محبت

احساسِ تحفظ محبت دینے سے نہیں، محبت لینے سے ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ ہر قسم کی باہمی یا دو طرفہ محبت سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اصل میں یہ نتیجہ صرف محبت سے ہی نہیں بلکہ تعریف سے بھی نکلتا ہے۔ مثال کے طور پر فنکار، مبلغ، مقرر اور سیاست دان، جن کا مقصد عوام سے تحسین حاصل کرنا ہوتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ تعریف ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ جب انہیں عوام کی طرف سے پسندیدگی کی صورت میں مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے تو ان کی زندگی ذوقِ حیات سے شگفتہ ہوجاتی ہے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ رنجیدہ اور خودبین ہوجاتے ہیں۔ جو اثر ایسے لوگوں پر عوام کی قبولیت سے پڑتا ہے ویسا ہی اثر عام انسانوں پر چند ایک لوگوں کی سچی محبت سے ہوتا ہے۔ بچہ اپنے والدین کی طرف سے ملنے والے پیار کو اصولِ فطرت سمجھ کر قبول کرلیتا ہے۔ وہ اس پر غور و فکر نہیں کرتا، اگرچہ اس کی خوشی کے لیے اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ وہ دنیا سے متعلق اپنی راہ میں آنے والی مشکلات اور اُن حیران کن مہمات، جو اسے جوانی میں راہِ حیات پر پیش آتی ہیں، کے متعلق سوچتا ہے۔ لیکن ان تمام دلچسپیوں کے پیچھے یہی احساس ہوتا ہے کہ اسے تمام مصائب میں والدین کی محبت سے تحفظ ملے گا۔ وہ بچہ جو کسی بھی وجہ سے والدین کی محبت سے محروم رہتا ہے، بزدل اور پست ہمت بن جاتا ہے۔ وہ خوف اور خودرحمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ زندہ و توانا تجسس سے زندگی کا سامنا نہیں کرپاتا۔ ممکن ہے کہ ایسا بچہ اوائل عمر میں ہی زندگی، موت اور انسانی تقدیر سے متعلق سوچنا شروع کردے۔ وہ دروں بین ہوجاتاہے۔ وہ ابتدا میں تو افسردہ لیکن بالآخر کسی نظامِ فلسفہ یا کسی مسلک میں غیر حقیقی تسکین تلاش کرنے لگتا ہے۔ دنیا اوٹ پٹانگ سی جگہ ہے۔ اس میں خوشگوار باتیں اور ناخوشگوار باتیں بڑی بے ہنگم ترتیب میں واقع ہوتی ہیں۔ اس بے ہنگم دنیا سے ایک قابلِ فہم نظام یا خاکہ ترتیب دینے کی خواہش کسی گہرے خوف کا نتیجہ ہوتی ہے جو ایک قسم کی وسیع خلائوں کا خوف ہے۔ ایک بزدل طالب علم کتب خانے کی چار دیواری میں خود کو محفوظ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اگر وہ خود کو اس بات کا قائل کرلیتا ہے کہ کائنات بھی ایسی ہی باترتیب جگہ ہے تو پھر جب اسے باہر دنیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خودکو ویسا ہی محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ اس شخص کو اگر صحیح محبت ملی ہوتی تو وہ حقیقی دنیا سے کم خوف زدہ ہوتا، اور اس کو ایک مثالی دنیا تشکیل کرنے اور اسے اپنے افکار میں شامل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔
تاہم ہر قسم کی محبت عزم و ہمت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ دی جانے والی محبت ڈرپوک ہونے کے بجائے ہمت افزا ہونی چاہیے۔ محبوب کو تحفظ سے بڑھ کر برتری کا احساس ملے۔ احساسِ تحفظ تو اسے ہونا ہی چاہیے۔ بزدل ماں یا آیا بچوں کو بروقت ممکنہ خطرے سے ڈراتی رہتی ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ ہر کتا کاٹنے والا اور ہر گائے مارنے والی ہوتی ہے۔ وہ بچوں میں وہی بزدلی پیدا کردیتی ہے جو اس کے اپنے آپ میں ہوتی ہے۔ اس طرح وہ انہیں یہ احساس دلاتی ہے کہ اس کی موجودگی کے بغیر وہ غیر محفوظ ہیں۔ بچے کا یہ احساس اُس ماں کے لیے پسندیدہ ہوتا ہے جو ضرورت سے زیادہ قابض و تحریصی ہوتی ہے اور غالب رہنا چاہتی ہے۔ شاید وہ یہ چاہتی ہے کہ بچہ دنیا کا سامنا کرنے کے لیے خودانحصاری سے زیادہ اس پر انحصار کرنے لگے۔ اس صورت میں بچہ بالآخر اس بری حالت کو پہنچتا ہے کہ اگر اسے ایسا پیار نہ ملتا تو شاید اتنی بری حالت میں نہ ہوتا۔ ابتدائی برسوں میں پڑی ہوئی عادات تمام عمر ساتھ چمٹی رہتی ہیں۔ بہت لوگ جب اسیرِ محبت ہوتے ہیں تو انہیں دنیا سے پناہ کے لیے ایک امن کی جگہ مل جاتی ہے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہاں ان کو تعریف ملے گی، جب کہ وہ قابلِ تعریف نہیں ہوتے، اور ان کی ستائش ہوگی جب کہ ناقابل ستائش ہیں۔ بہت مردوں کے لیے گھر سچائی سے ایک پناہ گاہ ہوتا ہے۔ اس رفاقت میں وہ خوف و خدشات فراموش کردیتے اور مسرت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بیویوں سے وہی احساسِ تحفظ پاتے ہیں جو انہیں بچپن میں نادان ماں سے ملا ہوتا ہے۔ اگر ان کی بیویاں انہیں بالغ سمجھنے لگیں تو وہ حیران ہوتے ہیں۔
بہترین قسم کی محبت کی تعریف کرنا آسان نہیں، کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ اس میں کچھ تحفظ کا پہلو ضرور ہوتا ہو گا۔ جنہیں ہم پیار کرتے ہیں اُن کی تکالیف سے ہم بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ میرے خیال میں محبت میں مصیبت کے خوف کو کم سے کم دخل انداز ہونا چاہیے۔ جو مصیبت واقع ہوچکی ہے اس سے ہمدردی ہونا دوسری بات ہے۔ دوسروں کے لیے خوف محسوس کرنا اپنی ذات کے لیے خوف زدہ ہونے سے کچھ ہی بہتر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اکثر اوقات خوف کے پردے میں تحریص پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ دوسروں میں خوف پیدا کرکے اُن پر مکمل گرفت آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ دیگر وجوہات کے علاوہ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مرد بزدل عورتوں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ انہیں حفاظت دے کر ان کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔ اس بات کا انحصار انسان کی سیرت پر ہوتا ہے کہ وہ خود کو نقصان پہنچائے بغیر کتنی پریشانی برداشت کرسکتا ہے۔ بہادر اور دلیر آدمی خود کو نقصان پہنچائے بغیر بہت کچھ برداشت کرلیتا ہے، جب کہ ایک بزدل آدمی کی ایسی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ اس انداز سے کسی خوف و ضرر کی توقع نہ رکھے۔
[تسخیرِ مسرت۔ برٹرینڈرسل، مترجم پروفیسر محمد بشیر]

مذہب

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی!۔

اے مسلمان! تُو اپنی قوم کا مقابلہ یورپی قوموں سے نہ کر، کیونکہ رسولِ کریمؐ کی امت وضع و ترکیب میں ساری دنیا سے الگ ہے۔ اقوامِ یورپ کی ترکیب و ساخت کا مدار ملک اور خاندان پر ہے لیکن تیری جمعیت مذہب کی طاقت سے مضبوط ہے۔ مطلب یہ کہ اہلِ مغرب کے نزدیک قومیں وطن، نسل، رنگ، زبان وغیرہ سے بنتی اور شناخت کی جاتی ہیں، مگر ملّتِ اسلامیہ کی بنیاد مذہب پر ہے کیونکہ اسلام نے وطن و نسل کے امتیازات مٹا کر رکھ دیئے ہیں۔
اگر تُو نے مذہب کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تو جمعیت کہاں باقی رہے گی؟ اور جمعیت فنا ہوگئی تو ساتھ ہی قوم بھی فنا ہوجائے گی۔ یعنی اے مسلمان! دین کی مضبوط رسّی پوری قوت سے تھامے رکھ اور اسلام کی صراطِ مستقیم پر عزم و ہمت سے گامزن رہ۔ تیری بقا اور ترقی کا راز مذہب اور صرف مذہب میں پوشیدہ ہے۔