کشمیر پر امریکی ثالثی کی پیشکش،احتیاط لازم ہے

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہائوس کے اوول آفس میں تنہائی میں ہونے والی تقریباً ایک گھنٹے کی ملاقات کے دوران دو طرفہ تعلقات میں بہتری، باہمی معاشی و تجارتی روابط کے فروغ، مسئلہ افغانستان کے حل، دہشت گردی کے خاتمے اور امریکہ ایران تنازعے کی سنگینی سمیت متعدد چھوٹے بڑے مسائل پر بات چیت ہوئی، تاہم اس ملاقات میں سب سے اہم پیش رفت یہ بتائی گئی کہ امریکی صدر نے پاکستانی وزیراعظم کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کردی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود مجھ سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا تھا، اگر دونوں ملک راضی ہوں تو اس معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرکے مجھے خوشی ہوگی۔ کشمیر ایک خوبصورت علاقہ ہے، وہاں بم نہیں برسنے چاہئیں۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ بھارت سے آپ کے تعلقات اچھے نہیں۔ ان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ہم کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں، تو کریں گے۔ عمران خان اور میں دونوں نئے لیڈر ہیں، مسئلہ کشمیر پر دونوں لیڈر بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کشمیر اور افغانستان کا مسئلہ حل ہوگا تو پورے خطے میں خوش حالی ہوگی۔پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر صدر ٹرمپ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اُن کی پیشکش کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو خطے کے ایک ارب سے زائد لوگوں کی دعائیں اُن کے ساتھ ہوں گی۔ امریکہ پاکستان اور بھارت کو قریب لا سکتا ہے، ہم بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی امریکی صدر کی اس پیشکش کو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے، اور ہمارے حکمران اس پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، پاکستانی ذرائع ابلا غ اس پر مسرت کے شادیانے بجا رہے ہیں اور ہر طرف سے وزیراعظم کی قصیدہ گوئی میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں۔ یہ طرزِ فکر اس لحاظ سے درست بھی ہے کہ ماضی میں جب بھی کبھی پاکستان نے امریکہ سے کشمیر کے مسئلے میں کوئی کردار ادا کرنے کی بات کی ہے تو امریکہ کی طرف سے اسے پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ قرار دے کر بھارت کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے اسے باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ یوں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی یہ پیشکش یقیناً امریکہ کا اس مسئلے پر ماضی کے مؤقف سے ایک سو اسّی درجے کا انحراف ہے، خصوصاً اس ثالثی کی خواہش کا بار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کندھوں پر ڈالنے سے پاکستان کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حیثیت بہت زیادہ مستحکم ہوگئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کے اس بیان پر بھارت کے ذرائع ابلاغ میں ماتم کی سی کیفیت اور زور شور سے واویلا جاری ہے۔ بھارتی حکومت نے بھی امریکی صدر کے اس بیان کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں جھوٹا ٹھہیرایا ہے… بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس ضمن میں وضاحت کی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرے۔ اس معاملے میں بھارت کا مستقل مؤقف یہی رہا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات اُسی وقت ممکن ہوں گے جب وہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی ختم کرے۔ دو حصوں پر مشتمل وضاحتی ٹویٹ میں بھارتی ترجمان نے اپنا روایتی مؤقف دہرایا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات دو طرفہ نوعیت کے ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیے شملہ معاہدہ اور اعلانِ لاہور موجود ہیں۔
امن بلاشبہ بہت اچھی چیز بلکہ ایک نعمت ہے جس کا کوئی دوسرا متبادل موجود ہے اور نہ اس سے انکار ممکن ہے۔ اسلام جو پاکستان کی اساس ہے، اس کا مطلب ہی سراسر امن و سلامتی ہے۔ اس لیے کوئی ذی ہوش انسان خصوصاً مسلمان اور پاکستانی امن کی جانب لے جانے والی کسی شاہراہ پر گامزن ہونے سے انکار نہیں کرسکتا… چنانچہ مسائل اور تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنا پاکستان کی مستقل پالیسی ہے، اور اب بھی اسی لیے امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے، حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمہ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی نے بھی دورۂ امریکہ میں نہتے کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانے پر وزیراعظم عمران خان کی ستائش کی ہے اور امریکہ کے کشمیر کی آزادی سے متعلق کردار ادا کرنے کی حمایت کی ہے۔
چانکیہ کی سوچ کے حامل بھارتی حکمران بھی ضرور یہ چاہتے ہوں گے کہ مسئلہ کشمیر سے کسی طرح جان چھڑائی جائے، کیونکہ کشمیر کی موجودہ صورت حال سے کشمیری مسلمانوں کے بعد سب سے زیادہ تنگ اور پریشان خود بھارت ہی ہے جو کشمیر پر اپنا جابرانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کم و بیش سات لاکھ مسلح فوجی اس خطے میں مسلسل جنگ کی حالت میں رکھنے پر مجبور ہے، جنہیں ایک جانب کشمیری عوام کی شدید نفرت کا سامنا ہے تو دوسری جانب کشمیر میں ظلم و استبداد اور انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی رائے عامہ کی سخت تنقید اور اقوام عالم میں بدنامی کا بھی سامنا ہے۔ اس لیے یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ بھارتی وزیراعظم نے واقعی امریکی صدر سے اس معاملے کے حل اور ثالثی کی درخواست کی ہو، مگر امریکی صدر نے کہ منہ پھٹ مشہور ہیں، غلطی یہ کی کہ بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی، اور یوں بھارتی حکمرانوں کی شاطرانہ چال طشت ازبام ہوگئی جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے، اور اس سے جان چھڑانے کے لیے اُن کے پاس امریکی صدر کی بات کی تردید کے سوا اور کون سا راستہ رہ جاتا ہے…؟ عین ممکن ہے کہ کسی مرحلے پر بھارتی حکمران نہ نہ کرتے ہاں کردیں۔
آخر میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ مسئلہ کشمیر پر امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش پر جشن مناتے اور بغلیں بجاتے ہوئے ہمیں تاریخ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، اور اس جانب کوئی قدم اٹھانے سے پہلے مسئلہ فلسطین کے پس منظر اور ماضی و حال پر ایک نظر ضرور ڈال لینی چاہیے کہ کس طرح پہلے فلسطین کی سرزمین پر پوری دنیا سے یہودیوں کو لاکر بسایا گیا ۔ پھر 1949ء، 1967ء اور 1973ء کی جنگوں میں اسرائیل کی ہر طرح سے سرپرستی کرکے اس سے باقی ماندہ فلسطین، بیت المقدس، اردن اور شام وغیرہ کے علاقوں پر قبضہ کروایا گیا، اور پھر 1993ء میں امن کے نام پر ’’معاہدۂ اوسلو‘‘ کی دستاویز کو فلسطینیوں کو قبول کرنے پر مجبور کیا گیا، مگر اب اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے پہلے صدر ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کرکے اس پر اسرائیلی قبضے کی توثیق کی، اور اب ایک بار پھر ’’امن‘‘ ہی کے نام پر ٹرمپ کے داماد خطے میں ’’صدی کے سب سے بڑے سودے یا معاہدے‘‘ (Deal of the century) کو ہضم کروانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہمیں مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی پر کسی بھی پیش رفت سے قبل سو بار سوچنا ہو گا… کہیں ہم بھی ’’ثالثی‘‘کے نام پر فلسطین جیسی صورتِ حال سے دوچار نہ کردیئے جائیں اور ’’امریکی ثالثی‘‘ ہمارے لیے ایسی چھچھوندر نہ بن جائے جسے ہم نگل سکیں اور نہ اگل سکیں… لہٰذا احتیاط … پھر احتیاط… اور بہت زیادہ احتیاط لازم ہے۔