کرکٹ ورلڈ کپ جسے اہلِ عرب ’کاس العالم‘ کہتے ہیں، کا بخار خوب چڑھا اور اب اتار پر ہے۔ تاہم ابھی کچھ دن ذرائع ابلاغ میں چرچا رہے گا۔ ’کاس‘ عربی میں پیالے، کٹورے یا گلاس کو کہتے ہیں۔ اس کی ایک شکل ’کاسہ‘ اردو میں عام ہے، مثلاً کاسۂ سر، کاسۂ گدائی وغیرہ۔ میرتقی میرؔ کا پیر کسی کاسۂ سر پر جا پڑا تھا تو اُس نے میر صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’میں بھی کبھو کسوکا سرِ پُر غرور تھا‘‘۔ کھوپڑیوں سے گفتگو کرنا شاعروں کا کمال ہے۔ ’کاسہ‘ فارسی کا لفظ ہے۔ ایک ترکیب ’کاسۂ چشم‘ بھی ہے، یعنی آنکھوں کا حلقہ۔ آسمان کو بھی کنایتہً ’کاسہ پشت‘ کہتے ہیں کیونکہ دیکھنے میں یہ اوندھے پیالے کی طرح ہے۔ ضعف سے جن کی کمر جھک جائے انہیں بھی کاسہ پشت کہتے ہیں۔ قمر جلالوی نے اس کی توجیہ کی ہے کہ:
پیری میں خم کمر میں نہیں ضعف سے قمرؔ
میں جھک کے دیکھتا ہوں جوانی کدھر گئی
جوانی کا سراغ ملا یا نہیں، اس کے بارے میں راوی خاموش ہے۔ ایک ترکیب یا صفت کاسہ باز کی ہے، جس کا مطلب ہے: بازی گر، جو کاسہ سے کھیل کرتے ہیں۔ کنایتہً حیلہ گر، مکار کو کہتے ہیں۔ ’کاسہ لیس‘ کی ترکیب بھی عام ہے جس کا مطلب ہے: جھوٹے برتن چاٹنے والا، خوشامدی، لالچی، فقیر وغیرہ۔ ایک مطلب ہے: کسی سے فیض حاصل کرنے والا۔ شاد عظیم آبادی کا مصرع ہے ؎
جو ہے ہم کاسہ لیسوں کا مکاں بھی
کاسہ لیسی بہت ہوگئی، ہم کاس العالم کے حوالے سے کوئی اور بات کرنا چاہ رہے تھے۔ پیر 15جولائی کو اس کے حوالے سے جسارت میں جو سپر لیڈ شائع ہوئی ہے اس میں ایک بڑا چشم کشا جملہ ہے ’’انگلینڈ شومی قسمت سے ورلڈ کپ جیت گیا‘‘۔ خبر پڑھتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ فاضل سب ایڈیٹر کو ’شومی قسمت‘ کا مطلب ہی نہیں معلوم۔ اس کی تصدیق دفتر جاکر ہوگئی جب موصوف نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے خوش قسمتی۔ نیوز ایڈیٹر نے بھی خبر تو دیکھی ہوگی۔ چارۂ دل سوائے صبر نہیں۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب ایسی کسی ایک غلطی پر اودھم مچ جاتا تھا۔
لیکن یہ شومی قسمت ہے کیا؟ چلیے، لغت دیکھتے ہیں جس کا مشورہ ہم اپنے ساتھیوں کو دیتے رہتے ہیں، لیکن شاید لغت دیکھنے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ جہالت آشکار ہوگی۔ حالانکہ لغت پڑھے لکھے لوگ ہی دیکھتے ہیں، جاہل کیوں دیکھے گا! لغت کے مطابق ’شومئی‘ شُوم بروزن رُوم سے اسم کیفیت ہے۔ عربی میں ’شوم‘ بمعنی بدفالی تھا۔ اہلِ فارس نے منحوس کے معنوں میں استعمال کیا۔ دیگر معانی کنجوس اور بخیل ہیں۔ ایک محاورہ ہے ’’سخی سے شوم بھلا جو ترنت دے جواب‘‘۔ یعنی ایسا سخی جو کچھ دینے میں ٹال مٹول کرے، آسرا دیے رکھے، اس سے کہیں بہتر وہ کنجوس ہے جو جھٹ انکار کردے۔ فارسی میں ایک اصطلاح ’شوم قدم‘ ہے یعنی جس کا قدم منحوس ہو۔ اردو میں جانے کیوں اسے سبز قدم کہتے ہیں۔ سبز تو بہار کی علامت ہے۔ اب اگر کسی کے قدم پڑنے سے بہار آجائے، سبزہ تروتازہ ہوجائے تو برائی کیا ہے! بہرحال محاورہ، محاورہ ہے، ہم کیا کرسکتے ہیں۔
شُوم سے شومی (مونث) ہے جس کا مطلب ہے: بدبختی، نحوست۔ شومی بخت، شومی طالع، شومیِ تقدیر، شومیِ قسمت وغیرہ۔ مذکورہ مقابلے میں تو شومی قسمت کا شکار نیوزی لینڈ ہوا، نہ کہ انگلستان۔ اس کے لیے ’خوبیِ قسمت‘ کہا جانا چاہیے تھا، اور نیوزی لینڈ پر یہ مصرع صادق آتا ہے ؎
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
اس مصرع میں شیخ محمد معین قریشی نے اصلاح کی ہے جو اس وقت ذہن میں نہیں۔
ہمارے ایک ساتھی تَلَخ بروزن حلق کہے جارہے تھے۔ ہم نے ان کو ٹوکا تو اسی وقت ٹی وی پر معاونِ خصوصی برائے اطلاعات کی پریس کانفرنس چل رہی تھی جو بار بار تَلخ (ت لخ) کہہ رہی تھیں۔ موصوف نے کہاکہ دیکھیں اطلاعات کی معاونِ خصوصی کہہ رہی ہیں تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی، تمام ذرائع ابلاغ کی وزیر ہیں، ان کی بات سند ہے۔ بات تو ٹھیک ہے، لیکن ’تلخ‘ میں ’ل‘ ساکن ہے، اور اس کا وزن بلخ ہے، بشرطیکہ کوئی اسے بھی ب۔ لخ نہ کہتا ہو۔ رہی بات ہماری بہت محترم خاتون معاونِ خصوصی کی، تو وہ جَڑی اور جُڑی میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتیں۔ تلخ اور تَلخ تو تلفظ کا مسئلہ ہے، چنانچہ جیسے چاہیں تلخی گھولیں، مگر جَڑی (ج پر زبر) اور جُڑی (ج پر پیش) تو دو الگ الفاظ ہیں اور ان کا مطلب بھی الگ الگ ہے۔ کچھ صحافیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ’’ان کی دال روٹی اس خاندان کے ساتھ جَڑی ہوئی تھی‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ انہیں جَڑی اور جُڑی کا فرق نہیں معلوم۔ تھپڑ جَڑا جاتا ہے، انگوٹھی میں نگینہ جَڑا جاتا ہے، اور جُڑنا بالکل الگ بات ہے جیسے کہا گیا ’’جو مجھ سے کٹے میں اُس سے جُڑوں‘‘۔ تھوڑا بہت پڑھ لکھ لینے میں کوئی حرج ہے نہ ہرج۔ یہ نہ سہی تو پڑھے لکھوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔ جواہرات سے جَڑا ہوا زیور جڑائو کہلاتا ہے، جُڑائو نہیں۔ آتش: کا شعر ہے:
چھلّے جڑائو رکھتے ہیں وہ پور پور میں
دکھلا رہے ہیں ہم کو جواہر نگار ہاتھ
جَڑنا کا فعل متعدی ہے جڑوانا۔ اور جُڑنا (بالضم) کا مطلب ہے: پیوند ہونا، ملنا، پیوست ہونا، چپکنا، چسپاں ہونا، شامل ہونا، شریک ہونا، جمع ہونا، اکٹھا ہونا… جیسے سارا کنبہ جُڑگیا، پیسے جوڑنا، میسر ہونا، جیسے ’’تم کو روٹی کپڑا نہیں جُڑتا تو شادی کیوں کی؟‘‘ جُتنا کا مطلب ہے: گاڑی وغیرہ میں بیلوں کا لگنا۔ جَڑنا اور جُڑنا دونوں ہندی کے الفاظ ہیں۔ ذوقؔ کا شعر یاد آگیا:
کہتا رہا کچھ ان سے عدو دو گھڑی تلک
غماز نے کچھ اور جَڑی دو گھڑی کے بعد
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو جُڑواں کا مطلب تو معلوم ہوگا۔ کسی زمانے میں کلینک چلاتی رہی ہیں۔