پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹریک ٹو کی ویران راہداریوں میں معمولی سی چہل پہل، اور تعلقات کے خزاں گزیدہ شجر کی ٹہنیوں میں تازگی کے آثار اُس وقت دیکھے گئے جب ایک امریکی تھنک ٹینک یو ایس ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام دونوں ملکوں کے نوجوانوں کے درمیان تعلقات کی نئی راہوں کی تلاش کے لیے مذاکرات کے آغاز کی خبریں سامنے آئیں۔ اس سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ پاک بھارت معاملات میں بظاہر تھک کر بیٹھ جانے والے امریکی دوبارہ ماضی کے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے کے حوالے سے سرگرم اور پُرجوش ہورہے ہیں۔ نوجوانوں کی یہ محفل اس لحاظ سے قطعی غیر سرکاری نہیں تھی کہ اس میں وزارتِ خارجہ کے حکام بھی کسی نہ کسی سطح پر شریک تھے۔ یہ کشیدگی کے ایک بھرپور دور کے بعد ٹریک ٹو مذاکرات کی اعلانیہ اور انسانی نظروں اور کیمروں کے آگے پہلی باضابطہ سرگرمی ہے۔کشیدگی کے رواں عرصے میں اوّل تو ٹریک ٹو مذاکرات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اگر کہیں ایسے مذاکرات ہوئے ہوں تو وہ میڈیا کی نظروں سے بہت اوجھل کسی تیسرے ملک میں منعقد ہوئے ہوں گے۔ اسلام آباد میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی سرگرمی تھی۔ ٹریک ٹو مذاکرات کی یہ کوشش پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں نئے سیاسی مناظر تشکیل پانے کے بعد ہونے والی سرگرمی تھی۔
بھارت میں نریندر مودی دوسری بار پوری قوت سے انتخابات جیت کر آئے ہیں۔ دو سال سے نریندر مودی پر دوسری بار وزیراعظم بننے کی دھن سوار تھی اور وہ اسی خواہش اور خواب کے تحت فیصلوں کے قیدی ہوکر رہ گئے تھے۔ پاکستان اس مہم کا مرکزی نکتہ اور خیال تھا، اور پاکستان کے ساتھ دشمنی کا تاثر اس مہم کی کامیابی کا ضامن تھا، اور یہی ہوکر رہا۔ دوسری بار جیتنے کے بعد مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ اُن کے تعلقات کی گرم جوشی میں کچھ کمی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان میں عمران خان کی صورت میں ایک ایسی قیادت سامنے آئی ہے جو ایک طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہے، تو دوسری طرف اس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان کی اقتصادیات کا سدھار ہے۔ خود اسٹیبلشمنٹ بھی ماہ وسال کے خوفناک تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت کی بہتری کو اوّلین ترجیح بنایا جائے۔ اس کے بغیر دفاعی تصورات اور منصوبے قطعی بے معنی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد بار بار نریندر مودی کو مذاکرات کی میز تک کھینچ لانے کی کوشش کی۔ عمران خان کو باربار کی مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے ایک صفحے پر ہونے کی سہولت حاصل تھی۔ ماضی میں سول ملٹری کشمکش کے تاثر نے دونوں طرف شک اور خوف کی فضا پیدا کی ہوئی تھی۔ اس شک اور خوف کی فضا میں جونہی پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی قدم اُٹھتا تھا اس کے ساتھ ہی چیلنجز بھی زمین سے اُگنے اورآسمان سے ٹپکنے لگتے تھے۔ خود بھارتی حکمران بھی پاکستان کے حکمرانوں سے کسی ملک کے سربراہ کی طرح کھلے انداز میں معاملات طے کرنے کے بجائے ذاتی دوستیوںکی کمند پھینک دیتے تھے۔ اس سے پاکستان میں طاقت کے مختلف مراکز میں داخلی کشمکش تیز ہوجاتی تھی۔ ایسے حالات میں اسلام آباد میں برپا ہونے والی محفل تعلقات کی بنجر زمین پر بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اس نوعیت کی محفلوں کی حیثیت علامتی ہوتی ہے اور اس محفل کا انعقاد بھی اس بات کی علامت ہے کہ آنے والے دنوں میں ویزے اور پاسپورٹ کی پابندیوں میں نرمی کے ساتھ اس انداز کی اور محفلیں بھی منعقد ہوتی رہیں گی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دونوں ملکوں میں تعلقات میں نمایاں اور تیز رفتار بہتری آئے گی، لیکن بہرطور اسے تعلقات کی بہتری کی طرف کھلنے والی ایک کھڑکی کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان ابھی تک بھارتی جہازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کیے ہوئے ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ بھارتی جنگی جہاز سرحدوں کی جانب تیار کھڑے ہیں۔ یہ جہاز معمول کی طرف اور معمول کے مقام پر لوٹ جائیں گے تو پاکستان کو صورت حال معمول پر ہونے کا یقین آئے گا۔ اسی طرح سری نگر مظفر آباد بس سروس137روزسے، اور ٹرک سروس 127روز سے بند ہے، اور بھارتی حکام اس سروس کو بحال کرنے کے لیے حیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں۔ یہ ٹرک اور بس سروس بھی دوہزار کی دہائی میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی ہی کا نتیجہ تھی۔ یہ تو خیر بہت چھوٹے مسائل ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان ہمالیہ جیسے مسائل بھی موجود ہیں جن کے سامنے ٹریک ٹو جیسی کوششوں میں سورج اور چراغ کا تناسب اور تفاوت ہے۔ ایسے میں ٹریک ٹو مذاکرات کوئی نیا عمل نہیں، بلکہ نوّے اور دو ہزار کی پوری دہائیاں ٹریک ٹو مذاکرات اور پیپل ٹو پیپل رابطوں کی نذر ہوچکی ہیں۔ ٹریک ٹو کے نام پر جمع ہونے والوں کے پاس فیصلوں کا اختیار نہیں ہوتا، وہ زیادہ سے زیادہ سفارشات جمع کرکے حکومتوں کو پیش کرسکتے ہیں اور عوامی سطح پر ایک دوسرے کے بارے میں پائے جانے والے تاثر کو دور کرسکتے ہیں۔ ایسی محفلوں میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی ہی طرح کا گوشت پوست کا انسان سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی سماجیات کو جان لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ملکوں کے بارے میں خوفناک تصورات کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے عوام میں ایک دوسرے کے ملکوں کے بارے میں کچھ ایسے منجمد تصورات ہیں کہ جنہیں انٹرنیٹ اور اطلاع وابلاغ کا جدید دور اور وسائل بھی دور نہیں کرسکے۔ دونوں ایک دوسرے سے نہ ملیں تو ایک دوسرے کو کسی اجنبی سیارے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ سمجھنے سمجھانے کا یہ انداز بہت سست ہے، اور اس سے مثبت اثرات برآمد ہونے کو ایک عمرِخضر درکار ہے۔ مگر غلط فہمیوں اور کشیدگی کے ماحول میں اتنا بھی غنیمت ہے۔ اصل مسائل حکمران طبقات کو حل کرنا ہوتے ہیں۔ وہ جب تک اپنا ذہن اور اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے، مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس کا مشاہدہ ہم گزشتہ دو دہائیوں میں کرچکے ہیں، جب پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی فضا میں اچانک کشیدگی کے بارود کی بُو رچ بس گئی، یہاں تک کہ ٹریک ٹو مذاکرات جیسے بے ضرر اور نیم سیاسی و سماجی عمل کو بحال کرنے میں تین سال کا عرصہ لگ گیا۔