ٹی وی اینکر کیوں اور کیسے قتل ہوا؟ سرمایہ کاری کے لیے اربوں روپے کہاں سے آئے؟۔

نیوز اینکر مرید عباس اور اُن کے ساتھی کا قتل جرائم کی دنیا کا ایک ایسا باب ہے جس پر بہت کچھ لکھا جانا چاہیے۔ ماہرین نفسیات، سماجی امور کے ماہرین اور خود میڈیا انڈسٹری سے وابستہ افراد کو بھی اس واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے۔ بلاشبہ آج کا میڈیا ماضی جیسا نہیں رہا۔ ماضی میں یہ مشن تھا۔ روزنامہ زمیندار کئی بار بند ہوا، کئی بار بحال ہوا، مگر بحالی کے لیے جرمانہ مولانا ظفر علی خان نے کبھی نہیں دیا، انگریز اور ہندو سامراج کے جرمانے کی ادائیگی خود مسلمان رقم اکٹھی کرکے کرتے تھے تب جاکر اخبار کی چھپائی کے لیے پریس بحال ہوتا تھا۔ مگرآج کا میڈیا گلیمر بن چکا ہے، جس میں اب پیسے کی بہت ریل پیل ہے۔ میڈیا کا شعبۂ نیوز ایک جانب رکھ دیں، میڈیا انڈسٹری کے دوسرے تمام شعبے شو بز بن چکے ہیں، جہاں فیشن، پیسہ، شہرت، سماجی عزت اور برتری سب کچھ ہے۔ اگر مقتول اینکر مرید عباس کا تعلق میڈیا انڈسٹری سے نہ ہوتا تو شاید یہ واقعہ بھی معمول کے ایک قتل کا واقعہ بن کر جرائم کی کہانیوں میں کہیں گم ہوجاتا۔ یہ شوبز میڈیا انڈسٹری کی وجہ سے ہائی ویلیو کیس بن چکا ہے۔
اس واقعے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اینکر مرید عباس اور ان کے دوست لین دین کے تنازعے پر اپنے ہی ایک دوست کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ موت برحق ہے جو کسی کو کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ اینکر سمیت دو افراد کی موت کا بہت دکھ ہے، لیکن سو فیصد نجی تنازعے کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دینا مناسب نہیں۔ اس قتل کے ردعمل میں میڈیا پرسنز کی جانب سے پاکستان بھر کے پریس کلبوں پر سیاہ جھنڈے لہرانے کے اعلانات بھی تشویش پیدا کررہے ہیں۔ میڈیا پرسنز اور غم زدہ خاندانوں کو مفاد پرستوں سے بچنا چاہیے۔ یہ اس لیے بھی بہتر ہے کہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے اربوں روپے کہاں سے آئے؟ غیر تربیت یافتہ اور پیرا شوٹرز میڈیا پرسنز نے وہ تمام پیغامات جو پھیلائے تھے اب آہستہ آہستہ غائب کرنا شروع کردیے ہیں۔
عاطف زمان اور اینکر مرید عباس کا باہمی تنازع ایک کاروباری تنازع ہے، لیکن اس میں سبق بھی ہے اور آئندہ کے لیے رہنمائی بھی۔ یہ مشترکہ کاروبار ہی تھا کہ بزنس پارٹنر میڈیا پرسن اپنے کاروباری دوست عاطف زمان کا ہر مشکل میں ساتھ دیتا تھا۔ اینکر قتل لگ بھگ 300 کروڑ روپے کی کہانی ہے۔ عاطف ایک معمولی ملازم تھا، ٹائروں کا کاروبار کرنے والی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا، وہاں سے فارغ کیا گیا تو اپنے روابط استعمال کرتے ہوئے کاروبار شروع کردیا۔ اس نے ابتدائی طور پر دس لاکھ روپے پر پچاس ہزار روپے منافع دینا شروع کیا، جب کاروبار مستحکم ہوگیا تو اینیفیٹی کے نام سے ایک کمپنی بنالی جس کے لیے ایک بینکر میاں بیوی اس کے کام آئے۔ ملزم عاطف زمان کا تفصیلی بیان ریکارڈ کرلیا گیا ہے، ملزم نے 50 کروڑ روپے کی ہیرپھیر کی ہے جبکہ قتل کی وارداتوں کا بھی اعتراف کرلیا ہے۔ معاملہ کروڑوں کا ہے، فراڈ 5 لاکھ سے شروع ہوا، لوگ منافع کے لالچ میں جُڑتے گئے، جبکہ عاطف کا کوئی بزنس بھی نہیں تھا۔ یہ معاملہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دو سے ڈھائی ارب کا ہوسکتا ہے۔ 20کروڑ روپے کے لین دین کا معاملہ دہرے قتل کی وجہ بنا۔ ملزم نے ڈبل شاہ طرز پر فراڈ سے رقم حاصل کی۔ ملزم عاطف زمان ماضی میں بہت مشکل زندگی گزار رہا تھا، اچانک اس کے پاس پیسے اور فلیٹ ممکنہ طور پر اسی رقم سے آئے۔ وہ ایک جگہ سے پیسے لے کر دوسری جگہ دیتا رہا، مزید کلائنٹس آنا بند ہوئے تو ملزم پھنستا چلا گیا۔ ملزم عاطف جب میٹرک میں فیل ہوا تب بھی اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔گرفتاری اب تک صرف عاطف کی ہوئی ہے، ملزم کا بھائی بھی جلد گرفتار ہوجائے گا۔ ملزم نے سرمایہ کاری ضرور کررکھی تھی، کاروبار کوئی نہیں تھا۔ ملزم چند سال قبل تک 15ہزار روپے کے عوض ڈرائیور کی نوکری کرتا تھا۔ اسمگل شدہ ٹائروں کی کھیپ پکڑے جانے پر 3 ماہ سے منافع بند تھا۔ سرمایہ کاروں نے تنگ کرنا شروع کیا تو ملزم نے پیسہ واپس مانگنے والوں کو دفتر بُلاکر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ملزم عاطف زمان نے مرید عباس اور خضرحیات سمیت 5 افراد کو فون کیا، 3 اس کے جھانسے میں آکر دفتر پہنچے، 2 مارے گئے، جبکہ عمر ریحان فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ پولیس نے ملزم کے کال ریکارڈ سے 35 افراد کی تفصیلات حاصل کی ہیں۔ قتل کی اس واردات میں عاطف زمان کا بھائی عدنان زمان بھی ملوث ہے۔
چار سال قبل 2015ء میں ایک پارٹی میں مرید عباس کی ملاقات عاطف زمان سے ہوئی۔ عاطف زمان کشمیر کالونی کا رہائشی ہے لیکن بڑے سرمایہ داروں سے انتہائی متاثر ہے، لہٰذا بزنس کے لیے ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں منتقل ہوا، ادھار پر مہنگی ترین گاڑی خریدی۔ ابتدا میں عاطف زمان نے ٹائروں کا کاروبار کرنے والے تاجروں سے تعلقات بڑھائے اور غیر معمولی منافع کی ترغیب پر واقف کاروں سے پیسے اکٹھے کیے اور ٹائروں کے کاروبار میں لگا دیے۔ ٹی وی چینل کے اینکر مرید عباس نے ابتدا میں عاطف زمان کو 10 لاکھ روپے دیے۔ عاطف نے پہلے کم اور پھر زیادہ منافع دینا شروع کردیا۔ مرید عباس بہت ملنسار تھے، کاروبار میں منافع ہوا تو زندگی میں بھی تبدیلی آگئی، ڈیفنس کے چائے خانوں میں دوستوں کی محفلیں بڑھ گئیں، مرید عباس نے اپنے دوستوں کو بھی ترغیب دی کہ عاطف زمان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کریں۔ ایک سال بعد ہی 2016ء میں مرید عباس کے متعدد دوست بھی اس سرمایہ کاری میں شامل ہوئے، ان میں سماء، اے آر وائی، جیو، بول اور اب تک کے نیوز اینکرز ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں، ان دوستوں نے 60 کروڑ روپے عاطف زمان کے سپرد کیے۔ مرید عباس کے ساتھ قتل ہونے والا خضر حیات میڈیا انڈسٹری سے وابستہ نہیں، بلکہ جھنگ کا رہنے والا تھا، ایک زمیندار خاندان سے اس کا تعلق تھا، بنیادی طور پر اراضی کے لین دین اورتعمیرات کا کام کرتا تھا۔ اس نے دس کروڑ روپے اس سرمایہ کاری میں لگائے۔
میڈیا پرسنز سے دوستی بڑھی توعاطف زمان بھی کھل کر فرنٹ فٹ پر آگیا۔ اس کہانی میں اب نیا موڑ آیا کہ عاطف زمان نے ٹائروں کے اسمگلروں سے رابطہ کیا، اور یوں پڑوسی ممالک سے بھی اسمگل شدہ ٹائر کراچی پہنچنا شروع ہوگئے، جس کے بعد عاطف زمان کا مقامی مارکیٹ میں اثر بڑھ گیا اور ٹائروں کے بڑے تاجروں کو بھی اُدھار میں ٹائر دینا شروع کردیے۔ یوں کاروبار خوب چل پڑا تو پراپرٹی میں انویسٹمنٹ شروع کردی اور نئے ماڈل کی گاڑیاں رکھنا بھی معمول بن گیا۔ عاطف زمان ہر دو سے تین ماہ بعد میڈیا سے وابستہ افراد کو مناسب منافع دیتا رہا، جس کے بعد چار نیوز اینکرز نے بحریہ ٹائون کے پلاٹ اور ڈیفنس کے فلیٹ فروخت کرکے مزید سرمایہ کاری کی۔ اب 60 کروڑ سے رقم بڑھی اور 90 کروڑ تک پہنچ گئی۔ یہاں کہانی میں ایک موڑ آتا ہے کہ عاطف کے لیے ٹائر لانے والے لوگ پکڑے جاتے ہیں۔ اس کا کم و بیش بیس کروڑ روپے کا مال پکڑا گیا، لیکن میڈیا کے اثر رسوخ کو استعمال کرکے پانچ کروڑ روپے کی ڈیل سے مال چھڑا لیا گیا۔ پانچ کروڑ کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے عاطف زمان نے اپنے انویسٹرز کو منافع دینا بند کردیا۔ چونکہ یہ لین دین کسی لکھت پڑھت اور تحریری دستاویزات کے بغیر تھا لہٰذا سرمایہ لگانے والوں کی پریشانی بڑھ گئی اور انہوں نے اصل رقم واپس کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ حال ہی میں حکومت نے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تو اس کاروبار میں شریک افراد نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تاکہ پیسہ وائٹ کرلیا جائے، اسی لیے انہوں نے عاطف زمان پر رقم کی واپسی کے لیے دبائو بڑھانا شروع کردیا۔ اس صورت حال سے عاطف زمان پریشان ہوا تو اُس نے اس کاروبار میں پیسہ لگانے والے اپنے تمام دوستوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اپنے فیصلے پر عمل درآمد سے قبل اپنے گھر والوں کو پنجاب منتقل کیا، مرید عباس، خضر حیات اور ایک خاتون سمیت تین نیوز اینکرز کو الگ الگ مقام پر بلایا، گھر سے اسلحہ اور گولیوں کا پیکٹ اٹھایا اور دفتر پہنچ گیا۔ پہلے مرید عباس پر گولیاں برسائیں اور دفتر کے قریب انتظار کرنے والے خضر حیات کو بھی قتل کردیا۔ اس کے بعد عاطف زمان خیابانِ نشاط میں واقع اپنے گھر پہنچا، اسی اثناء میں پولیس پارٹی عاطف کے گھر پہنچ گئی۔ عاطف نے سینے پر پستول رکھی اور گولی مار لی۔
پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق یہ 300 کروڑ روپے کا معاملہ ہے، اس میں سرمایہ کاروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ نیوز اینکر مرید عباس کے قتل کے معاملے میں پولیس نے عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کرلیے ہیں، جن کے مطابق ملزم عاطف زمان جائے وقوع پر بھی فون پر کسی سے رابطے میں تھا۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق جائے وقوع پر عاطف اور مرید کے مزید دوست بھی موجود تھے۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق جائے وقوع کی جیو فینسنگ کروائی گئی، عمارت کے اندر اور باہر سے گولیوں کے 4 خول ملے ہیں، جنہیں فرانزک کے لیے بھجوایا گیا ہے۔ ملزم نے بھاگنے کی کوشش کرنے والے خضر حیات پر چلتی ہوئی گاڑی سے فائرنگ کی تھی۔ عاطف زمان کے فرار ہونے پر پولیس کو 15 پر کال موصول ہوئی، پولیس نے عاطف کی لوکیشن ٹریس کی اور اس کے گھر پہنچی تو ملزم نے خود کو گولی مارلی۔
مقتول مرید عباس اور ملزم عاطف زمان ایک ہی عمارت میں رہتے تھے۔ اس کہانی کا دوسرا پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ عاطف نے 40میڈیا پرسنز سے رقم ہتھیائی، 5کے قتل کا منصوبہ بنایا، منصوبے کے مطابق مرید عباس اور خضر حیات کو قتل کیا۔ تقریباً 40میڈیا پرسنز نے اپنی رقم ملزم کے پاس انویسٹ کر رکھی تھی۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق وہ خود بھی خودکشی کرنا چاہتا تھاتاہم حتمی بات تحقیقات مکمل ہونے پر کہی جاسکے گی۔