وزیراعظم عمران خان اپنے پہلے دورۂ امریکہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کرچکے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، اور انٹرسروسز انٹیلی جنس چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سمیت اعلیٰ عسکری قیادت بھی وفود کی سطح پر ان کے ساتھ ہے۔ اس ملاقات پر امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’افغانستان سے واپسی کے لیے امریکہ پاکستان کے ساتھ کام کررہا ہے اور وہ خطے میں پولیس مین بننا نہیں چاہتا‘‘۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ پاکستان کے ساتھ ان معاملات پر تعاون مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے کلید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق امریکہ جنوبی ایشیا کو پُرامن علاقہ بنانے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کے لیے پُرعزم ہے اور صدر ٹرمپ نے واضح کردیا ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے خطے کی سیکورٹی بہتر بنانے اور انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں جو ابتدائی اقدامات کیے گئے ہیں صدر ٹرمپ نے ان کی ستائش کی ہے۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے کوششیں کی ہیں اور اس سلسلے میں اس سے مزید کام کرنے کو کہا جائے گا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک مضبوط تعلق کا راستہ افغانستان کے تنازعے کے ایک پُرامن حل کے لیے مشترکہ کوششوں سے گزرتا ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان نے اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن یہ نہایت اہم ہے کہ پاکستان ہمیشہ کے لیے ان تمام گروپوں کے خاتمے کے لیے کارروائی کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم سے گفتگو کے دوران بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکہ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کی حیثیت سے برصغیر میں امن لانے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ثالثی کی پیشکش پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انھوں نے آج تک کسی امریکی صدر سے مسئلہ کشمیرکے حل کی خواہش کا اتنا برملا اظہار نہیں سنا۔ اس سوال پر کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں ماضی میں بھی کئی امریکی صدور تعاون کی پیشکش کے ساتھ ساتھ اس کے حل پر زور دے چکے ہیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوا؟ پاکستانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایک عرصے سے تو کشمیر کا نام تک نہیں لیا جاتا تھا، اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں دوبارہ جان آئی ہے۔ لیکن دوسری طرف بھارت نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کی تردید کردی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے اُن سے کشمیر کے معاملے میں ثالثی کے لیے کہا تھا۔ اور صرف یہی نہیں، بلکہ بھارتی میڈیا اس وقت پوری طرح یہ شور مچا رہا ہے کہ مودی نے یہ بات نہیں کی۔ جب کہ دوسری طرف پاکستان کے حکمران بہت خوش ہیں، جب کہ ابتدا میں عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم ائیرپورٹ پر کوئی پروٹوکول تک امریکی حکام نے نہیں دیا۔ اس دورے کو تحریک انصاف بہت کامیاب قرار دے رہی ہے۔ پاکستان کے معروف صحافی طلعت حسین نے اس دورے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب آپ کے ساتھ امریکی صدارتی دفتر میں مناسب رویہ اختیار نہیں کیا گیا، اور جب آپ جانتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس ملاقات کے لیے آپ نے بہت پاپڑ بیلے ہیں تو ایک سرکاری دورے کو پارٹی افیئر میں تبدیل کرکے آپ توجہ ہٹاتے ہیں‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یوٹرن حیران کن ہے۔ کہاں وہ ہر دو دن بعد پاکستان کے خلاف کچھ نہ کچھ بول رہے تھے اور بھارت کی طرف ان کا پورا جھکائو موجود تھا، ابھی کچھ عرصہ قبل امریکی صدر کا ٹویٹ ایک پالیسی ٹویٹ تھا جو امریکی پالیسی کی تبدیلی اور پاکستان، امریکہ تعلقات کے حوالے سے حیرت انگیز قسم کی تبدیلی کی طرف اشارہ تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی سال کے پہلے ہی روز پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران 33 بلین ڈالر امداد کو حماقت قرار دیا تھا، وہ کہتے تھے کہ امداد کے بدلے میں پاکستان کی جانب سے جھوٹ اور دھوکا ملا، اور انہوں نے پاکستان کو ڈبل گیم کھیلنے والا قراردیا تھا، اور پھر پاکستان کی امداد روکنے کا اعلان بھی سامنے آیا… اور اب پاکستان کے کردار کی اچانک تعریف ہورہی ہے، یہاں تک کہ کشمیر کے معاملے میں بھی انہوں نے ثالث کا کردار ادا کرنے کا اعلان کردیا ہے!
اب سوال یہ ہے کہ عمران خان سے ملاقات بھی ٹرمپ کے اس ڈرامائی اندازِ سفارت کاری کا حصہ ہے جس کے تحت انھوں نے شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا تھا۔ یا اس کے علاوہ کچھ اورہے، جو ابھی سامنے آنا باقی ہے؟ جو لوگ امریکہ کو جانتے ہیں وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ امریکہ ایک گریٹ گیم کے تحت اپنے خاص منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، اور اس سلسلے میں مستقبل میں جو جو رکاوٹیں اور مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں وہ انہیں دور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اُس کے نزدیک یہ ایک بڑی جنگ ہے جو وہ لڑرہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب میں پہلے ہی پینتیس ملکوں کی فوج موجود ہے، سعودی شاہ سلمان نے امریکی فوج سعودی عرب بھیجنے کی اجازت دے دی ہے، جس پر پینٹاگون نے خود بھی کہا ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں ایران کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی کشیدگی کے بعد سعودی عرب میں فوجی اہلکاروں اور وسائل کی تعیناتی کی اجازت دی ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ ایران کو مستقل دھمکیاں دے رہا ہے۔ ٹرمپ ایران کی جانب سے امریکہ کو درپیش خطرات کی نفی کررہے ہیں مگر وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ایران نے حملہ کیا تو اسے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا۔ امریکہ کو اپنی نئی مہم جوئی کے لیے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے، اور اس سلسلے میں اس کو افغانستان میں اپنی شکست کے تاثر کو ختم کرتے ہوئے اپنی فوجوں کو فتح کے شور کے ساتھ نکالنا ہے، یہ ٹرمپ کی سیاسی ضرورت بھی ہے اور امریکی ایجنڈے کا خاص حصہ بھی۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کا معاملہ ہاتھی کے دانت والا ہے۔ یعنی کھانے کے اور، دکھانے کے اور۔ امریکہ ماضی میں بھی ایک دھوکے کا نام تھا اور آج بھی ایک دھوکا ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جس کا پاکستان اتحادی بن کر ہزاروں عام افراد اور اپنے کئی ہزار فوجی قربان کرچکا ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پوری قوم کو بیچ دیا لیکن اس کے نتیجے میں امریکہ نے سوائے نئے مطالبات اور دھمکیوں کے کیا دیا؟ ہماری آزادی اور خودمختاری کا جنازہ نکل گیا اور امریکہ ہمیشہ اس خطے میں بھارت کے ساتھ کھڑا رہا اور اُس کے مفادات کا تحفظ کرتا رہا۔ تو اب امریکہ کے ثالثی کے اعلان پر پاکستان کو شادیانے بجانے چاہئیں، یا مستقبل میں یہ ثالثی جس کی بھارت ابھی نفی کررہا ہے، پاکستان اور کشمیریوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی امریکہ میں پذیرائی ایسا ہی امریکی مصلحتی یوٹرن ہے جیسا عمران خان عمومی طور پر لیتے رہتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے عوام کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے ٹھیک فرمایا ہے کہ ’’ہمیں اب امریکہ کے ڈومور کے کسی مطالبے پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔ امریکہ ہمیشہ اپنی منواتا اور پاکستان پر الزامات لگاتا رہا ہے‘‘۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے لیے نئے خطرات کا آغاز ہے۔
(اے اے سید)