صوبائی دارالحکومت میں احتجاج کرنے والوں پر ہونے والا تشدد اور حکومتی کارکردگی کے بارے میں اٹھنے والے سوالات!۔
معروف کالم نگار رشید میمن کے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں تحریر کردہ کالم کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے پیش نظرپیش کیا جارہا ہے۔
’’بہترحکمرانی‘‘ کا خواب سندھ کے لیے تاحال خواب ہی نظر آتا ہے۔ حکومتِ سندھ کی انتظامی معاملات میں حالت اتنی خراب کردی گئی ہے کہ جائز مسائل حل کرنے میں بھی مہینے اور سال لگ جاتے ہیں۔ اب تو عوام میں یہ سوچ پختہ ہوچکی ہے کہ اگر جائز مسائل حل کرانے ہیں تو ان کے لیے ہنگامے پر مشتمل احتجاج کرنا ناگزیر ہے۔ اور اس میں سو فیصد حقیقت بھی ہوتی ہے، کیوں کہ حکومت ِ سندھ اکثر معاملات اُسی وقت حل کرتی ہے جب سخت احتجاج ہوتا ہے، دبائو پڑتا ہے، یا پھر کوئی سیاسی سفارش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی سڑکوں پر اکثرو بیشتر احتجاج ہی احتجاج نظر آتا ہے۔ محکمۂ صحت کے نرسنگ اسٹاف کے ملازمین کی طرف سے گزشتہ 11 دن سے پُرامن انداز میں احتجاج کیا گیا، لیکن حکومت نے ان کے مسائل کو حل نہیں کیا، لیکن کل جونہی ان ملازمین نے احتجاج کی شدت کو بڑھاتے ہوئے وزیراعلیٰ ہائوس کی طرف جانے کی کوشش کی، تو پہلے ہی سے وہاں تیار کھڑی پولیس کی بھاری تعداد نے انہیں روکتے ہوئے سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہنگامے اور تشدد پر مبنی صورتِ حال جنم لینے کے بعد حکومتِ سندھ نے ان ملازمین کے ساتھ سنجیدہ قسم کی بات چیت کرکے مسائل کو حل کرنے کا یقین دلایا۔ حکومت ِ سندھ نے یہاں اس بات کو سچ ثابت کردکھایا کہ مسائل اُس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک کہ سخت احتجاج نہیں ہوگا۔ اگر حکومتِ سندھ کے انتظامی نظام کا جائزہ لیں تو اکثر سرکاری دفاتر میں بدانتظامی دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے لوگ جائز کاموں کے لیے بھی دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بدانتظامی، کرپشن، من پسندی اور دیگر شکایات کے باوجود حکومتِ سندھ کے اعلیٰ ایوان اور اعلیٰ دفاتر کوئی خاص کارروائی نہیں کرتے۔ جب کہ حکومت کو بہ خوبی علم ہوتا ہے کہ ایسے افسران جو اپنے ’’خاص مقاصد‘‘ کے لیے غیرقانونی کام کرتے ہیں، عوام کو پریشان کرتے ہیں، میرٹ کی پامالی میں ملوث ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے ساری بدنامی حکومتِ سندھ اور حکمران جماعت کو حاصل ہوتی ہے، پھر بھی ان افسران کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے ان کا تحفظ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ شاید اہلِ سندھ کی بدقسمتی ہے کہ ان کی آواز کو سندھ کے ایوانِ بالا میں بھی کم سنا جاتا ہے۔ سندھ اسمبلی کے فورم پر بھی عوام کے مختلف حقیقی ایشوز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ منگل کے روز جب جی ڈی اے کے ایم پی اے کمہار گوکھلانی نے ہندو لڑکیوں کے تبدیلیِ مذہب کے معاملے کو ایوان میں قرارداد کی صورت میں پیش کرنا چاہا تو حکومتی حلقوں نے ان پر سخت دبائو ڈالا کہ وہ ایسی قرارداد نہ لائیں۔ ایک وزیر اُن کی نشست پر جاکر انہیں قرارداد نہ لانے کے لیے کہتے رہے۔ اس کی تصدیق نندکمہار کے ساتھ ایم پی اے نصرت سحر عباسی بھی کرتی ہیں۔ لیکن ان کی جانب سے انکار کیے جانے کی وجہ سے حکومتی حلقے ان کی قرارداد کی حمایت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح سے حزبِ مخالف تحریکِ التوا کے ذریعے جو معاملات اٹھانا چاہتی ہے، ان میں سے زیادہ تر کو رولز کے خلاف قرار دے کر رد کردیا جاتا ہے۔ اس طرح سے زیادہ تر حکومت ہی کا بزنس آتا ہے اور اہم عوامی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ کس قدر لائقِ تشویش امر ہے کہ لاکھوں روپے کے خرچ سے چلنے والی اسمبلی کے بعض اجلاس ایسے بھی ہوتے ہیں جو محض چند منٹوں کے لیے چل کر ملتوی ہوجاتے ہیں۔ اس طرح سے ان اجلاسوں پر عوام کے ٹیکسوں کے لاکھوں روپے تو خرچ ہوتے ہیں لیکن عوام کے بیشتر مسائل پیش کرنے نہیں دیے جاتے۔ سندھ اسمبلی جو نہ صرف عوامی معاملات پر قانون سازی کرتی ہے بلکہ سرکاری فنڈ کا احتساب کرنے، بے قاعدگیوں کو روکنے کی ذمہ داریاں بھی نبھاتی ہے، اس کے لیے پبلک اکائونٹس کمیٹی سمیت 34 اسٹینڈنگ کمیٹیاں قائم ہیں، جن کے چیئرمینوں اور ارکان پر الگ سے اخراجات ہوتے ہیں۔ یہ آگے چل کر بیان کرتا ہوں کہ پی اے سی سمیت اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی کیا کارکردگی ہوتی ہے۔ یہاں پر پڑھنے والوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سندھ اسمبلی اپنے شاہانہ اخراجات کی بنا پر دیگر تمام سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ ’’ٹاپ‘‘ پر ہوا کرتی ہے۔ ایم پی ایز پر ہر ماہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور سینکڑوں ملازمین کروڑوں روپے کی تنخواہیں ہر ماہ وصول کرتے ہیں۔
حکومتِ سندھ کی بجٹ بُکس میں تو یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی کے سال میں 55 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات ہوتے ہیں جو اسمبلی کے 168 ارکان کو تنخواہوں اور الائونسز کی مد میں دیے جاتے ہیں، جن کے لیے مختلف رقومات بجٹ میں مختص کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایم پی ایز کے سفری اخراجات اور ٹرانسپورٹ خرچ، اسٹڈی ٹورز، اجلاسوں کے ٹی اے ڈی اے، ایم پی ایز کی اکاموڈیشن اور کنونس چارجز سمیت مختلف الائونسز کی مد میں 37 کروڑ 12 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ ان میں ایم پی ایز کے اسٹڈی ٹورز کے لیے 6 کروڑ روپے شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نئے مالی سال کے دوران سندھ اسمبلی کے 168 ارکان کو ان مدوں میں رقومات کا اجرا کیا جائے گا۔ اسی طرح سے حزبِ مخالف کے رہنما کی تنخواہ پر سال میں 9 لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے، اور بجٹ میں یہ پیسے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ اسمبلی کی بجٹ تفصیلات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایم پی ایز کو ٹیلی فون الائونس بھی دیا جائے گا، جس کے لیے ایک کروڑ 96 لاکھ 80 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔ ایم پی ایز کو پیٹرول الائونس بھی ملے گا جس کے لیے 33 لاکھ 60 ہزار روپے بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح سے ایم پی ایز کے آفس مینٹی نینس الائونس کے لیے 2 کروڑ 95 لاکھ 20 ہزار روپے، اور ایم پی ایز کے مختلف دفاتر کے سامان کی خریداری کے لیے بھی2کروڑ 95لاکھ 20ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر سندھ اسمبلی کے 168 ارکان پر ہر ماہ 32 لاکھ 88 ہزار 690 روپے خرچ کیے جاتے ہیں، اور ایک ایم پی اے پر مہینے میں پونے تین لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس طرح سے سندھ اسمبلی شاہی اخراجات میں سب سے آگے ہے۔ سندھ اسمبلی میں 988 ملازمین کی فوجِ ظفر موج بھرتی کردہ ہے، جن پر سالانہ 25 کروڑ روپے سے زیادہ کے فنڈز اور تنخواہیں خرچ کی جاتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں 44 نائب قاصد، 90 جونیئر کلرک، 39 اسٹینوگرافرز، اور 50 سیکورٹی اسسٹنٹ بھرتی شدہ ہیں، جن میں نائب قاصدوں کی تنخواہوں پر ہر سال 19 لاکھ روپے، جونیئر کلرکوں کی تنخواہوں پر ہر سال ڈیڑھ کروڑ روپے، اسٹینوگرافرز پر 70 لاکھ روپے، اور سیکورٹی اسسٹنٹس پر 81 لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
سندھ اسمبلی کی بجٹ تفصیلات میں چونکا دینے والا انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ سندھ اسمبلی کی کارروائی سرکاری طور پر رپورٹ کرنے کے لیے17 ویں گریڈ کے11 رپورٹرز بھی بھرتی کیے گئے ہیں، جن پر سالانہ 50 لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس طرح سندھ اسمبلی میں سینکڑوں غیر ضروری ملازم بھرتی کرکے حکومتِ سندھ پر ایک بڑا مالی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر ملازم سیاسی بنیادوں اور دوسری سفارشوں کی بنیاد پر بھرتی کردہ ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی سمیت 35 اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو سرکاری گاڑیاں، ڈرائیور، اور دیگر ملازم بھی دیے گئے ہیں۔ اس طرح ان کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے اخراجات الگ ہوتے ہیں۔ ان میں سے پی اے سی کے چیئرمین اور ارکان کو الگ سے دفاتر (مع اسٹاف) دیے گئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں میں سے سندھ اسمبلی پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، لیکن عوام کی آواز کو کم ہی لفٹ کروائی جاتی ہے۔ جب پی اے سی اور دیگر اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی کارکردگی کو ہم پرکھتے ہیں تو وہ کوئی خاص دکھائی نہیں دیتی۔ پی اے سی کی حالت یہ ہے کہ سال 2007ء سے لے کر اِس وقت تک ایک بھی سالانہ کارکردگی رپورٹ ایوان میں پیش نہیں کی گئی ہے۔ شاید کارکردگی اتنی خاص نہ ہونے کی وجہ سے ہی ایوان کو رپورٹ پیش نہیں کی جاتی۔ اسی طرح سے مختلف اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی بھی سست کارروائی ریکارڈ ہوتی ہے۔
حکومتِ سندھ کے لیے بہتر حکمرانی قائم کرنا، بدانتظامی کے مسائل کو ختم کرنا، اور عوام کے جائز مسائل کو حل کرنا ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے، لیکن ان چیلنجز کو ختم کرنے کے لیے کسی نوع کی کوئی خاص کوشش بروئے کار ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام مسائل حل کرانے کے لیے سڑکوں پر آتے ہیں اور صوبے کے پریس کلبس احتجاجوں کے ساتھ بھرے ہوئے نظر آتے ہیں، اور حکومتِ سندھ کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس لیے سندھ کی سیاسی قیادت اور وزیراعلیٰ کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور انتظامی مسائل کو حل کرنے، کرپشن کرنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مضبوط سسٹم لاگو کرنا چاہیے۔ دوسری صورت میں سندھ کے اندر ’’خراب حکمرانی‘‘ کا تاثر مزید زور پکڑے گا اور حکومت پر سوال (کارکردگی کے حوالے سے) ہوتے رہیں گے۔