بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف نے پاکستان سے کہا ہے کہ کلبھوشن کی سزائے موت ختم کرو اور اُس تک قونصلر رسائی کو ممکن بنائو۔ یہ ’’انصاف‘‘ نہیں، ’’ظلم‘‘ ہے۔ یہ انصاف پرستی نہیں، ’’بھارت پرستی‘‘ ہے۔
جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ مان کی یہ پیشگوئی دوسو فیصد درست ثابت ہوئی۔ بیسویں صدی دو عالمی جنگوں کی صدی تھی، اور جنگ اپنی اصل میں ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ بیسویں صدی مغربی نوآبادیات کے خاتمے کی صدی تھی، اور نوآبادیات کا خاتمہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ بیسویں صدی میں روس، چین اور ایران میں انقلاب آیا، اور انقلاب ایک سیاسی تصور ہے۔ بلاشبہ اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں مگر بیسویں صدی ابھی تک اکیسویں صدی پر اثرانداز ہے، اس لیے کہ بیسویں صدی کا بین الاقوامی نظام اپنی جگہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف نے بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادو کے مقدمے کا جو فیصلہ دیا ہے وہ اپنی اساس میں ’’قانونی‘‘ نہیں ’’سیاسی فیصلہ‘‘ ہے۔ جو شخص اس بات کا شعور نہیں رکھتا اسے کلبھوشن یادو کے مقدمے کے فیصلے کی الف، ب بھی معلوم نہیں۔ لیکن کلبھوشن کے مقدمے کا فیصلہ ’’سیاسی‘‘ کس طرح ہے؟
پاکستان میں معاملے کی پوری تصویر نہ دیکھنے والے اس بات پر بھنگڑا ڈال رہے ہیں کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف نے بنیادی طور پر بھارت اور ثانوی طور پر پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ اس نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کے مقدمے میں ’’ہندوستان پرستی‘‘ کی انتہا کردی۔ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف اس انتہا کو پار کرنا چاہتی تھی، مگر وہ ایسا کرتی تو اس کی پاکستان دشمنی اور ہندوستان پرستی ہر کس و ناکس پر عیاں ہوجاتی۔ چنانچہ اس نے ایسا فیصلہ دیا جس سے اس پر ’’ہندوستان پرستی‘‘ کا الزام کھلے عام نہ لگے اور اس کی پاکستان دشمنی پر پردہ پڑا رہے۔ لیکن بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کی ہندوستان پرستی کی دلیل کیا ہے؟
اس سلسلے میں تین دلائل تو بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کے ایڈہاک پاکستانی جج تصدق حسین جیلانی نے بیان کردیئے ہیں۔ تصدق حسین جیلانی نے فیصلے پر اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کو بھارت کی درخواست قابلِ سماعت قرار نہیں دینی چاہیے تھی۔ جسٹس تصدق جیلانی نے اصولی بات بیان کردی مگر اس کی تشریح نہیں فرمائی۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف ریاستوں کے درمیان ’’متنازع امور‘‘ پر فیصلہ دیتی ہے، اور کلبھوشن یادو کوئی ’’متنازع مسئلہ‘‘ نہیں تھا۔ وہ اپنے پاسپورٹ کے ساتھ پاکستان میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا اور اس کا جاسوس ہونا ثابت ہوگیا۔ دنیا بھر میں جاسوس پکڑے جاتے ہیں تو ہر ریاست اُن پر اپنے قانون کے مطابق مقدمہ چلاتی ہے۔ امریکہ اور روس نے کئی بار ایک دوسرے کے جاسوس پکڑے اور انہیں اپنے قوانین کے تحت سزا دی۔ امریکہ یا روس، یا دنیا کا کوئی ملک آج تک اپنے جاسوس کی گرفتاری کو بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف میں لے کر نہیں گیا۔ اس لیے کہ یہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کا دائرہ نہیں ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف نے کلبھوشن کے سلسلے میں بھارتی درخواست کو قابلِ سماعت قرار دے کر ’’ہندوستان پرستی‘‘ کا مظاہرہ کیا، اور اس نے اپنے ’’قانونی کردار‘‘ کے بجائے اپنے ’’سیاسی کردار‘‘ کو نمایاں کیا۔
تصدق جیلانی نے دوسری اہم بات یہ کہی کہ ویانا کنونشن کے تحت جاسوس تک قونصلر رسائی نہیں دی جاسکتی، اس لیے کہ ویانا کنونشن کا تعلق جاسوسوں سے ہے ہی نہیں۔ اس کا تعلق سفارتی عملے اور فوجیوں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلبھوشن قونصلر رسائی کا مستحق نہیں۔ مگر بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف نے بھارت پرستی اور پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویانا کنونشن کی انتہائی من مانی تشریح کی ہے۔ تصدق جیلانی نے یہ بات بھی درست کہی ہے کہ بھارت مقدمے میں حقوق کے تصور سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا مرتکب ہوا۔ مگر بھارت نے ایسا اس لیے کیا کہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف نے اُس کی بھرپور مدد کی۔
بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کی ہندوستان پرستی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اُس نے کلبھوشن کی جاسوسی اور دہشت گردی کو بھارت کی ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ سے منسلک کرنے میں رتی برابر بھی دلچسپی نہ لی، حالانکہ کلبھوشن کی گرفتاری کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ بھارت پاکستان میں ریاستی سطح پر دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کی شرمناک اور ہولناک تاریخ ایک ٹھوس مثال کے طور پر موجود ہے۔ بھارت نے 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اندرا گاندھی نے سقوطِ ڈھاکا کے موقع پر کہاکہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا ہے اور (مسلمانوں سے) ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔ نریندر مودی نے کچھ عرصہ پہلے کھل کر کہاکہ وہ بھی بنگالیوں کی تحریکِ آزادی میں رضاکار کے طور پر شریک تھے۔ 1980ء کی دہائی میں جب سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک زوروں پر تھی تو اندرا گاندھی نے پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی اور کہاکہ دیہی سندھ کے لوگوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ بھارت بلوچستان اور کراچی کے حالات کو خراب کرنے میں بھی ملوث ہے، اور اس کا اعتراف خود کلبھوشن کرچکا ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کے لیے کلبھوشن کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے منسلک کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، مگر بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کو کلبھوشن اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا باہمی تعلق نظر آکر ہی نہ دیا۔ ایسا تو نہیں ہے کہ کلبھوشن بھارت کا ’’عام شہری‘‘ ہو اور اُس نے ازخود فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ نام بدل کر پاکستان میں رہے گا اور پاکستان میں دہشت گردی کرے گا، بلکہ وہ اپنے اعترافی بیان کے مطابق انڈین نیوی کا افسر ہے۔ مگر بیچاری بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف اتنی اندھی ہے کہ جو بات ساری دنیا جانتی ہے وہ بات اُسے معلوم ہی نہ ہوسکی۔ سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان کا کوئی جاسوس ہندوستان میں پکڑا جاتا تو کیا بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف اسے ریاست سے منسلک کرکے پاکستان پر ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام نہ لگاتی؟ خدانخواستہ ایسا ہوجاتا تو بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھنگڑا ڈال ڈال کر کہتی: مقدمے کا اصل نکتہ ہی پاکستان کا دہشت گردی میں ملوث ہونا ہے۔ اسی لیے ہم نے یہ عرض کیا ہے کہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کا فیصلہ بنیادی طور پر ’’قانونی‘‘ نہیں، سیاسی ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کی بھارت پرستی کی ایک دلیل یہ ہے کہ اُس نے کلبھوشن کی سرائے موت کو ختم کرنے اور اس کے مقدمے کو سول عدالت میں چلانے پر اصرار کیا ہے۔ کلبھوشن ’’عام شہری‘‘ نہیں ہے۔ وہ ایک فوجی ہے، اور فوجیوں پر مقدمات فوجی عدالتوں میں چلتے ہیں۔ بلاشبہ یورپ کے اکثر ملکوںمیں سزائے موت ختم کردی گئی ہے، مگر امریکہ کی کئی ریاستوں میں آج بھی سزائے موت دی جاتی ہے، چنانچہ اس حوالے سے پاکستان پر دبائو ڈالنا بجائے خود ناانصافی اور بھارت پرستی ہے۔ خود بھارت میں بھی ابھی تک سزائے موت موجود ہے، چنانچہ بھارت اس سلسلے میں کوئی اخلاقی یا قانونی مؤقف اختیار کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کی ہندوستان پرستی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے اسلام آباد میں مصر کے قومی دن کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریب میں مہمانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عالمی عدالتِ (نا) انصاف کا فیصلہ ’’سب کی جیت‘‘ ہے۔ عدالت کھیل کا میدان نہیں کہ دونوں ٹیموں کو مشترکہ طور پر ’’فاتح‘‘ قرار دے دیا جائے۔ اور جس فیصلے میں سب کی ’’فتح‘‘ ہو وہ فیصلہ ’’قانونی‘‘ اور ’’عدالتی‘‘ فیصلہ نہیں، ’’سیاسی فیصلہ‘‘ ہوتا ہے، اور ’’سیاسی فیصلے‘‘ ہمیشہ ’’طاقت ور‘‘ کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیے جاتے ہیں، اور بلاشبہ عالمی عدالتِ (نا) انصاف کا فیصلہ امریکہ کے اتحادی بھارت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کی بھارت پرستی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہاکہ عالمی عدالتِ (نا) انصاف کا فیصلہ ’’سچائی اور انصاف‘‘ کی فتح ہے۔ کلبھوشن کی ’’سچائی‘‘ یہ ہے کہ وہ بھارت کی بحریہ کا افسر ہے، کلبھوشن کی ’’سچائی‘‘ یہ ہے کہ وہ بھارت کا جاسوس ہے، کلبھوشن کی ’’سچائی‘‘ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے، کلبھوشن کی ’’سچائی‘‘ یہ ہے کہ اُس کے پاس سے ’’جعلی پاسپورٹ‘‘ برآمد ہوا ہے، کلبھوشن کی ’’سچائی‘‘ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرا رہا تھا اور اُس نے اپنے اعترافی بیان میں اس جرم کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ کلبھوشن کے مقدمے میں سچائی اور انصاف ’’صرف‘‘ یہ ہے کہ اُسے بھارتی ریاستی دہشت گردی سے منسلک کیا جاتا اور کہا جاتا کہ اسے ہر صورت میں سزائے موت ہونی چاہیے۔ مگر بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف نے سچائی اور انصاف دونوں کا Rape کر ڈالا ہے۔ اس نے پاکستان سے کہا ہے کہ کلبھوشن کی سزائے موت ختم کرو اور اُس تک قونصلر رسائی کو ممکن بنائو۔ یہ ’’انصاف‘‘ نہیں، ’’ظلم‘‘ ہے۔ یہ انصاف پرستی نہیں، ’’بھارت پرستی‘‘ ہے۔
بلاشبہ ہندوستان نے بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف سے کلبھوشن کی رہائی طلب کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بھارت کے حوالے کیا جائے۔ بلاشبہ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف نے بھارت کے ان دونوں مطالبات کو مسترد کردیا۔ مگر یہ تو ’’حکمتِ عملی‘‘ ہے۔ اگر بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کلبھوشن کو رہا کرکے بھارت کے حوالے کرنے کا فیصلہ دے دیتی تو وہ ساری دنیا کے سامنے ننگی ہوجاتی اور اس کی ساکھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہوجاتی۔ اس تناظر میں جو لوگ پاکستان میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلے کی تعریف کررہے ہیں اور اسے پاکستان کی فتح قرار دے رہے ہیں اُن کی عقل، علم، فہم اور تجزیے پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
اللہ کے راز اللہ ہی بہتر جانتا ہے، ورنہ جس دنیا میں امریکہ اور جن خطوں میں ہندوستان اور اسرائیل موجود ہوں اس دنیا اور ان خطوں میں شیطان کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ بدقسمتی سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے تو پورا مغرب اور اُس کے اتحادی ہی شیطان ہیں۔ مغرب کی شیطنت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے جو عالمی نظام دنیا پر مسلط کیا ہوا ہے اس میں نہ کہیں انصاف ہے، نہ کہیں علم ہے، نہ کہیں شعور ہے، نہ کہیں اخلاق ہے، نہ کہیں قانون ہے، نہ کہیں عقل ہے۔ اقوام متحدہ قوموں کے تنازعات اور مسائل حل کرنے کے لیے بنائی گئی ہے، مگر اس کی بنیاد ناانصافی اور ظلم پر رکھی گئی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے دو ایوان ہیں، ایک جنرل اسمبلی اور ایک سلامتی کونسل۔ جنرل اسمبلی ’’تقریری مقابلوں‘‘ کا فورم ہے، یہاں آپ مُکّے لہرا لہرا کر تقریر کرسکتے ہیں اور بس۔ فیصلوں کا فورم سلامتی کونسل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تمام ممالک جنرل اسمبلی کے رکن ہیں، چنانچہ جمہوریت کی بنیاد پر اصل فیصلے جنرل اسمبلی میں ہونے چاہئیں، اور ان فیصلوں کی بنیاد ’’اکثریت‘‘ کو ہونا چاہیے، مگر جنرل اسمبلی نشستند، گفتند و برخواستند کی علامت ہے۔ سلامتی کونسل کہنے کو 15 اراکین پر مشتمل ہے مگر اس کے اصل اراکین صرف پانچ ہیں، کیونکہ انہی پانچ کے پاس ویٹو پاور ہے۔ ویٹو پاور جمہوریت کی ضد ہے، عقل کی ضد ہے، شعور کی ضد ہے۔ مگر اس دنیا کی سیاست ویٹو پاور ہی سے کنٹرول ہورہی ہے۔ سلامتی کونسل میں گزشتہ 60 سال کے دوران امریکہ 70 مرتبہ اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے۔ یہ انصاف کا قتل ہے۔ سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے بھی قراردادیں منظور کی گئی ہیں، مگر سلامتی کونسل امریکہ اور یورپ کے دبائو کی وجہ سے ان قراردادوں کو بھی مؤثر نہیں ہونے دیتی۔
امریکہ اور یورپ نے دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک بنائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے 70 سے زیادہ ممالک کی معیشتیں پوری طرح ان اداروں کی گرفت میں ہیں۔ امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے ہمارے بجٹ، محصولات کے نظام، ہماری آمدنی و خرچ، ہمارے دفاع، ہمارے بجلی اور گیس کے بلوں تک کو کنٹرول کررہا ہے۔ بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف بھی امریکہ کے اثرات سے پاک نہیں۔ اس کا ٹھوس ثبوت بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کا کلبھوشن سے متعلق فیصلہ ہے۔ جیسا کہ ہم عرض کرچکے، یہ بنیادی طور پر سیاسی اور ثانوی طور پر ایک قانونی فیصلہ ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران بھی بھارت کے حوالے سے سیاست، سیاست کھیل رہے ہیں۔ پاک فضائیہ نے 1965ء کی یاد تازہ کرتے ہوئے بھارت کے دو طیارے مار گرائے اور بھارت کے ایک جارح طیارے کے پائلٹ ابھی نندن کو زندہ پکڑلیا گیا۔ بھارت نے اگر خدانخواستہ ہمارا کوئی پائلٹ پکڑلیا ہوتا تو وہ اسے ’’ٹرافی‘‘ میں ڈھال کر پورے ملک میں لیے پھرتا، مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے امریکہ کے دبائو میں آکر ابھی نندن کو فوراً بھارت کے حوالے کردیا۔ اب کلبھوشن کے حوالے سے بھی ملک میں بھارت پرستی شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے کئی ماہرینِ قانون کہہ چکے ہیں کہ ہم عالمی عدالتِ (نا) انصاف کے فیصلے کے پابند نہیں، مگر اُدھر عدالتِ (نا) انصاف نے فیصلہ دیا اور اِدھر ہم نے اعلان کردیا کہ کلبھوشن تک قونصلر رسائی بھی دی جائے گی اور اس کے مقدمے کو سول کورٹ میں بھی چلایا جائے گا۔ یہ سب کرکے پاکستان کا حکمران طبقہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ بڑا ’’قانون پرست‘‘ ہے۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ جتنا قانون پرست ہے وہ ہمیں معلوم ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی تاریخ یہ ہے کہ جو فوجی آمر آیا اُس نے یا تو آئین ہی توڑ دیا یا اسے معطل کردیا۔ جو آمر آیا اُس نے اعلیٰ عدالتوں سے من مانے فیصلے کرائے۔ جو فوجی اور سول آمر آیا اُس نے قانون کو موم کی ناک بنادیا۔ چنانچہ ہمارے حکمران بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کے فیصلے کے آگے سرِ تسلیم خم کررہے ہیں تو اس لیے نہیں کہ وہ قانون کے پاسدار ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ امریکہ اور بھارت کو ایک حد سے زیادہ ناراض نہیں کرنا چاہتے، ورنہ اصولی بات یہ ہے کہ اب تک کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوجانا چاہیے تھا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں درجنوں دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئی ہے اور ان کی رحم کی اپیلیں بھی مسترد کردی گئیں۔ آخر کلبھوشن میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں! بھارت ہمارا آدھا ملک توڑ چکا ہے، اور بچے کھچے کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے، چنانچہ اُس کا رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا دہشت گرد جاسوس کسی رحم کا مستحق نہیں۔ کلبھوشن کو آج نہیں تو کل پھانسی ہی کی سزا ہونی چاہیے۔ اس سے کم جو کچھ ہوگا امریکہ اور بھارت پرستی کا شاخسانہ ہوگا۔