الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا میں ضم ہونے والے 7 قبائلی اضلاع کی 16 صوبائی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں آزاد امیدواروں نے تقریباً40 فیصد شرح کے ساتھ 6، تحریک انصاف نے 25 فیصد ووٹ لے کر 5، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 15 فیصد ووٹوں کی شرح سے 3 نشستوں، جبکہ جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بالترتیب 8 اور 6 فیصد ووٹوں کے ساتھ ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور قومی وطن پارٹی کوئی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پی کے 100 باجوڑ ون سے پی ٹی آئی کے انور زیب خان 12 ہزار 951 ووٹ لے کر کامیاب رہے، جبکہ جماعت اسلامی کے وحید گل 11 ہزار 775 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔ پی کے 101 باجوڑ ٹو سے پی ٹی آئی کے اجمل خان 12 ہزار 194 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ ہارون الرشید 10 ہزار 468 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی کے 102 باجوڑ تھری سے جماعت اسلامی کے سراج الدین خان 19ہزار 88 ووٹ لے کر فاتح قرار پائے، جبکہ پی ٹی آئی کے حمیدالرحمان 13 ہزار 436 ووٹ لے کردوسرے نمبر پر رہے۔ پی کے 103 مہمند ون سے اے این پی کے نثار احمد 11ہزار 247 ووٹ لے کر کامیاب رہے، جبکہ پی ٹی آئی کے رحیم شاہ 9 ہزار669 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی کے 104 مہمند ٹو سے آزاد امیدوار عباس الرحمان 11 ہزار 751 ووٹ لے کر کامیاب رہے، جبکہ جے یو آئی(ف) کے محمد عارف 9 ہزار 801 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی کے 105 خیبر ون سے سابق رکن قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل کے بھتیجے آزاد امیدوار شفیق آفریدی 19 ہزار 733 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ آزاد امیدوار شیرمت خان جنہیں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر علامہ نورالحق قادری پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر امیدوار شاہد شنواری کے مقابلے میں سپورٹ کررہے تھے 10 ہزار 745 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی کے 106 خیبر ٹو سے سابق رکن قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل کے فرزند بلاول آفریدی 12 ہزار 814 ووٹ لے کر فاتح ٹھیرے، جبکہ پی ٹی آئی کے باغی آزاد امیدوار خان شیر آفریدی 6 ہزار 297 ووٹ لے کر دوسرے نمبر آئے۔پی کے 107 خیبرتھری سے آزاد امیدوار شفیق آفریدی 9 ہزار 796 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ آزاد امیدوارسابق وفاقی وزیر حمید اللہ جان آفریدی 8 ہزار 428 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔پی کے 108 کرم ون سے جے یو آئی کے محمد ریاض 11 ہزار 948 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ آزاد امیدوار جمیل خان 11 ہزار517 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔پی کے 109 کرم ٹو سے پی ٹی آئی کے سید اقبال میاں 39 ہزار 536 ووٹ لے کر جیتے، جبکہ دوسرا نمبر آزاد امیدوار عنایت علی کا رہا جنہوں نے 22 ہزار 975 ووٹ حاصل کیے۔پی کے 110 اورکزئی سے آزاد امیدوار سیدغزن غازی جمال 18 ہزار 448 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ پی ٹی آئی کے شعیب حسن 14 ہزار 699 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔پی کے 111 شمالی وزیرستان ون سے پی ٹی آئی کے محمد اقبال 10 ہزار 200 ووٹ لے کر کامیاب رہے، جبکہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سمیع الدین 9 ہزار 228 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔پی کے 112 شمالی وزیرستان ٹوسے آزاد امیدوار میر کلام خان جنہیں پختون تحفظ موومنٹ کی حمایت حاصل تھی 12 ہزار 57 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جبکہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے صدیق اللہ 7 ہزار 978 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی کے 113 جنوبی وزیرستان ون سے جے یو آئی کے حافظ عصام الدین 10 ہزار 356 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ آزاد امیدوار وحید زمان 9 ہزار 679 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔پی کے 114 جنوبی وزیرستان ٹوسے پی ٹی آئی کے نصیر اللہ خان 11 ہزار 114 ووٹ لے کر کامیاب رہے جب کہ آزاد امیدوار محمد عارف 10 ہزار 272 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔پی کے 115 سابق ایف آرزسے جے یو آئی کے محمد شعیب 18102 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ پی ٹی آئی کے عباد الرحمان 17028 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کے مطابق قبائلی اضلاع کے انتخابات میںدو لاکھ سے زائد خواتین نے حقِ رائے دہی استعمال کیا، جبکہ خواتین ووٹوں کی شرح 18.63فیصد رہی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق قبائلی اضلاع کی 15صوبائی نشستوں پر735,920 ووٹ ڈالے گئے جن میں خواتین کی جانب سے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 210,626رہی۔ خواتین کے ووٹ ڈالنے کاسب سے زیادہ تناسب پی کے 109کرم، جبکہ سب سے کم پی کے 112شمالی وزیرستان میں رہا۔قبائلی اضلاع کے حالیہ انتخابات میں مجموعی پول شدہ ووٹوں کا سب سے زیادہ تناسب پی کے 109کرم ٹو میں40.1فیصد، جبکہ سب سے کم 17.4فیصد پی کے107خیبر تھری میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔
خیبر پختون خوا اسمبلی کی16 قبائلی نشستوں پر الیکشن کے بعد اسمبلی میں پارٹی پوزیشن بھی تبدیل ہوگئی ہے۔ پانچ قبائلی نشستوں پرکامیابی کے ساتھ پی ٹی آئی ارکان کی تعداد91 ہوگئی ہے، جبکہ آزاد ارکان کی پی ٹی آئی میں ممکنہ شمولیت سے یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ 115جنرل نشستوں پر پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد70ہوگئی ہے۔ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں بھی16سے 18، جبکہ اقلیتی ارکان کی تعداد بھی 3 ہوجائے گی۔ متحدہ مجلس عمل کے ارکان کی تعداد نئے الیکشن کے تحت14ہوگئی ہے، صوبائی اسمبلی میں جے یو آئی کے پاس مخصوص نشستیں 2 تھیں جو کہ اب 4 ہوجائیں گی۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی صوبائی اسمبلی میں سابقہ پوزیشن برقرار ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کو ایک نشست ملنے کے بعد صوبائی اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد12اور آزاد ارکان کی تعداد صوبائی اسمبلی میں11ہوجائے گی۔ جماعت اسلامی جو 2018ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کا حصہ تھی اور جس کے اس وقت اسمبلی میں دو ارکان ہیں، اس کے ارکان کی تعداد ایک نشست پر کامیابی کے بعد 3 ہوگئی ہے۔ جب کہ قومی وطن پارٹی جو 2018ء کے انتخابات میں بھی کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی تھی، اس کے حصے میں حالیہ انتخابات میں بھی کوئی نشست نہیں آئی، جو اس نوزائیدہ جماعت کے لیے یقیناً ایک بڑا جھٹکا ہے۔
20 جولائی کے قبائلی اضلاع کے انتخابات کے نتائج سے قطع نظر اس بات پر تقریباً تمام حلقوں حتیٰ کہ اپوزیشن جماعتوں میں بھی اتفاق ہے کہ یہ انتخابات ماضی بالخصوص2018ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں بہت حد تک شفاف تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی ساکھ پر ابھی تک کوئی بڑا سوال نہیں اٹھا ہے جو کہ عموماً اس طرح کے مواقع پر اپوزیشن اور خاص کر ہاری ہوئی جماعتوں کی جانب سے ہمارے سیاسی کلچر کے مطابق اٹھایا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ گوکہ پہلے سے یہ چہ میگوئیاں اور افواہیں عام تھیں کہ تحریک انصاف حکومت میں ہونے کا فائدہ اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواران کی کامیابی کی صورت میں اٹھانے کی کوشش کرے گی، لیکن نتائج نے ان خدشات کو کافی حد تک غلط ثابت کردیا ہے۔ البتہ یہاں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ان انتخابات کی شفافیت کے کریڈٹ کا زیادہ حق دار کون ہے؟آیا یہ کریڈٹ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ملنا چاہیے جس نے عام انتخابات کے برعکس نہ صرف سیکورٹی فورسز کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر رکھا، بلکہ اس طرزِعمل کے ذریعے وہ اپنی غیرجانب داری پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے میں بھی کامیاب رہی، یا پھر یہ کریڈٹ پی ٹی آئی حکومت اور الیکشن کمیشن کو جاتا ہے جو اپوزیشن کے ممکنہ دبائو اور الزامات کے خوف کے باعث ان انتخابات کے نتائج پر اثرانداز نہیں ہوئے؟
یہاں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے آخر کب تک آزاد ر ہ سکیںگے؟ خاص کر ایسے حالات میں جب جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جانے والے پی ٹی آئی کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک کی جانب سے قوم کو یہ خوش خبری ایڈوانس میں دی جا چکی ہے کہ آزاد ارکان جلد پی ٹی آئی کا حصہ ہوں گے، اور اس سلسلے کی کڑی کے طور پر صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی تین آزاد ارکان سے ملاقات اور باقی تین ارکان سے فون پر رابطہ بھی کرچکے ہیں۔ دوسری جانب اگر ان علاقوں سے ماضی کے آزاد امیدواروں کی پارلیمانی تاریخ دیکھی جائے تو یہاں سے منتخب ہونے والے زیادہ تر آزاد ارکان ہمیشہ حکومتی کیمپوں میں گئے، یا ہر ضروری موقع پر حکومت کا ہی ساتھ دیا۔ اس لیے اگر ماضی کی بنیاد پر مستقبل کا تجزیہ کیا جائے توآزاد منتخب ہونے والے یہ زیادہ تر ارکان ہمیں مستقبل قریب میں تحریک انصاف کی بینچوں پر بیٹھے مل سکتے ہیں جو ہماری پارلیمانی تاریخ کے تناظر میں اچنبھے کی بات نہیں ہوگی، البتہ ماضی کے برعکس اِس مرتبہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے زیادہ تر ارکان چونکہ پرانے روایتی سیاسی خانوادوں کے چشم وچراغ ہیں، اس لیے وہ ایسا کوئی فیصلہ عجلت میں نہیں بلکہ خوب سمجھ کر کریں گے۔ اس حوالے سے سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سوائے ایک آزاد رکن محمد شفیق آفریدی کے، دیگراکثر ارکان پی ٹی آئی میں شمولیت پر تذبذب کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ضلع خیبر (باڑہ) سے نومنتخب آزاد رکن صوبائی اسمبلی محمد شفیق آفریدی نے وزیر اعلیٰ خیبرپختون خوا محمود خان سے ملاقات کی ہے، جن کو وزیراعلیٰ نے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی، جس پر انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت پر ہامی بھرلی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق شفیق آفریدی کا بنیادی تعلق پی ٹی آئی سے ہی ہے، لیکن ٹکٹ نہ ملنے پر انہوں نے بعض دیگر امیدواران کی طرح آزاد امیدوارکے طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ خیبر سے منتخب دیگر دو ارکان شفیق شیر آفریدی اور بلاول آفریدی نے جو بالترتیب سابق فاٹا سے پارلیمانی پارٹی کے سربراہ الحاج شاہ جی گل آفریدی کے بھتیجے اور فرزند ہیں، پی ٹی آئی میں شمولیت سے انکار کردیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی اور پارٹی کا حصہ بھی نہیں بنیں گے۔ اورکزئی سے کامیاب سید غزن جمال جو سابق وفاقی وزیر سید غازی گلاب جمال کے برخوردار ہیں، کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ ان کی بھی پی ٹی آئی میں شمولیت کے امکانات کم ہیں، البتہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس خاندان کے بہترین تعلقاتِ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہنا یقیناً قبل از وقت ہوگا۔ اسی طرح ضلع مہمند سے کامیاب ہونے والے عباس الرحمان جو موجودہ سینیٹر ہلال الرحمن اور سابق رکن قومی اسمبلی بلال الرحمن کے بھائی ہیں، کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بھی پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت کا حصہ بننے کے بجائے آزاد رکن کی حیثیت کو ترجیح دیں گے، البتہ شمالی وزیرستان سے نومنتخب رکن اسمبلی میر کلام جو بنیادی طور پر پی ٹی ایم کی سپورٹ سے کامیاب ہوئے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کی توجہ سیاسی جماعتوں میں شمولیت پر نہیں بلکہ وہ قبائلی عوام کو درپیش مسائل حل کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ان کا بھی پی ٹی آئی جوائن کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔
دوسری جانب حالیہ انتخابی نتائج تحریک انصاف کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے موروثی سیاست کے علَم برداروں کو نوازنے کے حوالے سے بھی ایک تلخ تجربہ ثابت ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کو ان انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان ضلع خیبر میں ہوا ہے جہاں 2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر اسے کامیابی ملی، جن میں سے ایک ایم این اے نورالحق قادری کو وفاقی وزیر بنایا گیا، لیکن اتنی مستحکم پوزیشن کے باوجود چونکہ ٹکٹوں کی تقسیم میں مخلص اور دیرینہ کارکنوں کو نظرانداز کیا گیا اس لیے اسے یہاں سے تین میں سے ایک بھی نشست نہیں ملی، بلکہ یہاں اس کا کوئی امیدوار دوسرے نمبر پر بھی نہیں آیا۔ ان نتائج کو نوشتۂ دیوار سمجھتے ہوئے اب بھی اگر پی ٹی آئی کی قیادت نے یہاں کے عوام سے کیے ہوئے اپنے وعدوں کو پورا نہ کیا تو آئندہ آنے والے کسی بھی الیکشن کے نتائج اس کے لیے اس سے بھی زیادہ پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔