حج ایک جامع عبادت

حضرت آدم علیہ السلام کی دعا

یہ دعا حضرت آدم علیہ السلام نے اُس وقت مانگی جب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں یعنی آدم و حوا کی لغزش پر ان کے ستر ایک دوسرے پر کھول دیئے، انہیں حیا کے فطری جذبے نے بالکل مغلوب کرکے رکھ دیا اور انہیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تو انہوں نے رورو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا، اب اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘۔ (الاعراف:23)

پروفیسر خورشید احمد
حقیقت یہ ہے کہ حج تمام ہی مراسم عبادت کا جامع ہے۔ نماز کا آغاز اگر نیت کی درستی، قبلے کے استقبال اور بدن کی طہارت سے ہوتا ہے اور اس کی روح ذکرِ الٰہی ہے، تو حج پہلے ہی مرحلے سے ان سب کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ بیت اللہ کی طرف رخ ہی نہیں اس کا قصد اور اس کی طرف سفر، اور پھر اس کا طواف اور اس کی طرف سجدے ہی سجدے، احرام اور جسم اور روح کی طہارت اور حج کی نیت سے لے کر طوافِ وداع تک ذکر ہی ذکر۔ نماز اگر فحش اور منکرات سے روکنے کا ہتھیار ہے، تو احرام بھی فحش اور منکرات کے باب میں ایک حصار ہے۔
حج کے پورے عمل کو خواہشِ نفس سے پاک کرنا اور گناہوں سے بچانا، آدابِ حج کا حصہ ہے۔ زکوٰۃ مالی عبادت ہے، جو ایک طرف حُب ِ دنیا اور حُب ِ دولت سے انسان کو بچاتی ہے، تو دوسری طرف معاشرے سے بھوک اور غربت کو مٹانے اور معاشی عدم مساوات کو کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ حج میں بھی انسان کو کثیر مالی قربانی کرنا پڑتی ہے، صرف زادِ راہ اور قربانی ہی کے لیے نہیں بلکہ ایک عرصے کے لیے ترکِ معاش اور اہلِ خاندان کے لیے معاش کے انتظام کی شکل میں۔ احرام پوری امت کے لیے مساوات کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتا ہے اور امیر غریب، بادشاہ فقیر، سب ایک ہی لباس میں آجاتے ہیں۔ روزے کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کرنا، ضبطِ نفس کی تربیت دینا، جسمانی مشقت انگیز کرنے کے لیے تیار کرنا، تعلقاتِ زن و شو سے احتراز (صرف دن ہی میں نہیں، حج کی راتوں میں بھی)، بے آرامی اور ذکر کی کثرت کی فضا بنانا ہے۔ حج میں یہ سب اپنے اپنے انداز میں موجود ہیں۔ روزے کو قرآن سے خصوصی نسبت ہے۔ حج میں بھی قرآن کی تلاوت اور مقاماتِ نزولِ قرآن کی زیارت، روزے کے ان پہلوؤں کا لطف پیدا کردیتے ہیں۔ نماز کی باجماعت ادائیگی، زکوٰۃ کی بیت المال کے نظام کے ذریعے منظم تقسیم اور روزے کو ایک ہی مبارک مہینے میں تمام امت کے لیے فرض کرنے میں اجتماعیت کی جو شان ہے، حج اس کی معراج ہے۔ غرض اس ایک عبادت میں، جو بالعموم کئی مہینوں پر پھیلی ہوئی ہے اور سفر کی جدید سہولتوں کے باوجود کئی ہفتوں کا اعتکاف اور انہماک تو لازماً چاہتی ہے۔ عبادت کے تمام ہی مراسم اور ان کے اہداف کسی نہ کسی شکل میں جمع کردیے گئے ہیں، جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور یادگار تجربہ ہے۔
حج کا ایک اور منفرد پہلو امت کی وحدت اور انسانیت کے ایک خاندان اور برادری ہونے کو نمایاں کرنا ہے۔ رنگ، نسل، وطن، زبان، مرزبوم، سماجی تنوع، معاشی تفاوت، غرض ہر فرق ختم ہوجاتا ہے۔ ایک اللہ کے ماننے والے بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لیے دنیا کے گوشے گوشے سے ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں اور ایک خاندان کی طرح ایک امام کی قیادت میں ایک ہی تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے دن رات ساتھ گزارتے ہیں۔ تہذیب وتمدن کے سارے خول اتر جاتے ہیں اور صرف للہیت اور انسانیت کا نمونہ پیش کرتے ہیں، اور ان سب کا آخری ہدف اللہ کی رضا کا حصول، زمین پر اس کی مرضی پوری کرنے کا عزم، استخلاف فی الارض کے مشن کی تنفیذ کے جذبے کو تازہ کرنا اور دین کی دعوت اور نصرت کی جدوجہد میں زندگی وقف کرنے کا داعیہ اجاگر کرنا بن جاتا ہے۔ یہ وہ انقلابی مقصد ہے، جس کے لیے اس امت کو برپا کیا گیا اور اس کی تذکیر حج کا اصل وظیفہ ہے۔
حج ریاست و خلافت کا پرتو ہے، اس ضمن میں مولانا سید سلیمان ندویؒ، اپنی معرکہ آرا تصنیف سیرت النبیؐ میں اس پہلو کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’خانہ کعبہ اس دنیا میں عرشِ الٰہی کا سایہ اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا نقط قدم ہے۔۔۔ یہ وہ منبع ہے، جہاں سے حق پرستی کا چشمہ ابلا، اور اس نے تمام دنیا کو سیراب کیا۔ یہ روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع ہے، جس کی کرنوں نے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیا۔ یہ وہ جغرافیائی شیرازہ ہے، جس میں ملت کے وہ تمام افراد بندھے ہوئے ہیں، جو مختلف ملکوں اور اقلیتوں میں بستے ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف لباس پہنتے ہیں، مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر وہ سب کے سب، باوجود ان فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے، ایک ہی خانہ کعبہ کے گرد چکر لگاتے ہیں، اور ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں اور ایک ہی مقام کو اُم القریٰ مان کر وطنیت، قومیت، تمدن و معاشرت، رنگ روپ اور دوسرے تمام امتیازات کو مٹا کر، ایک ہی وطن، ایک ہی قومیت (آلِ ابراہیم) ایک ہی تمدن و معاشرت (ملت ابراہیمی) اور ایک ہی زبان (عربی) میں متحد ہو جاتے ہیں۔“
’’لوگ آج یہ خواب دیکھتے ہیں کہ قومیت و وطنیت کی تنگنائیوں سے نکل کر وہ انسانی برادری کے وسعت آباد میں داخل ہوں، مگر ملت ِ ابراہیمی کی ابتدائی دعوت اور ملت ِ محمدی کی تجدیدی پکار نے سیکڑوں ہزاروں برس پہلے اس خواب کو دیکھا اور دنیا کے سامنے اس کی تعبیر پیش کی۔ لوگ آج تمام دنیا کے لیے ایک واحد زبان کی ایجاد و کوشش میں مصروف ہیں، مگر خانہ کعبہ کی مرکزیت کے فیصلے نے آلِ ابراہیم کے لیے مدتِ دراز سے اس مشکل کو حل کردیا ہے۔ لوگ آج دنیا کی قوموں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ایک ورلڈ کانفرنس یا عالم گیر مجلس کے انعقاد کے درپے ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ساڑھے [چودہ صدیوں] سے یہ مجلس دنیا میں قائم ہے اور اسلام کے علم، تمدن، مذہب اور اخلاق کی وحدت کی علم بردار ہے۔“
’’مسلمان ڈیڑھ سو برس تک جب تک ایک نظم حکومت یا خلافت کے ماتحت رہے، یہ حج کا موسم ان کے سیاسی اور تنظیمی ادارے کا سب سے بڑا عنصر رہا۔ یہ وہ زمانہ ہوتا تھا، جس میں اُمورِ خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔ اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوں کے حکام اور والی جمع ہوتے تھے، اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریقِ عمل طے کرتے تھے، اور مختلف ملکوں کی رعایا آکر اگر اپنے والیوں اور حاکموں سے کچھ شکایتیں ہوتی تھیں، تو ان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھیں، اور انصاف پاتی تھیں۔“
’’اسلام کے احکام اور مسائل جو دم کے دم میں اور سال ہا سال دور دراز اقلیموں، ملکوں اور شہروں میں اُس وقت پھیل سکے، جب سفر اور آمدورفت کا مسئلہ آسان نہ تھا۔ اس کا اصل راز یہ سالانہ حج کا اجتماع ہے، اور خود رسولﷺ نے اپنا آخری حج جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، اسی اصول پر کیا۔ وہ انسان جو تیرہ برس تک مکہ میں یکہ و تنہا رہا، 32 برس کے بعد وہ موقع آیا جب اس نے تقریباً ایک لاکھ کے مجمع کو بیک وقت خطاب کیا اور سب نے سَمعاً وَ طَاعاً کہا۔ آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین اور دوسرے خلفا کے زمانے میں صحابہ کرام اور ائمہ اعلام نے اسی طرح سال بہ سال جمع ہو کر احکامِ اسلام کی تلقین و تبلیغ کی خدمت ادا کی، اس کا نتیجہ تھا کہ نت نئے واقعات اور مسائل کے متعلق، دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے جوابی احکام اور فتوے پہنچتے رہے اور پہنچتے رہتے ہیں‘‘ (سید سلیمان ندوی، سیرت النبی، پنجم، ص 912،123)۔ ہم نے مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تحریر سے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ حج کے اس منفرد پہلو کو ایک روایتی عالم دین کے الفاظ میں اجاگر کریں۔ ورنہ محدود مذہبی ذہن رکھنے والے تو اس پر ’دین کی سیاسی تعبیر‘یا ’سیاسی اسلام‘ کی پھبتی کستے نہیں تھکتے۔ حالانکہ یہ اسلام کا ایک ایسا اعجاز اور تاریخی کارنامہ ہے، جس پر مخالف بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پیش تر شائع ہونے والی اوکسفرڈ انسائیکلوپیڈیامیں مقالہ نگار رابرٹ بیانشی (Robert Bianchi) کے یہ جملے قابلِ غور ہیں(انگریزی سے ترجمہ):
”دنیا کی تمام زیارتوں میں حج منفرد بھی ہے اور اہم ترین بھی۔ عیسائیت اور ہندومت کے قدیم اور اعلیٰ ترقی یافتہ بین الاقوامی زیارت کے نظاموں سے مقابلہ کیا جائے تو حج عقیدے کی مرکزیت، جغرافیائی ارتکاز اور تاریخی تسلسل کے لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔“ (اوکسفرڈ انسائیکلوپیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ۔۔۔ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس،1995ء، جلد2،ص188)
اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو جس طرح حفظِ قرآن، کتابت وتعلیم قرآن اور رمضان المبارک میں قرآن سے تجدید ِ تعلق نے اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح حج نے اسلام کی اصل روح۔۔۔للہیت، عبدیت اور امت کی وحدت اور اخوت کو اس طرح ایک تاریخی نظام میں پرو دیا ہے۔ ایک ادارے کے طور پر یہ روایت اپنے مرکز سے پوری دنیا میں اور ایک نسل سے دوسری نسل اورایک دور سے دوسرے دور کی طرف برابر منتقل ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ تاابد ہوتی رہے گی۔(پروفیسر خورشید احمد کے مضمون ”حج ایک عبادت “سے اقتباس)