کرکٹ عالمی کپ2019ء، متنازع اختتام

انگلینڈ کی جیت اور نیوزی لینڈ کی ہار

کرکٹ عالمی کپ 2019ء سات ہفتے جاری رہنے کے بعد اپنے نئے تنازعات کے ساتھ اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم جس کے ساتھ ایسا لگتا تھا بڑی تعداد میں اسلامی ممالک کے عوام بھی کھڑے ہیں، بدقسمتی سے ہماری آنکھوں کے سامنے جیتتے جیتتے ہار گئی اور انگلینڈ کی ٹیم ہارتے ہارتے جیت گئی۔کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں ایسا سنسنی خیز فائنل کبھی بھی نہیں دیکھا گیا۔ ایک جنگ تھی جو مستقل جاری رہی، اور ہر کھلاڑی اپنی پوری طاقت اور جوش کے ساتھ اپنی ٹیم کی جیت کو یقینی بنانے میں لگا رہا۔ مقابلے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہر فائنل فائنل ہی ہوتا ہے، بس ذرا کچھ الگ ہوجاتے ہیں اور یاد رہ جاتے ہیں، یا کچھ ایسا ہوجاتا ہے جو ایک کے لیے جیت اور دوسرے کے لیے ہار کے ساتھ گہرے دکھ اور درد کا سبب بن جاتا ہے۔ اس ورلڈ کپ اور اس کے فائنل پر بات کرنے سے قبل ہم اگر اس سے قبل کے فائنل کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو فتح اور شکست کی بڑی دلچسپ تاریخ دیکھنے کو ملتی ہے۔
کرکٹ ورلڈ کپ کا سب سے پہلا فاتح 1975ء میں ویسٹ انڈیز رہا تھا۔ ویسٹ انڈیز کا مقابلہ فائنل میں آسٹریلیا کے ساتھ ہوا۔ یہ بڑا دلچسپ اور سنسنی خیز فائنل تھا۔ دونوں اپنے وقت کی بہترین ٹیمیں تھیں اور آخر وقت تک مقابلہ کرنا جانتی تھیں۔ ان کے پاس ورلڈکلاس کھلاڑی تھے۔ ویسٹ انڈیز کے پاس ویوین رچرڈز،گورڈن گرینج، کالی چرن، روہن کنہائی، کلائیو لائیڈ، کیتھ بوائس اور ڈیرک مرے، جبکہ آسٹریلیا کے پاس آئن چیپل، گریگ چیپل، ڈینس للی، گیری گلمور، جیف تھامسن، ایلن ٹرنر، ڈگ والٹرز جیسے کھلاڑی تھے جنہوں نے اس ورلڈکپ فائنل میں حصہ لیا تھا۔ یہ فائنل میچ ویسٹ انڈیز نے 17رنز سے جیتا۔یہ 60 اوورز کا میچ تھا۔ پھر 1979ء کے دوسرے ورلڈکپ میں دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلے کی نسبت زیادہ پُراعتماد تھی۔ اس میں اینڈی رابرٹس، مائیکل ہولڈنگ، جوئل گارنر اور کولن کرافٹ کی شکل میں بہترین بولر موجود تھے۔ دوسرے ورلڈکپ فائنل میں ویسٹ انڈیز نے انگلینڈ کو 92 رنز سے شکست دی۔ پھر تیسرا ورلڈ کپ 1983ء میں انگلینڈ میں ہی ہوا جس کے فائنل میں بھارت اور ویسٹ انڈیز آمنے سامنے تھے۔ عام خیال یہی تھا کہ ویسٹ انڈیز یہ فائنل آسانی سے جیت جائے گا کیونکہ بھارتی ٹیم محض 183رنز بناسکی تھی۔ لیکن جواب میں ویسٹ کی ٹیم 140رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ اس طرح تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور بھارت یہ ورلڈ کپ جیت گیا۔
1987ء میں پاکستان اور بھارت میں منعقد ہونے والا ریلائنس ورلڈکپ بہت انوکھا تھا۔ اس میں کئی غیر متوقع نتائج دیکھنے کو ملے۔ آسٹریلیا کی ٹیم میں زیادہ تر نئے اور ناتجربہ کار کھلاڑی شامل تھے، لیکن انہوں نے حیرت انگیز کارکردگی پیش کی۔ پاکستان ورلڈکپ 1987ء کی فیورٹ ٹیم تھی، لیکن وہ غیر متوقع شکست سے دوچار ہوئی۔ یہ ورلڈ کپ آسٹریلیا نے فائنل میں انگلینڈ کو ہرا کر جیت لیا۔ یہ پہلا کرکٹ ورلڈکپ تھا جو انگلینڈ سے باہر کھیلا گیا۔ ورلڈ کپ 2019ء سے قبل کرکٹ کے ماہرین کا خیال تھا کہ ورلڈکپ کی تاریخ کا سب سے زبردست فائنل 1992ء میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا۔ پاکستان فائنل میں اُسی طرح پہنچا تھا جس طرح امسال پہنچتے پہنچتے رہ گیا۔ اہم بات یہ بھی تھی کہ پاکستان پہلی بار ورلڈکپ کے فائنل میں پہنچا اور فتح یاب ہوا۔ یہ فائنل آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلا گیا اور تماشائیوں کی تعداد 87 ہزار سے زیادہ تھی جو کہ اُس وقت ایک ریکارڈ تھا۔ حالیہ ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کے حوالے سے 1992ء کے ورلڈ کپ کی طرح کئی حیران کن نشانیاں سامنے آئیں، لیکن بالآخر وہ سیمی فائنل سے پہلے دم توڑ گئیں اور پاکستان سیمی فائنل میں بھی نہیں پہنچ سکا۔ اس کے بعد 1996ء کا ورلڈکپ ٹورنامنٹ پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں کھیلا گیا۔ اس ورلڈکپ کی فیورٹ ٹیمیں پاکستان اور جنوبی افریقہ دونوں کوارٹر فائنل میں ہار گئیں۔ پھر سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو، اور سری لنکا نے بھارت کو ہرا دیا۔ لاہور میں آسٹریلیا اور سری لنکا کا فائنل ہوا جو سری لنکا نے پہلی بار شاندار اور عمدہ کھیل پیش کرکے جیت لیا۔ ورلڈکپ 1999ء کا فائنل مقابلہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ہوا جس میں پاکستان کی بیٹنگ ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور پوری ٹیم 132 رنز پر پویلین جا پہنچی۔ آسٹریلیا نے صرف دو وکٹوں کے نقصان پر ہدف پورا کرلیا۔ اس طرح 2003ء اور 2007ء کے ورلڈکپ میں بھی آسٹریلیا نے فتح حاصل کی۔ 2003ء میں آسٹریلیا نے بھارت کو فائنل میں 125رنز سے شکست دی، جبکہ 2007ء کے فائنل میں اُس نے سری لنکا کو ہرایا تھا۔ بھارت اور سری لنکا کے مابین 2011ء کے ورلڈکپ کا جو فائنل کلکتہ میں کھیلا گیا، یہ بھی ایک یادگار میچ تھا۔ سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے چھ وکٹوں کے نقصان پر 274 رنز بنائے، جس میں مہیلا جے وردھنے کی سنچری شامل تھی۔ جواب میں بھارت نے 4 وکٹوں کے نقصان پر ہدف پورا کرلیا۔1983ء کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب بھارت نے ورلڈکپ جیتا۔ بہرحال یہ ایک بہت اچھا مقابلہ تھا۔ 2015ء کا فائنل دونوں میزبان ٹیموں یعنی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا گیا۔ فائنل میں نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن بری طرح ناکام ہوئی اور پوری ٹیم صرف 183 رنز پرآئوٹ ہوگئی۔ جواب میں آسٹریلیا نے یہ ہدف بآسانی 3 وکٹوں کے نقصان پر پورا کرکے نیوزی لینڈ کو 7 وکٹوں سے شکست دی، اور نیوزی لینڈ ورلڈ کپ جیتنے میں ناکام رہا۔
اب آتے ہیں ورلڈ کپ 2019ء کی طرف، جو تمام ورلڈ کپ سے منفرد رہا۔ ٹورنامنٹ کا فارمیٹ اس حساب سے تھا کہ 10 ٹیموں کو ایک گروپ میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہر ٹیم نے باقی 9 ٹیموں سے ایک ایک میچ کھیلا۔ گروپ کی پہلے چار درجے کی ٹیمیں سیمی فائنل کی اہل ہوئیں۔ سیمی فائنل جیتنے والی ٹیمیں فائنل مقابلے میں شریک ہوئیں۔ یہ پہلا عالمی کپ ہے جس میں ٹیسٹ کھیلنے والی سب ٹیمیں موجود نہیں تھیں۔ قومی ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی یہ کہا کہ ورلڈ کپ کا ایسا فائنل کبھی نہیں دیکھا، میچ کے دوران کبھی انگلینڈ تو کبھی نیوزی لینڈ فیورٹ لگا۔ واقعی اِس بارہویں عالمی کپ کے فائنل میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان مقابلہ انتہائی ڈرامائی انداز میں سپر اوور تک گیا جہاں دوبارہ اسکور برابر ہونے کی وجہ سے انگلینڈ کو زیادہ باؤنڈری مارنے پر ورلڈ کپ کا فاتح قرار دیا گیا۔
ہمارا ملک پاکستا ن ابتدا میں اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا، لیکن بعد میں جب کارکردگی بہتر ہوئی تو شاید ستارے گردش میں آچکے تھے اور دوسری ٹیموں کی شکست اور فتح بھی پاکستان کے سیمی فائنل میں نہ پہنچنے کا باعث بنی، جس میں روایتی حریف اور دشمن بھارت کا جان بوجھ کر ہارنا بھی شامل تھا، اور بعد میں یہی ہار اُس کی نحوست بھی بن گئی اور وہ بھی باہر ہوگیا۔
خیر اب فائنل پر بات کرتے ہیں۔ اس ورلڈ کپ کو سیاسی کے ساتھ مارکیٹنگ کا ورلڈ کپ بھی بعض لوگ کہہ رہے تھے۔ بہرحال انگلینڈ جہاں سے کرکٹ کا آغاز ہوا وہ 1979ء، 1987ء اور 1992ء کا فائنل ہار چکا تھا، اور اب 27 سال بعد ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچا تھا اور وہ بھی اپنے ہوم گراؤنڈ، جسے کرکٹ کا ’’ہوم‘‘ بھی کہا جاتا ہے، وہاں اپنا پہلا ورلڈ کپ جیت گیا، اور اوئن مورگن کی ٹیم نے نئی تاریخ رقم کردی۔ جیت کے بعد پریس کانفرنس میں انگلش ٹیم کے کپتان اوئن مورگن نے کہا کہ ورلڈکپ فائنل میں اللہ اور آئرش لک ہمارے ساتھ تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ان سے ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ ان کی فتح میں ’’آئرش لَک‘‘ کا کتنا کردار تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ انہیں میچ کے دوران عادل رشید نے بتایا تھا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔آئرش لک آئرلینڈ کا محاورہ ہے جس کے معنی انتہائی خوش قسمتی کے ہیں۔ چوں کہ اوئن مورگن آئرلینڈ کے پیدائشی ہیں، اس لیے ان سے یہ سوال کیا گیا۔
نیوزی لینڈ نے ورلڈ کپ مقابلوں میں اب تک 88 میچ کھیلے ہیں جن میں سے 54 میں اسے فتح اور 33 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انگلیڈ نے ورلڈ کپ مقابلوں میں اب تک 82 میچ کھیلے، جن میں سے 48 میں اسے فتح اور 32 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جوفرا آرچر انگلینڈ کی جانب سے ایک ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ثابت ہوئے۔ انھوں نے 19 وکٹیں حاصل کیں۔نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن کو 82 کی اوسط سے 578 رنز بنانے پر ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ پورے ورلڈ کپ میں وہ نیوزی لینڈ کی بیٹنگ کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے۔
یہ فائنل جیسا کہ شروع میں کہا کہ ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے دلچسپ اور سنسنی خیز فائنل تھا۔ لارڈز کے میدان میں نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ پچاس اوورز میں نیوزی لینڈ نے241 رنز بنائے، جس میں ہینری نکولز کے سب سے زیادہ 55 رنز شامل تھے۔ انگلینڈ کی جانب سے لائم پلنکٹ اور کرس ووکس نے تین، تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔جواب میں انگلینڈ کی ٹیم 241 رنز بنا کر اپنی اننگز کی آخری گیند پر آل آؤٹ ہو گئی۔ انگلینڈ کی جانب سے بین ا سٹوکس 84 اور جوز بٹلر 59 رنز بنا کر نمایاں رہے۔میچ ٹائی ہونے پر سپر اوور کروایا گیا، جس میں انگلینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 15 رنز بنائے۔ جواب میں نیوزی لینڈ کے بیٹسمین اپنے سپر اوور میں 15 رنز ہی بنا پائے، اور آخری گیند پر مارٹن گپتل دوسرا رن لیتے ہوئے رن آؤٹ ہوگئے۔ قواعد کے مطابق آخر میں میچ کا فیصلہ دونوں ٹیموں کی جانب سے لگائی گئی باؤنڈریز کی تعداد پر کیا گیا۔ انگلینڈ نے اپنی اننگزمیں 26، جبکہ نیوزی لینڈ نے 17 باؤنڈریز لگائی تھیں، اور اس طرح سپر اوور ٹائی ہونے پر ورلڈ کپ انگلینڈ نے جیت لیا، جس کے بعد سے آئی سی سی اور اس کے قوانین شدید تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سابق انٹرنیشنل کرکٹرز نے بھی باؤنڈریز پر ٹیم کو فاتح قرار دینے کے قانون پر تنقید کرتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق آسٹریلین کرکٹر ٹام موڈی نے کہا کہ میں سپر اوور قانون کے حوالے سے غصے کو سمجھ سکتا ہوں، ورلڈ کپ فائنل کا باؤنڈری کی بنیاد پر فیصلہ متنازع ہے۔ اسی طرح سابق آسٹریلین کھلاڑی ڈین جونز نے کہا کہ نیوزی لینڈ بدقسمت رہا، آئی سی سی کو اپنے قوانین پر نظرثانی کی ضرورت ہے، سپر اوور برابر ہوا تھا تو ایک اور سپر اوور ہونا چاہیے تھا۔ سابق بھارتی کھلاڑی گوتم گمبھیر نے دونوں ٹیموں کو فاتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ ورلڈ کپ فائنل کا فیصلہ باؤنڈریز کی تعداد پر کرنا کسی صورت ٹھیک نہیں۔ بھارت کے سابق آل راؤنڈر یوراج سنگھ نے بھی قوانین سے اتفاق نہیں کیا۔ بریٹ لی نے کہا کہ ورلڈکپ فائنل کا فیصلہ اس طرح کرنا ٹھیک نہیں، اس قانون کو تبدیل ہونا چاہیے۔ اسکاٹ اسٹائرس نے اس موقع پر آئی سی سی کو مذاق قرار دیا۔ تاہم اس سلسلے میں سب سے حیران کن ٹوئٹ نیوزی لینڈ کے کرکٹر جمی نیشام نے کیا، انہوں نے ورلڈ کپ فائنل کے بعد بچوں کو کھیل کو بطور پیشہ نہ اپنانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے بچوں کو مشورہ دیا کہ کھیل کی طرف نہ آئیں، کوئی اور کام کریں اور 60 سال کی عمر میں خوشی خوشی مرجائیں۔
ورلڈ کپ کے دوران کئی مواقع پر ناقص امپائرنگ میچ کے نتائج پر اثرانداز ہوئی اور سیمی فائنل کے بعد فائنل میں بھی خراب امپائرنگ نیوزی لینڈ کو لے ڈوبی۔ نیوزی لینڈ کی اننگز کے دوران روس ٹیلر کو غلط آؤٹ دیا گیا، جبکہ انگلینڈ کی اننگز کی پہلی گیند پر امپائر نے انگلش اوپنر جیسن روئے کو ایل بی ڈبلیو قرار نہ دیا، اور روئے ریویو کے باوجود امپائرز کال پر بچ گئے۔ اسی طرح ورلڈکپ فائنل میں انگلینڈ کو اوور تھرو کے 6 رنز دیئے جانے پر آسٹریلیا کے صفِ اول کے امپائر سائمن ٹوفل نے بھی اعتراض کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قوانین کے مطابق میزبان ٹیم کو 6 کے بجائے 5رنز دیے جانے چاہیے تھے، ان کا کہنا ہے کہ کیوی فیلڈر مارٹن گپتل نے گیند تھرو کی تو بین اسٹوکس اور عادل رشید نے دوسرے رن کے لیے آدھی کریز کراس نہیں کی تھی، یہ رن نامکمل خیال کیا جاتا ہے اور اسٹرائیک بھی تبدیل ہونی چاہیے تھی، دونوں معاملات میں امپائرز سے غلطی ہوئی، تاہم اس انسانی غلطی کو میچ کے نتیجے پر اثرانداز ہونے والا پہلو قرار نہیں دینا چاہیے۔
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر بازید خان کا میڈیا میںکہنا تھا کہ اس بارے میں امپائر غلطی پر تھے، کیونکہ جب مارٹن گپتل نے تھرو کی تھی اُس وقت دونوں بیٹسمینوں نے دوسرے رن کے لیے ایک دوسرے کو کراس نہیں کیا تھا، اور اس صورت حال میں امپائر کو چھ کے بجائے پانچ رنز دینے چاہیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ کے قوانین اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ وہی رن تسلیم کیا جاتا ہے جس میں بیٹسمینوں نے ایک دوسرے کو کراس کرلیا ہو۔ پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ جب تھرو ہورہی ہو اور بیٹسمینوں نے ایک دوسرے کو کراس نہ کیا ہو تو وہ رن نہیں ہوگا، اور فائنل میں جو کچھ ہوا وہ یہی تھا، لیکن اس بارے میں کرکٹ قوانین میں یہ بات واضح طور پر موجود نہیں ہے۔ راشد لطیف کا کہنا ہے کہ 2000ء میں ان کے ساتھ بھی تقریباً اسی طرح کی صورت حال ہوئی تھی کہ وہ بیٹنگ کررہے تھے کہ ایک تھرو ان کے بیٹ سے لگ کر باؤنڈری پر چلی گئی تھی اور امپائر نے چوکا دے دیا تھا کیونکہ وہ بیٹ دانستہ نہیں لگا تھا۔ راشد لطیف کہتے ہیں کہ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ بین اسٹوکس نے دانستہ بیٹ نہیں لگایا جو چوکا ہوا، اگر ایسا ہوتا تو وہ یقینی طور پر آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ یعنی فیلڈ میں رخنہ اندازی پر آؤٹ دے دیے جاتے۔ اب سوال یہ ہے کہ سپر اوور میں اسکور برابر ہونے پر انگلینڈ کو کیوں فائدہ ہوا؟ اس پر بی بی سی نے لکھا ہے کہ ورلڈ کپ کے جو قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے تھے اُن کے مطابق یہ بات پہلے سے طے تھی کہ اگر فائنل ٹائی ہوا تو اس کا فیصلہ سپر اوور کی بنیاد پر ہوگا، ساتھ ہی یہ بات بھی پہلے ہی طے کی جا چکی تھی کہ سپر اوور بھی ٹائی ہونے کی صورت میں فاتح ٹیم کا فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ کس ٹیم نے زیادہ باؤنڈریز لگائی ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں رن ریٹ کے قانون پر بھی خاصی بحث ہوچکی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہ کرسکی۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے گیارہ گیارہ پوائنٹس تھے لیکن رن ریٹ کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کی ٹیم نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا تھا۔ اگرچہ رن ریٹ کی بنیاد پر فیصلے کا طریقہ پہلے سے ورلڈ کپ کے قوانین میں موجود تھا، لیکن شائقین اور بیشتر ماہرین کا یہ خیال تھا کہ چونکہ یہ ورلڈ کپ گروپ میچوں کے بجائے لیگ کی بنیاد پر تھا، لہٰذا اس میں رن ریٹ کے بجائے فیصلہ ہیڈ ٹو ہیڈ نتیجے کی بنیاد پر ہونا چاہیے تھا کہ اگر دو ٹیموں کے پوائنٹس برابر ہیں تو یہ دیکھا جاتا کہ ان کے آپس کے میچ کا نتیجہ کیا تھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ ختم ہوگیا ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے میگا ایونٹ کے لیے ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔ اتوار کو فائنل کے اختتام پر انگلینڈ نے بطور عالمی چیمپئن 40لاکھ ڈالر کا چیک وصول کیا، تاہم اسے رائونڈ میچز اور سیمی فائنل کی فتح کی بدولت مجموعی طور پر 42 لاکھ 40 ہزار ڈالر ملے۔ فائنل کی رنرز اپ نیوزی لینڈ نے دوسرے نمبر پر آنے کی بدولت 20 لاکھ اور مجموعی طور پر 22 لاکھ 20 ہزار ڈالر سمیٹے۔ بھارت نے تیسری پوزیشن حاصل کی، اس کے حصے میں کُل ملاکر 11لاکھ ڈالر آئے۔ نمبر چار پر آسٹریلیا رہا، اس کے اکائونٹ میں 10لاکھ 80 ہزار ڈالر جمع ہوئے۔ پانچویں نمبر کی ٹیم پاکستان نے 3لاکھ 20 ہزار، سری لنکا نے 2 لاکھ 60 ہزار، جنوبی افریقہ نے 2 لاکھ 40 ہزار، بنگلہ دیش نے 2 لاکھ 40 ہزار، ویسٹ انڈیز نے 2 لاکھ ڈالر انعام میں پائے۔ افغانستان کو ایک لاکھ ڈالر دیے گئے۔
جو بھی ہو، اب انگلینڈ قوانین کے مطابق فاتح ہوگیا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کی یہ جیت کرکٹ کی دنیا میں متنازع ضرور بن گئی ہے، اور کرکٹ جاننے والے اور اس کی باریکیوں پر نظر رکھنے والے جہاں کئی سوالات اٹھا رہے ہیں وہاں یہ بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ آئی سی سی اپنے قواعد میں تبدیلی لائے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس پر بہت بحث ہورہی ہے، لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان قوانین سے تو گلی میں کھیلی جانے والی کرکٹ کے قواعد اچھے ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان اور اس کے اربابِ اختیار کے لیے بھی اس ورلڈ کپ کے بعد بہت کچھ سوچنے اور کرگزرنے کے لیے ہے کہ ورلڈ کپ کی بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل 12 رکنی ٹیم کا اعلان کردیا گیا ہے اورٹیم میں کوئی پاکستانی کھلاڑی شامل نہیں ہے،جب کہ بنگلادیش کے آل راؤنڈر شکیب الحسن شامل ہیں۔