راولپنڈی میں جماعت اسلامی کا عوامی مارچ
تحریک انصاف کو حکومت میں آئے اب گیارہ ماہ مکمل ہوچکے ہیں، ان گیارہ ماہ میں حکومت نے وہ تمام اقدامات کیے جن سے اپوزیشن کو عوام کے پاس جانے کا موقع ملا۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں اپوزیشن ہی ہے جو حکومت کو جمہوری قاعدے کے مطابق گرانے اور خود اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں رہتی ہے، لہٰذا پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی اپنی سعی کررہی ہیں۔ چند سیاسی جماعتیں اس وقت کُل جماعتی کانفرنس کے پلیٹ فارم پر ہیں، لیکن جماعت اسلامی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنے سیاسی پروگرام اور تشخص کے ساتھ عوام میں رہنا چاہتی ہے۔ راولپنڈی میں عوامی مارچ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ یہ مارچ شہر کی تاریخ کا ایک بڑا عوامی مظاہرہ تھا۔ عوامی مارچ سے راولپنڈی کے امیر عارف شیرازی، نائب امیر میاں اسلم، اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا، نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی، عزیز حامد، راجا جواد، امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم، جے آئی یوتھ کے صدر زبیر گوندل اورعتیق عباسی نے بھی خطاب کیا۔
عوامی مارچ کے ذریعے جماعت اسلامی نے اہلِ راولپنڈی کو پیغام دیا کہ وہ اس شہر کے باسیوں کے دکھ درد میں شریک ہے اور شہر کے سیاسی، سماجی، معاشی مسائل کو بھی سمجھتی ہے۔ راولپنڈی پاکستان کا ایک غیر معمولی شہر ہے، یہاں کا موسم اگرچہ اعتبار کے قابل نہیں، لیکن یہاں کے باسی اپنی پہچان ضرور رکھتے ہیں۔ یہ شہر جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی کا بھی استقبال کرتا رہا ہے۔ اسی شہر کی مری روڈ پر پولیس کے لاٹھی چارج سے قاضی حسین احمد کا بھی لہو بہا ہے، اسی مری روڈ پر جماعت اسلامی نے کرپٹ حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلائی۔ راولپنڈی کی دھرتی نے 19 جولائی 2019ء کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جانشین سینیٹر سراج الحق کا تاریخی، شان دار اور والہانہ استقبال کیا۔ حقیقی معنوں میں یہ شہر جماعت اسلامی کا شہر ہے، مگر مقامی مفاد پرست سیاسی رہنمائوں نے کھوکھلے نعروں سے یہاں کے معصوم شہریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے عوامی مارچ میں سب سے بڑا سوال یہ اٹھایا کہ وزیراعظم عمران خان بتائیں کہ آئی ایم ایف معاہدے کے ذریعے ملک میں مہنگائی پیدا کرنے کے بعد اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ بھی سوال اٹھایا کہ ایمنسٹی اسکیم میں کس کس کو تحفظ دیا گیا؟ یہی حساب لینے کے لیے 25 اگست کو پشاور میں عوامی مارچ کرنے کا اعلان کیا گیا۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں عوامی مارچ میں شرکت کے لیے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہری، بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ فوارہ چوک میں جلسہ ہوا، اور اسی جلسے میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ ملک میں قادیانیوں کو کھلی چھوٹ کیوں دی جارہی ہے؟ سرگودھا کا ایک شہری پاکستانی جیل سے آزاد ہوکر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک جاپہنچا، قانون کے برعکس اقدام کرکے اس کی رہائی کا ذمہ دار کون ہے؟ ان دو سوالوں کے بعد شرکاء سے ریفرنڈم کرایا گیا اور ان کی رائے لی گئی کہ بتائیں یہ حکومت الیکٹڈ ہے یا سلیکٹڈ؟ عوام کا جواب وہی تھا جس لفظ پر اب اسپیکر قومی اسمبلی نے پابندی لگا رکھی ہے، بلکہ شرکاء غصے میں تھے کہ تبدیلی کا نعرہ دے کر عمران خان اور تحریک انصاف نے سب سے بڑا دھوکا نوجوانوں کو دیا ہے، اور عمران خان نے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھا دیا ہے، حتیٰ کہ اب مرنے اور دفن کیے جانے پر بھی ٹیکس نافذ ہوگیا ہے، گویا عوام کا خون نچوڑنے کے لیے بین الاقوامی ڈاکو لاکر بٹھا دیے ہیں۔
سینیٹر سراج الحق نے اپنے خطاب میں مسلسل سوال اٹھائے کہ وزیراعظم قوم کو بتائیں کہ دورۂ امریکہ میں وہ افغانستان سے امریکی افواج کی بحفاظت واپسی چاہیں گے یا امریکہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی دلائیں گے؟ تین پاکستانیوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس پورے پروٹوکول کے ساتھ امریکہ جاسکتا ہے تو ایک معصوم حافظِ قرآن بیٹی واپس پاکستان کیوں نہیں آسکتی؟ ٹرمپ کے ساتھ قادیانی مبلغ کی ملاقات حادثاتی نہیں، اس کے پیچھے پاکستان کے خلاف گہری سازش ہے۔ پاکستان میں قادیانیوں کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ماحول بنایا جارہا ہے۔ حکومت لوگوں کے دینی جذبات اورشعائرِ اسلام سے کھیلنا بند کرے، غریب عوام گھروں سے نکل آئے تو حکمرانوں کو ایوانوں میں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ حکمران تعلیم، صحت اور تحقیق کے ادارے بنانے کے بجائے سنیما گھر بنانے کے لیے فکرمند ہیں۔ موجودہ حکومت میں پرویزمشرف اور سابقہ حکومتوں کے لوگ ہیں۔ حکومت ’اسٹیٹس کو‘ ختم کرنے کے بجائے اس کے تحفظ میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت کو لانے اور سپورٹ کرنے والے سب پریشان ہیں، ان کی توقعات اور امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔ حکومت ایک سال گزرنے کے باوجود اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔
سینیٹر سراج الحق کا خطاب جارحانہ تھا۔انہوں نے بروقت اور برملا کہا کہ یہ جھوٹے لوگوں کی حکومت ہے جو عوام سے مسلسل جھوٹ بول رہی ہے، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ چکا ہے، وزیراعظم خود کہتے رہے ہیں کہ اگر ٹیکس بڑھے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ حکمران چور ہے۔ آج عوام ٹیکسوں کے کوہ ہمالیہ اور مہنگائی کے پہاڑ کے نیچے دب چکے ہیں۔ حکومت ڈھنڈورا پیٹتی ہے کہ عوام ٹیکس چور ہیں۔ عوام نہیں حکمران چور ہیں جو عوام کا خون نچوڑ کر آئی ایم ایف کے مطالبے پورے کررہے ہیں۔ پاکستان کسی ظالم جاگیردار یا کرپٹ سرمایہ دار کا نہیں، 22کروڑ غیرت مند پاکستانیوں کا ملک ہے۔ جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار تو ملک کو لوٹ کر باہر بھاگ جاتے ہیں مگر ہمارا تو جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ پاکستان ہمارے لیے ماں کی گود اور جنت ہے۔ اس لیے پاکستان کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت اسمبلی میں بل لائی ہے کہ اٹھارہ سال سے ایک دن بھی کم عمر والا نوجوان شادی نہیں کرسکتا۔ یہ اقدام اٹھاکر حکومت لوگوں کے دینی جذبات سے کھیل رہی ہے، یہ کھیل حکمرانوں کو بہت مہنگا پڑے گا۔ پاکستان کے عوام مہنگائی، بے روزگاری اور غربت تو برداشت کرسکتے ہیں مگر بے دینی مسلط کرنے کی کوئی سازش برداشت نہیں کریں گے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ معیشت تباہ ہوگئی، اس حکومت نے تعلیم کے دروازے بند کیے، کیوں کے ان کے بچے بیرونی ممالک میں پڑھتے ہیں۔ وزیر تعلیم مدارس سے پہلے اپنے تعلیمی اداروں کی کارکردگی درست کریں۔ میں آئین کے بغیر بات نہیں کرتا، آئین کہتا ہے پاکستان میں اسلامی نظام آئے، سود کا نظام ختم ہوجائے۔ ملک میں قادیانیوں کے لیے ماحول بنانے کی گھنائونی سازش کی جارہی ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ پشاور میں 25 اگست کو مہنگائی کیخلاف جلسہ ہو گا۔