ڈونلڈ، عمران ملاقات: امریکہ پاکستان کی سول و عسکری قیادت سے کیا مانگے گا؟۔

سیاسی جماعتوں میں توڑپھوڑ، فارورڈ بلاک کے قیام کی کوشش، اور وزیراعظم کا دورۂ امریکہ اہم ترین موضوعات ہیں۔ وزیراعظم عمران خان 22 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ بھی ان کے ساتھ دورے پر جارہے ہیں۔یہ ملاقات شخصیات کی ملاقات نہیں، اور نہ اسے پاکستان کے وزیراعظم کی امریکی صدر سے ملاقات کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ یہ ملاقات دراصل اس خطے کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی بنیاد رکھ سکتی ہے، کیونکہ وزیراعظم عمران خان سے امریکی صدر کی ملاقات ایک وسیع ایجنڈے کے ساتھ ہورہی ہے، جس میں طالبان امریکہ مذاکرات، امریکہ ایران تنازعے کے علاوہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اس خطے میں امریکی مفادات پر بات ہوگی۔ یہ ملاقات پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات کے مستقبل سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف نے حال ہی میں پاکستان کو ایک معاشی پیکیج دیا ہے، مگر بنیادی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اس پیکیج کے لیے پاکستان ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان پیکیج لینے کے لیے ہر سال دوہزار ارب کے ٹیکس لگائے، اور یہ عمل بتدریج بڑھایا جائے۔ اس پیکیج کے ذریعے آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کی کمر پر اس قدر بھاری بوجھ لاد دیا ہے جس کی وہ متحمل نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے پاکستان کی کوشش ہوگی کہ اسے ریلیف ملے، لیکن امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ پاکستان اس کی شرائط پر عمل کرے۔ امریکی انتظامیہ کی سب سے بڑی اور اہم ترین شرط یہ ہے کہ پاکستان طالبان اور امریکی انتظامیہ اور افغان قیادت کے مابین ہونے والے معاہدے میں طالبان کی جانب سے ضامن بن جائے اور ضمانت فراہم کرے کہ طالبان اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ مگر پاکستان یہ بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ خود امریکہ ہے، اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ پاکستان کو ضامن بناکر امریکہ خود افغانستان میں حالات خراب کرے اور طالبان خود کو ان حالات سے الگ نہ رکھ سکیں، ایسی صورت میں ضامن ہونے کی وجہ سے سارا بار پاکستان پر آجائے گا۔ لہٰذا پاکستان یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار نظر نہیں آرہا۔ یقیناً امریکی صدر یہ معاملہ اس ملاقات میں اٹھائیں گے۔ دوسرا اہم ترین معاملہ امریکہ ایران تنازع ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ نے اگر ایران کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اس کے لیے ترکی، عراق یا افغانستان کے راستے آنا ممکن نہیں ہوگا۔ کیا پاکستان اُسے یہ راہداری فراہم کرے گا؟ امریکی پاکستان میں سی پیک منصوبے پر خوش نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ کام سست ہوجائے یا ترک کردیا جائے۔ لیکن یہ دونوں کام نہیں ہوسکتے۔ امریکی ہمیں براہِ راست تو نہیں دھمکا رہے لیکن وہ ہم پر دائیں بائیں سے حملہ آور ضرور ہیں۔ رہ گئی بات بھارت کی، تو امریکہ تو اس کا بڑا حصہ دار ہے اور رہے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ سے چند روز قبل وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا یہ بیان آجانا کہ ’’ختمِ نبوت قوانین میں ٹیمپرنگ کی کوشش کی گئی تو سب سے پہلے میں استعفا دے دوںگا، میرا دین اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں، اگر کوئی ایسی کوشش کی گئی تو بھرپور مزاحمت کریں گے، عمران خان کی بھی ایسی ہی سوچ ہے، پاکستان سے اسلام نکال دیا جائے توبھارت سے الگ ہونے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا‘‘۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کو یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ اس بیان کی انہیں ضرورت کیوں پیش آئی؟
یہاں وزیراعظم کے دورۂ امریکہ سے متعلق اگر دونوں ملکوں کے ترجمانوں کی زبان کا جائزہ لیا جائے تو ایک دلچسپ صورت حال ملتی ہے۔ امریکیوں نے ہمیشہ کی طرح مبہم مگر ایجنڈے میں شامل نکات کی جانب مکمل اشارہ کیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے ہمیشہ کی طرح گول مول بات کی۔ ترجمان کے مطابق وزیراعظم افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے عزم سے آگاہ کریں گے، وزیراعظم اپنے دورۂ امریکہ کے دوران پاکستان کی پُرامن ہمسائیگی کی پالیسی پر روشنی ڈالیں گے۔ دفتر خارجہ کے مطابق دورے سے باہمی مفاد پر مبنی شراکت داری مزید مضبوط ہوگی۔ دوسری جانب ترجمان وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم عمران خان کا 22 جولائی کو وائٹ ہائوس آنے پر خیرمقدم کریں گے۔ ترجمان وائٹ ہائوس کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے دورے میں پاک امریکہ تعاون کی مزید مضبوطی توجہ کا مرکز ہوگی، پاک امریکہ تعاون کا مقصد خطے میں امن و استحکام اور معاشی خوشحالی لانا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان انسدادِ دہشت گردی، دفاع، توانائی اور تجارت سے متعلق امور پر بات چیت ہوگی، دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا مقصد جنوبی ایشیا میں امن، اور پاک امریکہ دیرپا شراکت داری کا ماحول پیدا کرنا ہے، اس دورے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ ہوں گے۔ باخبر حلقے اس ملاقات کو بہت اہم سمجھ رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کچھ بنیادی اور اہم معاملات ہیں جن کی بنا پر اسلام آباد کے دماغ ’’عمران ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ ملاقات کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ اپنے تمام مفادات کا تحفظ بھی کیا جائے اور سانپ مارتے ہوئے اپنی لاٹھی بھی بچالی جائے۔

وزیراعظم عمران خان کا امریکہ کا ’’آفیشل ورکنگ وزٹ‘‘۔

وزیراعظم عمران خان ’آفیشل ورکنگ وزٹ‘ پر امریکہ کا دورہ کریں گے، جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔ تاہم یہ دورہ امریکہ کے لیے پہلے نہیں بلکہ تیسرے درجے کا دورہ تصور کیا جاتا ہے۔ امریکی پروٹوکول میں یہ بات طے شدہ ہے کہ امریکہ جس دورے کو اوّل درجہ دیتا ہے وہ ’اسٹیٹ وزٹ‘ کہلاتا ہے، جس کی دعوت صرف کسی بھی ملک کے صدر یا بادشاہ کو دی جاتی ہے، تاہم اس پروٹوکول میں کسی حکومت کا سربراہ یا وزیراعظم شامل نہیں ہوتا۔ امریکہ کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ غیر ملکی سربراہوں کے دوروں کو 5 درجات میں تقسیم کرتا ہے، جن میں پہلا ’اسٹیٹ وزٹ‘، دوسرا ’آفیشل وزٹ‘، تیسرا ’آفیشل ورکنگ وزٹ‘، چوتھا ’ورکنگ وزٹ‘ اور پانچواں ’پرائیویٹ وزٹ‘ کہلاتا ہے۔ اسٹیٹ وزٹ کی دعوت ریاست کے سربراہان یا بادشاہوں کو امریکی صدر کی جانب سے دی جاتی ہے، اور اس دورے کے دوران غیر ملکی سربراہان وائٹ ہاؤس سے چند قدم کے فاصلے پر قائم ’بلیئر ہاؤس‘ میں چار دن اور تین راتوں تک قیام کرتے ہیں۔ اس دورے کے دوران غیر ملکی سربراہان وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے عشائیے میں شرکت کرتے ہیں، جبکہ ان کی آمد اور روانگی اعزازی تقریبات کے ساتھ ہوتی ہے، انہیں 21 توپوں کی سلامی پیش کی جاتی ہے اور تحائف کا بھی تبادلہ ہوتا ہے، جبکہ سربراہان کی بیگمات بھی ان عشائیوں اور تقریبات میں شرکت کرسکتی ہیں۔ آفیشل وزٹ دوسرے درجے کا دورہ ہے جو ریاست کے سربراہ کے لیے ہوتا ہے، اور وہ بھی امریکی صدر کی دعوت پر واشنگٹن کا دورہ کرتے ہیں۔آفیشل وزٹ کے تمام محرکات اسٹیٹ وزٹ کی طرح ہی ہیں، تاہم اس میں مہمان سربراہ کو 21 کے بجائے 19 توپوں کی سلامی پیش کی جاتی ہے۔ آفیشل ورکنگ وزٹ تیسرے درجے کا دورہ ہے جس کی دعوت امریکی صدر کی جانب سے ریاست یا حکومت کے سربراہ کو دعوت دی جاتی ہے۔ دورے کے دوران حکومت کے سربراہ دستیابی کی صورت میں بلیئر ہاؤس میں تین دن اور دو راتوں تک قیام کرتے ہیں، تاہم امریکی انتظامیہ آفیشل ورکنگ وزٹ پر آنے والے غیر ملکی سربراہ کے لیے بلیئر ہاؤس خالی کروانے کی پابند نہیں ہے۔ اس درجے کے دورے میں غیر ملکی سربراہ امریکی صدر سے ملاقات کرتے ہیں، جبکہ اس میں انہیں دیا جانے والا عشائیہ لازمی نہیں ہے۔ امریکی صدر سے ملاقات کے بعد غیر ملکی سربراہ کو ظہرانہ دیا جاتا ہے جس میں امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ (وزیر خارجہ) شرکت کرتے ہیں۔ اس درجے میں غیر ملکی سربراہ کو وائٹ ہاؤس آمد اور یہاں سے روانگی پر اعزازی تقریبات نہیں دی جاتیں، اور نہ ہی توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ کبھی کبھار مشترکہ پریس کانفرنس بھی ہوتی ہے، جبکہ سربراہ کی اہلیہ ظہرانے میں شرکت نہیں کرتیں اور نہ ہی تحائف کے تبادلے ہوتے ہیں۔ ورکنگ وزٹ چوتھے درجے کا دورہ ہے، اس کی بھی دعوت امریکی صدر کی جانب سے دی جاتی ہے، تاہم اس میں صرف غیر ملکی سربراہ امریکہ کے صدر سے ملاقات کرتا ہے، لیکن اس میں نہ اعزازی تقریبات ہوتی ہیں، نہ ظہرانہ، نہ عشائیہ، اور نہ ہی صحافیوں کو آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس دوران تحائف کا بھی تبادلہ نہیں کیا جاتا۔ پرائیویٹ وزٹ آخری درجے کا دورہ ہے جس میں ریاست کا سربراہ، حکومت کا سربراہ، وزیر خارجہ، یا پھر اعلیٰ درجے کا کوئی بھی سرکاری اہلکار امریکی دعوت کے بغیر امریکہ کا دورہ کرتا ہے۔ اس دوران مہمان امریکی صدر سے ملاقات کی درخواست کرسکتا ہے، تاہم اگر درخواست منظور ہوجائے تو امریکی صدر کے ساتھ ملاقات ’ورکنگ سیشن‘ کہلائے گی۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ریکارڈ بک کے مطابق پاکستان کی جانب سے ایوب خان اور جنرل ضیا الحق ایسے صدور ہیں جنہوں نے امریکہ کا درجہ اول ’اسٹیٹ وزٹ‘ کیا۔ ایوب خان کو دو مرتبہ اسٹیٹ وزٹ کا اعزاز حاصل ہے، انہوں نے پہلی مرتبہ 11 سے 14 جولائی 1961ء اور دوسری مرتبہ 14 سے 16 دسمبر 1965ء کو امریکہ کا اسٹیٹ وزٹ کیا۔ جنرل ضیا الحق نے 6 تا 9 دسمبر 1982ء امریکہ کا اسٹیٹ وزٹ کیا تھا۔ پاکستان کے سربراہان میں سب سے زیادہ مرتبہ امریکی صدور سے ملاقات کا اعزاز سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کے پاس ہے جو 11 مرتبہ امریکی صدور سے ملاقات کرچکے ہیں، تاہم انہوں نے کبھی اسٹیٹ یا آفیشل وزٹ نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو امریکی صدور کی جانب سے آفیشل وزٹ کی دعوت دی گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 18 سے 20 ستمبر 1973ء اور 4 سے 5 فروری 1975ء کو آفیشل وزٹ کیا، جبکہ بے نظیر بھٹو نے جون 1989ء میں امریکہ کا آفیشل وزٹ کیا، جبکہ انہوں نے 9 سے 11 اپریل 1995ء کو آفیشل ورکنگ وزٹ بھی کیا۔ سویلین حکمرانوں میں سب سے زیادہ مرتبہ امریکی صدور سے ملاقات کرنے کا اعزاز نوازشریف کے پاس ہے جنہوں نے 6 مرتبہ امریکی صدور سے مختلف ادوارِ حکومت کے دوران ملاقات کی۔ نوازشریف بطور سربراہِ حکومت تین مرتبہ آفیشل ورکنگ وزٹ، جبکہ ایک مرتبہ ورکنگ وزٹ پر امریکہ کا دورہ کرچکے ہیں، تاہم انہوں نے کبھی بھی آفیشل وزٹ نہیں کیا۔ انہوں نے ایک مرتبہ امریکہ کا پرائیویٹ وزٹ کیا، یہ دورہ 4 سے 5 جولائی 1999ء کو کیا گیا، اور اس دوران انہوں نے امریکی صدر بل کلنٹن سے کارگل تنازعے پر گفتگو کی تھی۔کسی بھی پاکستانی حکمران کی جانب سے آخری مرتبہ امریکہ کا دورہ 2015ء میں کیا گیا تھا، اور یہ دورہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے کیا تھا۔