کرتار پور راہداری، مذاکرات کا دوسرا دور بھی بے نتیجہ

پاکستانی وفد نے واہگہ میں ’’امن کا پودا‘‘ لگایا مگر بھارتی وفد شریک نہیں ہوا

کرتار پور راہداری پر پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کا ایک اور دو ر بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ مذاکرات کا یہ دور لاہور سے ملحقہ واہگہ کی سرحد پر اتوار 14 جولائی کو منعقد ہوا جس کی میزبانی پاکستان نے کی اور اس میں تیرہ رکنی پاکستانی وفد کی قیادت دفتر خارجہ کے ترجمان اور جنوبی ایشیاء و سارک سے متعلق امور کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد فیصل نے کی جب کہ آٹھ رکنی بھارتی وفد جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ ایس سی ایل داس کی قیادت میں مذاکرات میں شریک ہوا…!!!۔
کرتار پور راہداری کھولنے کے معاملہ کا آغاز گزشتہ برس وزیر اعظم عمران خاں کی تقریب حلف برداری کے موقع پر ہوا تقریب میں بھارتی پنجاب کے سکھ کانگریسی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کی پاکستان کی مسلح افواج کے سپہ سالار اعلیٰ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے تحت سکھوں کے مقدس مقام کرتار پور تک رسائی دینے کے لیے راہداری کھولنے کا عندیہ دیا جو سکھ برادری کے لیے عظیم خوش خبری سے کم نہ تھاتاہم بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی کی حکومت نے اس معاملہ میں حتی الامکان روڑے اٹکائے اور نوجوت سنگھ سدھو کو بھی بھارتی حکومت اور انتہا پسند ہندو اکثریت کی شدید اور تندو تیز تنقید کا سامنا کرنا پڑا تاہم موثر سکھ برادری کو ناراض کرنا بھی بھارتی حکومت کے لیے آسان نہیں تھا یوں کرتار پور راہداری کھولنے کی یہ پیشکش بھارتی حکمرانوں کے لیے ایک ایسی چھچھوندر ثابت ہوئی جسے وہ نگل سکتے تھے اور نہ اُگل سکتے تھے چنانچہ خاصے لیت و لعل اور جس قدر ٹال مٹول ممکن تھی، کے بعد بی جے پی کی مودی حکومت کے لیے راہداری کھولنے کی اس پیشکش کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا تو اس معاملہ پر بات چیت کا آغاز کیا گیا اور دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کا پہلا دور 14 مارچ 2019ء کو واہگہ سرحد ہی سے ملحقہ بھارتی سرزمین پر اٹاری کے مقام پر ہوا جس میں پاکستانی دفتر خارجہ کے 18 رکنی وفد نے ڈاکٹر محمد فیصل ہی کی قیادت میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان مذاکرات میں ابتدائی نوعیت کے امور پر بات چیت ہوئی اور بات چیت کا دوسرا دور اپریل میں کرنے پر اتفاق کیا گیا پاکستان اس کے لیے مکمل طور پر تیار تھا مگر بھارت نے اپنے یہاں عام انتخابات کا جواز بنا کر حسب عادت مذاکرات کو ملتوی کر دیا یہ وہی ملتوی شدہ مذاکرات تھے جو 14 جولائی 2019ء کو پاک سرزمین پر ہوئے…!!!۔
مذاکرات کا یہ دور اگرچہ بے نتیجہ اختتام پذیر ہوا تاہم پاکستانی وفد کے سربراہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے حسب معمول خاصا مثبت طرز عمل اپنایا اور بتایا کہ کرتار پور راہداری کھولنے کے حوالے سے بھارت کے ساتھ مذاکرات میں 80 فیصد سے زائد اتفاق رائے ہو گیا ہے جو کہ بڑی مثبت پیش رفت ہے ہم نے امن کا پودا لگا دیا اور شاید اس حوالے سے ایک آدھ میٹنگ اور کرنا پڑے گی وزیر اعظم عمران خان کا ویژن ہے کہ کرتارپور راہداری کا مقصد ہی امن کی راہداری ہے، ہم اپنے اختلافات ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ اسی طرف ایک کاوش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارتی وفد کو بھی میڈیا سے گفتگو کی دعوت دی تھی تاہم ان کے پاس وقت نہیں تھا وہ چلے گئے تاہم ہم نے امن کا پودا لگا دیا ہے۔ کوشش جاری ہے اور کافی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا کا تصدیق شدہ اصول ہے کہ جب تک ہم کسی حتمی معاہدے تک نہیں پہنچ جاتے ہیں اس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کر سکتے…!!!۔
پاکستان کی جانب سے راہداری کھولنے کے لیے جس گرم جوشی کا مظاہرہ اور جس قدر تیز رفتاری سے کام کیا جا رہا ہے اس کا احوال کچھ یوں ہے کہ کرتار پور راہداری کی تعمیر کا کام آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے زیرو پوائنٹ سے دربار اور شکر گڑھ نارووال روڈ تک سڑک، انٹری گیٹ اور رہائشی عمارتوں کا 90 فیصد کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن سے قبل پاکستان کی جانب سے کرتار پور راہداری کھولنے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے دربار کے 2 داخلی دروازے اور تالاب مکمل کر دیے گئے ہیں۔ لنگر خانہ مہمان خانہ، ایڈمن بلاک اور رہائش کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ سیلابی پانی سے بچائو کے لیے بنائے گئے حفاظتی بند پر پتھر لگائے جا رہے ہیں، بابا گورونانک سے وابستہ زرعی رقبے کی بحالی کے ساتھ ساتھ پائوڈر ٹرمینل اور پارکنگ ایریا کا کام تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔
کرتار پور راہداری کھولنے کے سلسلے میں پاکستان کا جذبہ خیر سگالی اور کاوشیں اپنی جگہ کتنی بھی مثبت اور نیک نیتی پر مبنی کیوں نہ ہوں مگر بھارتی حکومت کا رویہ روایتی ہندو ذہنیت کا آئینہ دار اور ’بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام‘‘ کا عکاس ہے۔ جس کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے میں آئی جب مذاکرات کے دوسرے دور کے اختتام پر واہگہ میں پاک سرزمین پر ’’امن کا پودا‘‘ کا مرحلہ آیا تو بھارتی وفد کے ارکان اس میں شریک نہیں ہوئے اور خاموشی سے امن سے وابستگی کے اظہار کی اس روایت کا حصہ بنے بغیر موقع سے کھسک گئے… جذبہ خیرسگالی یقینا بہت اچھی چیز ہے مگر زیادتی کسی بھی چیز کی ہو برائی بن جاتی ہے خصوصاً اس طرح کی خیر سگالی کہ آپ کا ازلی و ابدی دشمن اسے آپ کی کمزوری پر محمول کرنے لگے ،بہرحال ہمیں یہ مطلوب و مقصود ہے اور نہ یہ کسی آزاد، باوقار و خود مختار قوم کے شایان شان ہے… کرتار پور راہداری کے بارے میں ہماری پالیسی سازوں کو یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیںکرنا چاہیے کہ یہ معاملہ اب جس نہج پر پہنچ چکا ہے، بھارت اس آسانی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ سکھ برادری کے لیے راہداری کا یہ منصوبہ اب بھارت کی مجبوری اور ضرورت بن چکا ہے اس لیے اب پاکستان کو خواہ مخواہ کی بھارت کی نازبرداریوں اور اس کے سامنے بچھے چلے جانے کی قطعاً ضرورت نہیں… بلکہ ہمارے وزیر اعظم عمران خاں اگر پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست کے نمونہ پر استوار کرنے کے اپنے اعلانات میں واقعی سنجیدہ میں تو ریاست مدینہ کے حکمت کار رسول آخر الزمان حضرت محمدؐ کی حکمت عملی سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اس موقع پر ایسی ٹھوس حکمت عملی وضع کرنا چاہیے کہ بھارتی حکمرانوں کو بھارت کے اندر بسنے والے مسلمانوں اور خصوصاً کشمیر کے مظلوم، بے بس اور بے کس مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ ختم کرنے اور حق خود ارادیت کے بین الاقوامی وعدے پر عملدرآمد مجبور کیا جا سکے… بھارت اگر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا روپ دینے کے لیے اپنی مسلح افواج اور مکتی باہنی کو کھلے بندوں استعمال کر سکتا ہے جس کا موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی نے اپنے دورۂ ڈھاکہ کے دوران بڑے فخر سے اعتراف و اظہار کیا تو ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے تحفظ و سلامتی اور آزادی کے لیے آواز بلند کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے میں بے عملی اور لاتعلقی کا رویہ آخر کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟… اے کاش! پاکستان کے حکمت کار اس ضمن میں اپنی بھاری ذمہ داریوں کا احساس کر سکیں…!!!۔