آپ اخبارات میں اکثر ایسے واقعات پڑھتے ہیں کہ کسی قرض دار نے قرضہ واپس نہ کرنے پر مقروض کو قتل کردیا، اور مقروض نے قرض دار کے تقاضے سے تنگ آکر اسے ہلاک کردیا، اور دکان دار اور گاہک کے درمیان تکرار میں کوئی ایک مارا گیا۔ فوری اشتعال کے سبب قتل کے ایسے واقعات آئے دن اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ عجیب بات لگتی ہے کہ معمولی معمولی بات پر قتل ہوں، لیکن اس طرح کے قتل کی خبر آئے دن اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہے، اور اس کی وجہ وہ غصہ ہے جسے حرام قرار دیا گیا ہے۔
بعض لوگ مزاج کے اعتبار سے غصہ ور ہوتے ہیں، وہ اپنے غصے کا نشانہ اپنے ہی گھر والوں کو بناتے ہیں۔ دفتر میں بھی ان کا جھگڑا ہوجاتا ہے۔ دکان پر وہ گاہکوں سے الجھ پڑتے ہیں یا کسی محلے والے سے اس غصے کے سبب ان بن ہوجاتی ہے۔ بزرگوں کا غصہ ور لوگوں کو مشورہ یہ رہا ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھیں اور غصے کا دفعیہ لاحول پڑھ کر کیا کریں۔ غصے کا حملہ نیک اور بد ہر طرح کے انسانوں پر ہوسکتا ہے، بلکہ بعض اوقات نیک لوگ اپنی نیکی کے غرہ میں زیادہ غصہ ور ہوجاتے ہیں، کسی کو غلط کام سے باز رکھنے کے لیے صبر اور حکمت سے کام نہیں لیتے اور لعنت ملامت کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ لیکن اسلام معاشرے میں ایسے انسان چاہتا ہے جو طبیعت کے نرم ہوں، ان میں تحمل ہو اور رواداری بھی، عفو و درگزر ان کی عادت ہو، اور اپنی طبیعت کے اشتعال پر قابو رکھ سکیں۔
مجھے ایک چھوٹا سا کتابچہ جو عفو کے عنوان سے عفت قریشی کا لکھا ہوا ہے، بہت پسند آیا۔ اس میں انہوں نے عفو کی تاکید، عفو کی فضیلت، عفو کے ثمرات، عفو کی راہ کی رکاوٹیں اور جذبہ عفو کیسے پیدا ہو، کے عنوان سے اظہار خیال کیا ہے۔ لاہور کے ادارہ بتول نے اسے شائع کیا ہے اور یہ مطالعہ کے لائق چیز ہے۔
ایک بار ایک شخص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ’’اے خطاب کے بیٹے! نہ تو آپ ہمارے ساتھ کچھ فیاضی کا برتائو کرتے ہیں، نہ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلے کرتے ہیں‘‘۔ اس پر حضرت عمرؓ غضبناک ہوگئے اور چاہا کہ اسے ماریں، مگر حضرت علیؓ نے آیت پڑھی۔ اس کا مفہوم تھا کہ درگزر کا رویہ اختیار کرو، نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کش رہو۔ یہ آیت سن کر حضرت عمرؓ فوراً رک گئے۔
یہ اسلام کا کمال تھا کہ حضرت عمرؓ جو پہلے ایک الغضب القلب شخصیت تھے، انہوں نے اپنے مزاج کی تندخوئی پر قابو پایا۔ اسلامی معاشرہ طیش میں آنے والے لوگوں کے بجائے نرم خو لوگوں کا معاشرہ بن گیا، حالانکہ عرب معاشرے میں اسلام سے پہلے بات بات پر تلوار نکل جاتی تھی اور غصے و انتقام کا سلسلہ نسل در نسل چلتا تھا، لیکن اس جاہلانہ اور جنگجویانہ مزاج کے عرب ’’ فاعفواواصفہو‘‘ (معاف کرو اور درگزر سے کام لو) کے مظہر ہوگئے۔
عبداللہ بن ابی سخت منافق تھا، لیکن حضور اکرمؐ اس کی بیماری میں اس کی عیادت کو گئے، حالانکہ وہ ساری عمر حضورؐ کے بارے میں نازیبا باتیں کرتا رہا۔
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ جب اپنے دشمن پر قابو پائو تو اسے معاف کرکے نعمت کا شکر ادا کرو۔ سید عبدالقادر جیلانیؒ کہتے ہیں کہ درگزر اور دفع شر کی عادت اختیار کرو ورنہ بات بڑھ جائے گی اور جھگڑے ہوتے رہیں گے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی معاف کردینے اور بخش دینے کی صفت کا کم و بیش سو دفعہ ذکر کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ معاف کردینے کی صفت بے حد اہمیت رکھتی ہے۔
قرآن میں متقیوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کردیتے ہیں، اور ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ اللہ ان سے محبت رکھتا ہے۔
ایک دانشور کا قول ہے ’’اگر کوئی تیری راہ میں کانٹے بکھیرے تو تُو اُس کی راہ میں کانٹے نہ بکھیر، ورنہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی‘‘۔ عفو و درگزر کی عادت معاشرے میں عام ہوجائے تو معاشرہ امن و سکون کا ہوجاتا ہے، ورنہ فسادی ذہنیت عام ہوجاتی ہے اور وہ انفرادی اور اجتماعی ہر لحاظ سے سر اٹھاتی ہے، معاشرے کے امن و سکون کو تباہ کردیتی ہے، اور معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرنے سے زیادہ کوئی برا کام نہیں۔
آدمی جب کسی کو معاف کرتا ہے تو اس کے نفسیاتی اثرات اُس کے قلب پر ہوتے ہیں اور وہ نیک سے نیک تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُس کے دل و دماغ میں ایک پاکیزگی پیدا ہوتی ہے اور اُس کی طبیعت کی ملکویت اس کے اندر کی حیوانیت پر غالب آتی ہے۔ اس طرح غصہ پی جانا اور عفو و درگزر سے کام لینا انسان کو ایسے بلند مرتبے پر پہنچا دیتا ہے جو برسوں کی ریاضت اور اَوراد و وظائف سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ انسان جس قدر عفو و درگزر کا مظاہرہ کرے گا اسی قدر اُس کے اندر کی نیکی زیادہ ہوتی چلی جائے گی، اور ایسے شخص کو مخالف موافق سب لوگ فرشتہ خصلت قرار دیں گے۔
معاف کردینے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ دشمن دوست بن جاتے ہیں، اس طرح آدمی اپنے دوستوں کے حلقے میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے ’’اور (اے نبیؐ!) نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔
معاف کردینے اور عفو و درگزر سے دل بغض، کینہ اور انتقام کے جذبات سے پاک رہتا ہے جو فساد کی جڑ ہیں۔ حدیث نبویؐ ہے کہ تم میں بہترین وہ ہے جسے دیر سے غصہ آتا ہے اور جلد ہی اتر جاتا ہے۔ بدتر وہ ہے کہ جسے جلدی غصہ آتا ہے اور دیر سے اترتا ہے۔ ایک اور حدیث ہے کہ غصہ ابن آدم کے دل کا انگارہ ہے۔ کیا تم غصہ ور کی آنکھوں کی سرخی اور اس کی گردن کی پھولی ہوئی رگیں نہیں دیکھتے، پس جس کو غصہ آجائے وہ زمین پر لیٹ جائے۔ اور کہاکہ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جب آدمی کو غصہ آئے تو وہ اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھ لے۔ ایک اور طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ غصے کی حالت میں آدمی کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہے تو لیٹ جائے، یا غصے کی آگ کو وضو کے پانی سے ٹھنڈا کرے۔
گھریلو اور خاندانی جھگڑوں کی بھی ایک بڑی وجہ غصے پر قابو نہ پانا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کی زبان زہریلی تلوار سے بھی زیادہ گہرے زخم لگاتی ہے جو کبھی پُر نہیں ہوسکتے اور ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ تلوار کا زخم ٹھیک ہوجاتا ہے مگر زبان کا زخم ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
انسان کی طبیعت میں غصہ بھی خدا نے رکھا ہے، لیکن یہ غصہ عام انسانی تعلقات کو زہر آلود کرنے کے لیے نہیں ہے، یہ مظلوموں کی حمایت میں اور ظالموں کے خلاف جدوجہد کے لیے ہے، لیکن حالتِ جنگ میں بھی غصے میں آکر ایسی کارروائیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے جس میں مقررہ حدود سے تجاوز ہو۔
انسان کے لیے اپنی طبیعت میں صبر و تحمل، عفو و درگزر کی خوبی پیدا کرنے کی اصل تربیت گاہ اس کا اپنا گھر ہے۔ جو شخص اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ نرمی کا سلوک کرتا ہے اُس کے گھر میں امن رہتا ہے اور برکت نازل ہوتی ہے، ایسا شخص گھر سے باہر بھی اپنی اس خوبی کے سبب لوگوں کی خیر حاصل کرتا ہے اور بہت سے جھگڑوں سے بچا رہتا ہے۔ جبکہ غصہ معاشرے کے لیے، گھرانے کے لیے اور فرد کے اپنے لیے مضر ہے۔ سچ پوچھیے تو بارگاہِ الٰہی میں مقرب اور خدا کا خاص بندہ ہونے کے لیے معاف کرنا اور غصے کو پی جانا تیر بہدف نسخہ ہے، اس نسخے کے استعمال سے عام انسان بھی ولی اللہ کے درجے پر فائز ہوسکتا ہے۔