز کے کنٹرول میں ہیں۔ شہبازشریف کو مفاہمتی سیاست کا جادوگر سمجھا جاتا ہے، مگر تاحال ان کا سیاسی جادو نوازشریف اور مریم نواز کو کوئی بڑا سیاسی ریلیف نہیں دے سکا۔ نوازشریف کی مشکلات کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ وہ قانونی اور سیاسی دونوں محاذوں پر سیاسی تنہائی کا شکار ہیں، اور ان کی اپنی جماعت ان کی رہائی کے لیے کوئی بڑی سیاسی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز میں مایوسی کی کیفیت ہے، اور اس مایوسی کا ایک بڑا نتیجہ غصے اور نفرت، یا مزاحمت کی سیاست کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس عمل کو لوگ دو طریقوں سے دیکھ رہے ہیں۔ (1) وہ مایوسی کا شکار ہیں، اور (2) وہ مزاحمتی سیاست کرکے یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ مستقبل کی سیاست ان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
مریم نواز کی آخری پریس کانفرنس جس میں اُن کی جانب سے ویڈیو جاری کی گئی ہے، ایک دلچسپ کہانی ہے۔ کیونکہ یہ پریس کانفرنس انہوں نے پارٹی صدر شہبازشریف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور احسن اقبال کے درمیان بیٹھ کر کی ہے، اور تاثر دیا ہے کہ وہی پارٹی کی حقیقی جانشین ہیں، اور نوازشریف کی ان کو پوری حمایت حاصل ہے۔ یہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ پارٹی صدر سمیت بڑے راہنمائوں کی موجودگی میں پارٹی کی ایک نائب صدر خود پریس کانفرنس کی قیادت کرے، اور وہ سب کچھ بولے جو وہ بولنا چاہتی ہے۔ یہ بھی سب نے دیکھا کہ پریس کانفرنس کے دوران ایک چٹ مریم نواز کو شہبازشریف کی طرف سے دی گئی، لیکن انہوں نے پڑھے بغیر اسے اپنے سے دور کردیا، اورشہبازشریف سمیت پریس کانفرنس میں بیٹھے دیگر راہنمائوں کی باڈی لینگویج ظاہر کرتی تھی کہ وہ بہت زیادہ آسانی محسوس نہیں کررہے۔ اس وقت ویڈیوکا معاملہ بھی عدالتی محاذ پر ایک دلچسپ صورت اختیارکرگیا ہے، اور جج ارشد ملک کی جانب سے تحریری طور پر لکھے گئے جواب پر معاملہ اب عدالت کو طے کرنا ہے۔ جس انداز سے عدالت نے اس معاملے کی ابتدائی تحقیقات کی ہیں اُس سے خود مسلم لیگ (ن) پر بھی دبائو بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ویڈیو کے معاملے میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کا رویہ جارحانہ نہیں ہے، اور بظاہر خاموشی ہے۔ کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اگر اس معاملے میں شدت پیدا کی گئی تو ان کے لیے بھی قانونی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
یہ خبر بھی موجود ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک دھڑے نے شہبازشریف سے ملاقات کرکے اُن کو مشورہ دیا ہے کہ پارٹی کو بند گلی میں نہ لے جایا جائے وگرنہ پارٹی کے معاملات اور زیادہ خراب ہوں گے جس کا نتیجہ پارٹی میں ایک بڑی تقسیم کی صورت میں سامنے آئے گا جو پارٹی کے لیے خطرناک ہوگا۔
مریم نواز کے سامنے بنیادی طور پر چار بڑے چیلنج ہیں:
(1) وہ ہر صورت اپنے والد کی رہائی اور ان کو علاج کی غرض سے ملک سے باہر لے جانا چاہتی ہیں، اور اس کا اظہار وہ اور ان کی جماعت ایک سے زیادہ بار برملا کرچکے ہیں کہ نوازشریف کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔
(2) وہ سیاسی محاذ پر خود کو اپنے والد کے متبادل کے طور پر پیش کرچکی ہیں اور چاہتی ہیں کہ پارٹی ان کو اپنا متبادل قائد تسلیم کرے۔
(3) وہ پارٹی پر اپنا سیاسی کنٹرول بڑھانا چاہتی ہیں، اور اس کی وجہ صاف ہے کہ وہ سمجھتی ہیں ان کے مقابلے میں شہبازشریف بھی پارٹی پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں، اور وہ شہبازشریف اور حمزہ شہباز کا بالادست کردار دیکھنے کی خواہش مند نہیں۔
(4) وہ جانتی ہیں کہ قانونی محاذ پر ان کے لیے نوازشریف کے لیے آسانیاں پیدا کرنا آسان کام نہیں ہوگا، اور وہ سمجھتی ہیں کہ پسِ پردہ قوتوں کی مدد سے ہی وہ اپنے والد کے لیے کوئی بڑا ریلیف حاصل کرسکتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کی مزاحمتی سیاست کو سمجھنے کے لیے اس پسِ منظر کو بھی سمجھا جائے کہ ان کی فوری ضرورت اپنے والد کو سیاسی ریلیف دلوانا ہے۔ ماضی میں یہ کام مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ کرچکی ہیں، انہوں نے جنرل پرویزمشرف کے دور میں نوازشریف کو ریلیف دلوانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کلثوم نواز کے کوئی بڑے سیاسی عزائم نہیں تھے، وہ صرف نوازشریف کو مشکل سے نکالنا چاہتی تھیں، جبکہ مریم نواز اپنے والد کو بھی مشکل سے نکالنا چاہتی ہیں اور خود بھی سیاسی عزائم رکھتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف مریم نواز مزاحمتی سیاست کررہی ہیں، تو دوسری طرف وہ اور ان کا خاندان مختلف لوگوں کی مدد سے پسِ پردہ مفاہمت یا ’’کچھ لو اورکچھ دو‘‘ کی بنیاد پر سیاسی ڈیل کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن اس ڈیل میں جو سیاسی پیچیدگیاں ہیں انہوں نے مریم نواز کو مجبور کیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں پر دبائو بڑھانے کے لیے مزاحمتی سیاسی کارڈ کا استعمال کریں۔
مریم نواز کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو مزاحمتی کردار وہ پیش کررہی ہیں اور یہ تاثر دے رہی ہیں کہ وہ کوئی بڑی سیاسی اور جمہوری حکمرانی کی جنگ لڑنا چاہتی ہیں، یہ خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوریت اور جمہوری جدوجہد محض ایک ایسا سیاسی ہتھیار ہے جو اکثر سیاست دان اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت کوئی سیاست جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے نہیں ہورہی، بلکہ ساری لڑائی کا مقصد طاقت ور فریقین کے درمیان سیاسی اختیارات کا حصول ہے، اور اس جنگ میں سوائے عوام کے استحصال کے، کچھ نہیں ہوگا۔ مریم نواز یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ اگر وہ واقعی یہ لڑائی لڑنا چاہتی ہیں تو ان کی جماعت کہاں کھڑی ہے؟ اور اگر وہ سمجھتی ہیں کہ آسانی سے شہبازشریف اور ان کے قریبی ساتھی ان کی مزاحمتی سیاست کے سامنے سرینڈر کردیں گے، تو وہ غلطی پر ہیں۔ مریم نواز جس انداز میں اپنی لڑائی لڑرہی ہیں اور اس لڑائی میں اپنے سیاسی مخالف عمران خان سمیت اداروں کو شامل کررہی ہیں، اس سے ان کی حیثیت اور زیادہ متنازع ہوگی، اور پارٹی میں موجود لوگ اس لڑائی میں کودنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ جو فارورڈ بلاک کی باتیں سامنے آرہی ہیں، اسے بھی اسی مزاحمتی کارڈ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا مجموعی مزاج مزاحمتی سیاست کا نہیں ہے، اور نہ ہی عوامی سطح پر مسلم لیگ(ن) کا ووٹر مزاحمت پر مبنی سیاست کی کوئی بڑی طاقت رکھتا ہے۔
شہبازشریف پہلے بھی کھل کر اپنی سیاست کے لیے سامنے نہیں آئے، اور وہ مفاہمتی انداز میں ہی پارٹی یا خاندان کے اندر موجود تقسیم پر اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کردار نے عملی طور پر پارٹی کو دو مختلف بیانیوں میں تقسیم کردیا ہے، اور اب ایک بیانیہ کی قیادت مریم نواز کے پاس ہے تو دوسرے بیانیہ کی قیادت خود شہبازشریف کررہے ہیں۔ ایک لڑائی مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان بھی ہے۔ دونوں فریق اپنا اپنا سیاسی کنٹرول چاہتے ہیں۔ حمزہ شہباز خود کو پنجاب کی سیاست میں اپنے والد کا متبادل سمجھتے ہیں، اور ان کو لگتا ہے کہ مریم کے سیاسی عزائم ان سے خاصے مختلف ہیں۔ مریم نواز یہ جو سوچ رہی ہیں کہ اگر ان کے والد پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں تو وہ خود کو باآسانی یہاں ان کا متبادل بنا سکتی ہیں، یہ بھی کوئی آسان بات نہیں، کیونکہ مریم نواز کو پہلے پارٹی کے اندر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اور دوسرے ان کے لیے سیاسی اور قانونی مشکلات مزید بڑھیں گی۔ نیب میں ان کی حالیہ طلبی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔
مریم نواز کی ایک خوش فہمی یہ بھی ہے کہ وہ یہ لڑائی پیپلز پارٹی کی مدد سے لڑیں گی۔ حالانکہ پیپلز پارٹی زیادہ سمجھ دار ہے اور وہ سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھتی ہے، اس لیے اپنے کارڈ مریم نواز کی سیاست کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر کھیلے گی۔ پیپلز پارٹی بھی پسِ پردہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کرنا چاہتی ہے، اور اگر کچھ طے ہوا تو مسلم لیگ (ن) اور بالخصوص مریم نواز کو سیاسی تنہائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہ جو احتساب کا سیاسی ریلا ہے اس میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اس عمل کو چلنا ہے اور اس میں بہت سے سیاسی لوگوں کی پکڑ ہونی ہے، اور اس بیچ بچائو کی سیاست میں کوئی بھی بڑی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ مریم نواز بنیادی طور پر جلدی میں ہیں اور سمجھ رہی ہیں کہ ٹکرائو کی سیاست ان کے حق میں ہوگی، حالانکہ ایسا ممکن نہیں۔
یقینی طور پر مریم نواز میں لیڈر بننے کی صلاحیت ہے، لیکن وہ جارحانہ انداز اپناکر خود کو متنازع بناکر ضائع کررہی ہیں، اور اس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک بات طے ہے کہ وہ اب قانونی محاذ پر کوئی لڑائی لڑنے کے لیے تیار نہیں، اور ان کا خیال ہے کہ اس کے بجائے سیاسی میدان میں لڑائی لڑی جائے اور لوگوں کو قائل کیا جائے کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اور مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ قانونی جنگ کے مقابلے میں سیاسی میدان میں ماحول کو گرم کرکے کچھ لو اور کچھ دو کی سیاست کرنا چاہتی ہیں، تاکہ ان پر اور ان کے والد پر جو مشکلات ہیں انہیں کم کیا جاسکے۔ لیکن کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ مریم نواز اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی سیاست کریں، مگر مریم نواز سمجھتی ہیں کہ ان کو دونوں کردار نبھانے ہیں جن میں مفاہمت اور مزاحمت دونوں طرز کی سیاست ہوگی، اور وہ یہ کارڈ کھیلیں گی تاکہ اپنے لیے سیاست میں نئے راستے کھول سکیں۔ مگر اس محاذ پر وہ کتنا کامیاب ہوتی ہیں اس پر فی الحال سوالیہ نشان ہے، اور اس کا فیصلہ اگلے چند ماہ میں ہوگا کہ مریم اپنی سیاست سے ایسا کیا نیا کرتی ہیں جو ان کی ماضی کی سیاست سے مختلف ہوگا۔