خلیفہ انوار دکھی انسانیت کے لیے بے لوث خدمت گزار

۔18 جولائی بروز جمعرات بوقت صبح صادق 75 سال کی عمر میں بھرپور زندگی گزار کر میرا یارِ طرح دار (جس سے میرے 55 سال سے بھائیوں جیسے گھر کے فرد کی طرح کے تعلقات تھے) بھائی انوار احمد (المعروف خلیفہ انوار احمد ٹینٹ والے) بھی وہاں چلے گئے جہاں ہم سب ہی کو جلد چلے جانا ہے۔
بھائی انوار احمد اُن خوش نصیب لوگوں میں شامل تھے جن کے پیش نظر ہمہ وقت قبر کی منزل بھی رہی اور وہ اس کی تیاری میں بھی کوشاں رہے۔ رب کریم سے التجا ہے کہ وہ اپنی کریمی سے بھائی انوار احمد کی دکھی انسانیت کی بے لوث، بے غرض خدمات اور دیگر اعمالِ حسنہ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اور ان کی بشری کمزوریوں اور لغزشوں سے صرفِ نظر فرماکر (جس سے کوئی انسان مبرا نہیںہے) انہیں بخش دے، آمین۔
انوار احمد کی رحلت سے پاکستانی معاشرہ ایک اور راست باز، معاملہ فہم، کشادہ ظرف رکھنے والے دیانت دار سماجی رہنما اور پختہ کار سیاسی کارکن سے محروم ہوگیا ہے۔
مرحوم انوار احمد دکھی انسانیت کی خدمت اور وسائل سے محروم خلقِ خدا کے لیے فلاحی کلام ’’دین کا بنیادی تقاضا‘‘ سمجھ کر انجام دیتے تھے۔ اُن کے فلاحی اور سماجی کاموں کا دائرہ بڑا وسیع تھا۔ وہ اپنی برادری جمعیت پنجابی سوداگران دہلی کے زیر انتظام چلنے والے فلاحی منصوبوں میں بھی فعال اور متحرک رہے اور دیگر فلاحی اداروں میں بھی۔ انوار احمد قریباً 30 سال جمعیت پنجابی سوداگران کے سینئر نائب صدر، مجلس منتظمہ کے رکن اور اس کی تعلیمی، اسپتال اور مساجد کمیٹی کے انچارج رہے۔ وہ جماعت اسلامی کراچی کے مرکز ادارہ نورِحق کی منیجنگ کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے اور الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کے کمیونٹی بورڈ کے چیئرمین بھی تھے۔ تاہم وہ کوشش کرتے تھے کہ جماعت میں کسی منصب کے بغیر عام کارکن کے طور پر کام کریں۔ انہوں نے انتخابی سیاست میں آنے سے بھی ہمیشہ گریز کیا۔ مگر جب جماعت اسلامی کے نظم نے انہیں کلفٹن کنٹونمنٹ کا الیکشن لڑنے کا حکم دیا تو انہوں نے کئی بار نظم کے حکم کی اطاعت میں الیکشن لڑا اور ہر بار کامیاب ہوتے رہے۔ (مسلم لیگ (ن) کے موجودہ سینیٹر سلیم ضیاء کو کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا وائس چیئرمین انوار احمد مرحوم کے گروپ نے ہی بنوایا تھا۔)
دہلی کالونی کی شمیم مسجد کی تعمیرِ نو میں ان کے خاندان کا بڑا حصہ ہے۔ ان کے بڑے بھائی محمد احمد (مرحوم) نے اس مسجد کا سنگِ بنیاد امامِ کعبہ شیخ ابن سبیل (مرحوم) سے رکھوایا تھا۔ جب تک وہ حیات رہے، مسجد کی انتظامی کمیٹی کے متولی رہے۔ ان کے انتقال کے بعد بھائی انوار احمد نے یہ ذمے داری آخری دم تک نبھائی۔ ہر سال رمضان المبارک کے 29 ویں روزے کو مسجد کے تمام نمازیوں کے لیے افطار اور کھانے کا انتظام نیشنل ٹینٹ ہائوس کی طرف سے ہوتا ہے۔اس کے علاوہ فاران کلب، پاکستان بزنس فورم، ’’بزم احباب‘‘ اور ایسے دیگر بہت سے اداروںکے عہدے دار بھی رہے۔ ان کی فلاحی سرگرمیوں کا زیادہ محور جماعت اسلامی کا شعبہ خدمتِ خلق رہا، جس کے ساتھ وہ اوائلِ جوانی سے ہی سید مودودیؒ کی فکر سے متاثر ہوکر وابستہ تھے اور آخری سانس تک وابستہ رہے۔ تاہم جماعت اسلامی سے باہر بھی کارِخیر کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرنے میں انہوں نے کبھی تامل نہیں کیا۔ خدا نے انہیں وسیع القلب اور دردمند انسان بنایا تھا جس کی وجہ سے کارِخیر کا کام کرنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے میں کبھی جماعتی وابستگی کو حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔ انہوں نے سید مودودیؒ کا یہ قول اپنے دل و دماغ میں پوری معنویت کے ساتھ نقش کر رکھا تھا کہ ’’خدمت ِخلق کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں، خود مقصد اور دین کا تقاضا ہے اور قربِ الٰہی کا ذریعہ‘‘۔ 2005ء میں کشمیر اور صوبہ خیبر پختون خوا میں زلزلے سے متاثر ہونے والوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے پیرانہ سالی کے باوجود جس طرح انہوں نے کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
زلزلہ زدگان کی آبادکاری میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے فلاحی کام کرنے والے اداروں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق بھرپور حصہ لیا۔ پاکستان میں کام کرنے والے اداروں میں ایک بڑا معتبر نام ’’الخدمت فائونڈیشن‘‘ کا ہے، جس کی سربراہی اُس وقت سٹی گورنمنٹ کراچی کے سابق ناظم محترم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کررہے تھے۔ انوار احمد (مرحوم) الخدمت میں جناب نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی ٹیم کے فعال رکن تھے۔ پاکستان بزنس فورم کے چیئرمین جناب میاں تنویر مگوں اور وائس چیئرمین انوار احمد نے اپنے خاندان کے ذاتی عطیات اور دیگر اہلِ خیر کے فراہم کردہ وسائل سے آزاد کشمیر اور خیبرپختون خوا کے 6 متاثرہ اضلاع میں ٹین کی چادروں اور لکڑی سے تعمیر کردہ 16 ہزار شیلٹر ہوم اور 2,600 کنکریٹ کے پختہ مکان تعمیر کروا کر متاثرین کو آباد کیا۔ اس پراجیکٹ پر پچاس کروڑ سے زیادہ کی لاگت آئی تھی، اس کی نگرانی انوار احمد (مرحوم) نے خود کی۔ کئی برس تک بار بار وہ متاثرہ علاقوں میں جاکر ہفتوں قیام کرتے۔
انوار احمد ایک معاملہ فہم زیرک انسان تھے۔ اللہ نے انہیں لوگوں کو جوڑے رکھنے کی خاص صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ اسی نے ان کے خاندان کو یک جان دو قالب کے مصداق جوڑے رکھا۔ ان کی اس معاملہ فہمی نے برادری اور برادری سے باہر کے بے شمار گھرانوں میں پیدا ہونے والے اختلافات افہام و تفہیم کے ذریعے ختم کراکے ازدواجی رشتوںکو ٹوٹنے سے بچایا۔ انہوں نے ہمیشہ نام و نمود اور صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر رضائے الٰہی کے حصول کے لیے فلاحی کام کیے۔ وہ ایک صاحب الرائے، دوراندیش، معاملات کو گہرائی میں جاکر دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے آدمی تھے، مگر اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنے کے مرض میں کبھی مبتلا نہیں رہے۔ جہاں کسی نے مشورہ طلب کیا، اپنے فہم کے مطابق نپے تلے الفاظ میں مشورہ دے دیا۔ اجتماعی زندگی میں بحث و مباحثہ کے بعد جو اجتماعی فیصلہ ہوا اس کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرلیا۔ وہ جماعت اسلامی کے رکن تو شاید دس، پندرہ سال قبل ہی سید منور حسن صاحب کے اصرار پر بنے تھے، مگر نظمِ جماعت سے تعلق نصف صدی سے زیادہ عرصے سے تھا۔ ان کے جماعت کے دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنی رائے کے برعکس فیصلوں پر بھی نظمِ جماعت کی پابندی خوش دلی اور پوری یکسوئی کے ساتھ کی۔
کم وسائل رکھنے والے خاندانوں اور قرابت داروں کی کفالت کرنا اس گھرانے کا ایسا وصف ہے جس سے ہمارا معاشرہ محروم ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے کم وسائل رکھنے والے رشتے داروں کا جس طرح خیال رکھا اس کی مثال اب خال خال ہی ملتی ہے۔
بھائی انوار احمد 20 مئی 1944ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی محمد احمد عمر میں ان سے کوئی پندرہ، سولہ سال بڑے تھے۔ انوار احمد اپنے بڑے بھائی کا احترام اپنے باپ کی طرح کرتے تھے۔ میں نے انہیں اپنے بڑے بھائی کی ڈانٹ سنتے اس طرح دیکھا ہے جیسے پرانے زمانے میں کوئی فرماں بردار بیٹا باپ کی ڈانٹ سننے کو سعادت سمجھتا تھا، جس کا آج کوئی بیٹا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انوار احمد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میرے بڑے بھائی نے باپ کے انتقال کے بعد میری پرورش اور تربیت باپ جیسی محبت اور شفقت کے ساتھ کی، آج میں جو کچھ ہوں اس میں اللہ کی مدد اور ماں باپ کی دعائوں کے بعد بھائی کا کردار ہے۔
ان کے والد (مرحوم) مولانا حسین احمد مدنیؒ سے بیعت تھے، جبکہ والدہ (مرحومہ) سلفی مسلک کی پیروکار تھیں۔ دہلی میں ان کے بزرگوں کا پہلے صابن کا کاروبار تھا۔ بعدازاں ان کے والد خلیفہ محمد ادریس (صابن والے) نے قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل جرمنی سے براس کی جالی بنانے کا جدید پلانٹ امپورٹ کرکے کارخانہ لگایا تھا۔ اُسی دور میں ایسا ہی ایک جرمن پلانٹ کراچی میں ایک ہندو تاجر نے لگایا تھا۔
قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو ان کے والد نے کراچی کے ہندو تاجر سے کہا کہ وہ دہلی میں ان کا کارخانہ لے لیں اور کراچی کا انہیں دے دیں۔ ہندو تاجر نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا، جس پر بات پکی ہوتے ہی وہ اپنے بچوں کو لے کر کراچی آگئے تھے، مگر بدقسمتی سے ان کے ایک پیر بھائی نے کسی تصدیق کے بغیر یہ بات ان کو کہہ دی کہ میں تو واپس جارہا ہوں کیوں کہ شیخ مولانا حسین احمد مدنیؒ نے کہا ہے کہ پاکستان کے راستے تو حج پر جانا بھی صحیح نہیں ہوگا۔ یہ سنتے ہی ان کے والد بھی واپس دہلی لوٹ گئے۔ واپس جاکر اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ میں واپس آگیا ہوں۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ نے پوچھا: کیوں واپس آئے ہو؟ بتایا: آپ کے حکم کی تعمیل میں۔ تو بقول ان کے بڑے بھائی محمد احمد (مرحوم) کے، جو اپنے والد کے ساتھ مولانا حسین احمد مدنیؒ کے پاس گئے تھے، مولانا مدنیؒ نے تاسف کے ساتھ کہا کہ کس بدبخت نے مجھ سے یہ غلط بات منسوب کی ہے! تمہیں واپس نہیں آنا چاہیے تھا، میرا اختلاف تو پاکستان بنانے پر تھا، جیسے کسی کو مسجد بنانے کی جگہ پر اختلاف ہوتا ہے مگر جب مسجد بن جاتی ہے تو اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ بات سننے کے بعد ان کے والد کو پاکستان سے واپس جانے کا اتنا صدمہ ہوا کہ وہ سکتے کی کیفیت میں چلے گئے اور شدید بیمار پڑ گئے۔ بیماری کے دوران ہی انہوں نے اپنے بچوں کو تاکید کی کہ ’’میں جیسے ہی سفر کے قابل ہوجائوں مجھے فوراً پاکستان لے جانا۔ مجھے وہاں کارخانہ تبادلے میں نہ ملے نہ سہی، میں تو سائیکل کے پنکچر کی دکان کھول کر بھی محنت مزدوری کرلوںگا‘‘۔ والد تو اس قابل نہ ہو سکے کہ وہ پاکستان واپس آپاتے، مگر اُن کی اولاد اپنے والد کی وصیت کے مطابق اُن کے انتقال کے فوراً بعد دہلی میں اپنی ساری جائداد اونے پونے فروخت کرکے 1955ء میں دوبارہ پاکستان آگئی اور دہلی کالونی میں، جو اُس وقت ایک کچی مہاجر بستی تھی، 45-45 گز کے دو پلاٹ خرید کر وہاں رہائش اختیار کرلی، اور 1957ء میں برنس روڈ پر ’’نیشنل ٹینٹ ہائوس‘‘ کے نام سے ڈیکوریشن کی دکان کھول لی۔ ڈیکوریشن کا کام انہوں نے اپنے ایک قریبی عزیز (پنجاب ٹینٹ ہائوس کے مالک) حافظ محمد مرحوم سے سیکھا تھا، ان کی کوششوں سے ہی دکان کھولی، جہاں دونوں بھائیوں نے مزدوروں کی طرح دن رات کام کیا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ کس طرح ’’کرسیاں‘‘ اور ’’خیمے‘‘ اپنی پیٹھ پر لاد کر ٹرک میں رکھتے تھے۔ اللہ نے اُن کی محنت سے اُن کے رزق میں برکت عطا کی اور چند برسوں میں ہی نیشنل ٹینٹ ہائوس کا نام خیمہ سازی کی صنعت میں معتبر بن گیا۔ 1962ء میں انہوں نے ٹینٹ سعودی عرب ایکسپورٹ کرنے شروع کردیے۔ اس سے قبل صرف ایچ نظام الدین اینڈ سنز ہی سعودی عرب خیمے ایکسپورٹ کیا کرتا تھا۔ جلد ہی نیشنل ٹینٹ ہائوس سعودی عرب ’’خیمے‘‘ ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا اور پورے مڈل ایسٹ میں دوسرا بڑا ایکسپورٹر بن گیا۔ 1979ء سے ’’نیشنل ٹینٹ ہائوس‘‘ اقوام متحدہ کے لیے بین الاقوامی معیار کے ٹینٹ سپلائی کرنے والے بڑے ناموں میں شامل ہے۔
اس گھر میں بڑی بڑی سیاسی شخصیات بھی تشریف لاتی رہیں اور بڑے بڑے ادیب و شاعر اور دینی رہنما بھی۔ مولانا مودودیؒ جب بھی کراچی تشریف لاتے اُن کے لیے اکثر نہاری کا اہتمام بھائی انوار ہی کیا کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کے تو تمام ہی مرکزی، صوبائی اور مقامی رہنمائوں کا اس گھر میں آنا جانا معمول ہے، تاہم ان کے بڑے بھائی نے مادرِ ملت فاطمہ جناح (مرحومہ) کی انتخابی مہم میں بھی بھرپور حصہ لیا تھا اور ایوب خان کے آخری دور میں چلنے والی تحریک کی پشتی بانی کرنے والوں میں بھی وہ شامل تھے۔ آغا شورش کاشمیری کراچی جیل سے رہا ہوئے تو ان کے اعزاز میں ایک بڑی ضیافت کا اہتمام اپنے گھر پر کیا۔ اسی طرح نواب زادہ نصراللہ خان جب ایوب حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک میں جلوس کی قیادت کرنے کراچی آئے تو ان کے اعزاز میں بھی بہت بڑی ضیافت کا اہتمام کیا اور انہیں چاندی کا حقہ پیش کیا۔ ماہر القادری (مرحوم)، نعیم صدیقی (مرحوم)، رحمان کیانی (مرحوم)، تابش دہلوی (مرحوم)، سلیم احمد (مرحوم)، پروفیسر عنایت علی خان، اعجاز رحمانی کے ساتھ تو کتنی ہی ادبی نشستیں ان کے گھر رہیں۔
انوار احمد صاحب کو ایک سال قبل جب اپنے گلے میں کینسر کے موذی مرض کا علم ہوا، ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ پندرہ دن بعد علاج شروع ہوگا تو وہ فوراً عمرہ کی ادائیگی کے لیے چلے گئے،اور واپس آکر علاج شروع کرایا۔
چند ماہ قبل ڈاکٹروں نے تمام ٹیسٹوں کے بعد کلیئر کر دیا تھا کہ اب کینسر بالکل ختم ہوگیا ہے، صرف کمزوری باقی ہے جس کے دور ہونے میں وقت لگے لگا۔ انتقال سے تین دن قبل رات کو انہوں نے گلے میں تکلیف محسوس کی۔ صبح ہوتے ہی اسپتال لے جایا گیا مگر افاقہ ہونے کے بجائے طبیعت مزید بگڑ گئی۔ انوار احمد نے شدید بیماری کی حالت میں نماز باجماعت کا اہتمام جاری رکھا۔ جمعہ کی نماز تو وہ لازماً شمیم مسجد میں ادا کرتے تھے۔ اگر طبیعت بہتر رہتی تو نماز ظہر اور نماز عصر موتی مسجد میں جا کر ادا کرتے۔ باقی نمازیں گھر میں باجماعت ادا کرتے۔ جس صبح انتقال ہوا اُس رات نماز عشاء کے بعد بیٹے حافظ سعد انوار کو کہا کہ فجر کی نماز پڑھوا دینا۔ ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ وہ کسی طرح اس قابل ہوجائیں کہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے جا سکیں۔ جس صبح ان کا انتقال ہوا اس سے چند گھنٹے قبل رات ایک بجے کی فلائٹ سے ان کے سب سے بڑے بیٹے صہیب انوار اپنی بہنوں اور ان کے شوہروں کے ساتھ ان سے مل کر حج پر روانہ ہوئے۔ صہیب انوار نے والد کی حالت دیکھی اور سفر کا ارادہ ملتوی کرنے کی کوشش کی، تو انوار احمد نے کہا کہ جائو وہاں دعا کرنا میرے لیے، کیا عجب کہ یہی ایک بات اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو جائے۔
انوار احمد کا جماعت سے باہر بھی بڑا وسیع حلقہ احباب تھا۔ وہ سماجی تعلقات میں کبھی اپنے دینی و سیاسی رجحان کو حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کے کتنے ہی ایسے دوست ہیں جو ان کے سیاسی نظریات اور دینی رجحانات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، مگر ان سے دوستی میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی میل جول میں۔ ایسے دوستوں اور قرابت داروں کی خوشی و غمی کی تقریبات میں وہ اسی اہتمام سے شریک ہوتے تھے جیسے اُن لوگوں کی تقریبات میں جن کے وہ سیاسی ہم سفر تھے۔ یوں تو انوار احمد کو جماعت اسلامی کے پرانے تمام بزرگوں نے متاثر کیا مگر ان کے ذہن پر گہرا نقش جماعت اسلامی کی کرشماتی شخصیت چودھری غلام محمد (مرحوم) کا تھا۔ پروفیسر خورشید احمد، حکیم اقبال حسین (مرحوم)، مولانا جان محمد عباسی (مرحوم)، خرم جاہ مراد (مرحوم)، پروفیسر عبدالغفور احمد (مرحوم)، حافظ اخلاص احمد مرحوم (جن کی وجہ سے وہ جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے تھے) کے علاوہ کراچی میں موجود جماعت کی ساری ہی قیادت سے ان کے قریبی ذاتی مراسم تھے، مگر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اور سید منور حسن سے وہ عشق کی حد تک محبت کرتے تھے۔ بیماری کے دوران بھی ایک بار کہنے لگے: سید صاحب کو کسی دن اپنے گھر بلا لو، میں اس حالت میں بھی ان کی مجلس میں شرکت کے لیے آجائوں گا۔