غلَط اور غلْط

گزشتہ دنوں کراچی کی ایک جامعہ میں اردو زبان کے حوالے سے ایک سیمینار ہوا تھا جس میں خاص طور پر ٹی وی چینلوں پر بولی جانے والی غلط زبان پر توجہ دلائی گئی تھی۔ ٹی وی اینکرز غلط بولتے ہیں اور اُن سے سن کر نوجوان بھی غلط بولنے لگے ہیں۔ سردمہری کو سردمُہری (میم پر پیش) کہنا تو اب عام ہی ہوگیا ہے۔ ٹی وی چینل بول کے اینکر، جن کے نام میں اقبال آتا ہے، وہ بھی دھڑلے سے سردمہری پر مُہر لگا رہے تھے۔ لیکن اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو دانشور، تجزیہ نگار قسم کے لوگ ٹی وی پروگراموں میں آتے ہیں وہ بھی غلط سلط بول کر اپنی قابلیت کا پول کھولتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہم لہجے کی بات نہیں کررہے کہ وہ ایک مجبوری ہے، مگر غَلط (غَ۔لط) کو غلْط کہنا تو بالکل ہی غلط ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما علی ظفر تو بیرسٹر ہیں، پڑھے لکھے ہوں گے، مگر وہ بھی غلْط (بروزن رفت، سمت) کہتے رہے، ممکن ہے کہ وہ سَمت کو س۔مت کہتے ہوں۔ وکیل صاحب کو شعر و ادب سے کوئی علاقہ نہیں ہوگا، ورنہ اُن سے پوچھتے کہ وہ اس شعر کو کیسے پڑھیں گے:

ہم ڈھونڈتے رہے کہ جنازہ کدھر گیا
مرنے کی اپنے روز اڑائی خبر غلط

یا یہ مصرع ’’ہاں غلط، بالکل غلط اور کس قدر غلط‘‘۔ علی ظفر یہی سوچ لیتے کہ ظفر اور غلط ہم وزن ہیں۔ اب ایسے دانشوروں سے سن کر ہمارے بچے بھی غلَط کو غلْط کہیں تو ذمے دار کون ہوگا؟ اسی ٹی وی پروگرام میں ایک اور دانشور اور سینیٹر انوارالحق کاکڑ جو خارجہ امور کمیٹی کے رکن بھی ہیں، سرخَیل کو سرخِیل بروزن چیل، جھیل کہہ رہے تھے۔ لیکن شاید وہ دانشور نہیں سیاستدان ہیں۔ وہ کاکڑ ہیں، انہیں خَیل کا مطلب آنا چاہیے۔ خیل (’خ‘ بالفتح) عربی میں بمعنیٰ سواران و اسپان تھا، اور سرخیل کا مطلب ہوا گھڑ سواروں کا سالار۔ یہ وہ جمع ہے جس کا واحد نہیں۔ اہلِ ایران نے خیل بمعنی جماعت و گروہ استعمال کیا۔ اردو میں تذکیر کے ساتھ مستعمل ہے۔
عربی میں ایک لفظ ’’خیلا‘‘ بھی آتا ہے، جس کا کوئی تعلق خیل سے نہیں۔ خیلا بروزن صحرا بمعنی زن مغرور، لغو، بے ہودہ، پھوہڑ، احمق، بے وقوف۔ بچوں کی ایک کہانی ’’ایلا، خیلا‘‘ ہے جو غالباً معروف ناول نگار اے آر خاتون نے لکھی ہے، اس میں دو بہنوں ایلا و خیلا کا ذکر ہے، جو پھوہڑ اور احمق ہیں۔
ایک نوجوان صحافی نے استفسار کیا ہے کہ اگر ’گی‘ ان الفاظ میں آتی ہے جن کے آخر میں ’ہ‘ ہو جیسے سادہ سے سادگی، بے پردہ سے بے پردگی، چنانچہ ہراساں سے ہراسگی غلط ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے احمد فراز کی بہت معروف غزل کی مثال دی ہے کہ احمد فراز نے ’چشمگی‘ استعمال کیا ہے۔ ان کے خیال میں مصرع یہ ہے ’’سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے‘‘۔
احمد فراز اردو سے زیادہ اپنی فارسی دانی پر ناز کرتے تھے اور غالب کی طرح اُن کا بھی یہی خیال تھا کہ اردو خیالات کے اظہار میں تنگ دامانی کا شکار ہے۔ غالب نے کہا تھا کہ ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘۔ لیکن احمد فراز کو جو شہرت ملی وہ اردو کے طفیل ملی۔ انہوں نے ہم سے ایک انٹرویو میں اردو کی کم مائیگی کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم مذکورہ صحافی کو اُن کے مصرعے کے بارے میں سہو ہوا ہے۔ اصل مصرع ہے ’’سنا ہے اس کی سیہ چشمگیں قیامت ہے‘‘۔ یہ چشمگی نہیں۔ ’گیں‘ ایک الگ لفظ ہے جو بطور لاحقہ آتا ہے۔ کسی لفظ کے آخر میں لگنے والے لفظ کو لاحقہ کہتے ہیں اور یہ شاعروں کو لاحق ہوجاتا ہے۔ ایک شعر یاد آگیا:

لاحقہ بن کے تیرا نام
لگ گیا میرے نام کے آگے

عام طور پر برعظیم کی خواتین اپنے نام کے آگے شوہر کا نام لگا لیتی ہیں، لیکن ’’گیں‘‘ کی کچھ وضاحت ہونی چاہیے۔ اردو میں اس کا استعمال عام ہے، مثلاً سرمگیں، اندوہ گیں، غم گیں، خشمگیں وغیرہ۔ ’گیں‘ فارسی کا لفظ ہے جو اسماء کے بعد مرکبات میں آتا ہے اور پُر، بھرا ہوا کے معنی دیتا ہے جیسے غمگیں، سرمگیں (سرمہ گیں) وغیرہ۔ سیہ چشمگیں کا آسان سا مطلب ہے کالی آنکھیں۔ ویسے تو آنکھ کا بڑا حصہ سفید ہوتا ہے، یہاں فراز کا مطلب ہے سرمے سے بھری ہوئی آنکھیں۔ چنانچہ اگلے مصرعے میں سرمہ فروشوں کی توجہ کا ذکر ہے۔
احمد فراز کی مذکورہ غزل کو صدی کی بہترین غزل کہا جاتا ہے، اس میں مبالغہ بھی نہیں۔ اس میں ایک شعر ہے:

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

بہت اچھا شعر ہے، لیکن یہ بات تو احمد فراز کو بھی معلوم ہوگی کہ محاورہ باتوں سے پھول جھڑنا نہیں، منہ سے پھول جھڑنا ہے، اور محاورے پر چھری نہیں چلائی جاسکتی خواہ کتنا ہی بڑا شاعر ہو اور کیسی ہی عمدہ غزل ہو۔ احمد فراز جیسا شاعر ’باتوں‘ کی جگہ منہ سے پھول جھڑوا سکتا تھا، لیکن اس طرح بات کی تکرار کا لطف ختم ہوجاتا۔
ایک اور بہت بڑے اور ہمارے پسندیدہ شاعر جناب مسعود انور ہیں۔ وہ اور ان کی بیگم فارسی کی استاد ہیں۔ ان کے برخوردار عمار مسعود کالم نویس ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ’’لفظ کے غلط تلفظ اور غلط املا پر ڈانٹ پڑتی تھی‘‘۔ پتا نہیں مذکورہ کالم اُن کے والدین نے دیکھا یا نہیں، اور اگر دیکھا ہو توغلط املا اور غلط الفاظ پر ان کو ڈانٹا یا نہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں بہاء الدین کو ’’بہائو الدین‘‘ لکھا ہے۔ عام لوگ تو بہاء الدین اور علاء الدین میں زبردستی وائو ڈال کر ’’بہا۔ والدین۔ اور علا۔والدین‘‘ بنا دیتے ہیں، لیکن ایسے لوگ اردو اور فارسی پر عبور رکھنے والے والدین کی اولاد نہیں ہوتے۔
عمار مسعود نے اپنے کالم میں ایک بڑی دلچسپ اصطلاح استعمال کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے فارسی کی پروفیسر اپنی والدہ کی ڈانٹ ڈپٹ کا اثر ذرا بھی قبول نہیں کیا۔ انہوں نے لکھا ہے ’’سیاست کے بحرِ خارزار میں جو مظالم دیکھے ہیں…‘‘ اُن سے سوال ہے کہ یہ ’’بحرِخارزار‘‘ کیا ہوتا ہے؟ کیا بحر میں کانٹے بھی اُگتے ہیں؟ مذکورہ جملے میں سے اگر ’بحر‘ نکال دیں تو بات بن جائے گی یعنی ’’سیاست کے خارزار میں‘‘۔ ہماری دعا ہے کہ عمار مسعود کی اماں نے یہ کالم نہ پڑھا ہو۔
ائرکنڈیشن کا غلط استعمال اتنا عام ہوگیا ہے کہ لندن میں تعلیم حاصل کرنے والے عمران خان نے بھی واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم مخصوص قیدیوں کا ائرکنڈیشن بند کردیں گے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ’کنڈیشن‘ کیفیت کو کہتے ہیں، اس مشین کو نہیں جو ٹھنڈک دیتی ہے۔ عربی میں اسے ’’مکیّف الہوا‘‘ کہتے ہیں۔ جو چیز بند اور کھولی جاتی ہے وہ ائرکنڈیشنر ہے، نہ کہ ائرکنڈیشن۔ یہ غلطی خبروں میں بھی عام ہورہی ہے، کم از کم صحافی ہی اس کا خیال کریں۔
گزشتہ سے پیوستہ کالم میں ہم نے ’’ترسا‘‘ کا مطلب بتانے کا اعلان کیا تھا۔ مختصر یہ کہ اس کا مطلب ہے ڈرائونا، ڈرانے والا۔ شاعروں نے اپنے محبوب کو بھی ’’بت ترسا‘‘ کہا ہے۔ لوگ محبوبائوں سے ڈرتے ہیں، شادی ہوجائے تو وہ ڈرتی رہتی ہیں۔ ترسا سے ترس کھانا، خدا ترسی مستعمل ہے، یعنی خدا سے ڈرنا جسے تقویٰ کہتے ہیں۔ ترس فارسی کا لفظ ہے اور ترسا اسمِ صفت ہے یعنی ڈرانے والا، وہم کرنے والا۔ ترساں کا مطلب ہے خوف زدہ، ڈرتا ہوا، مثلاً ’’لرزاں و ترساں‘‘۔ ترس ہندی میں پیاس اور آرزو کے معنی میں آتا ہے۔ ناسخ کا مصرع ہے ’’ترس آتا نہیں تجھ کو ہمارا جی ترستا ہے‘‘۔ ترسا ترسا کے دینا، اور ترسا ترسا کے مارنا کا مطلب عوام خوب سمجھتے ہیں۔