سید خالد جامعی
جدید سائنسی ذہن عہدِ حاضر میں کس طرح سوچتا ہے، اسے سمجھانے کے لیے ہم چند سادہ سی مثالیں پیش کرتے ہیں جس سے مسئلے کی تفہیم بہترین طریقے سے ہوجائے گی۔
-1 ہم ایک قریبی عزیز کے گھر گئے، ان کی بچی Oven میں کچھ گرم کررہی تھی، اتفاق سے ہم Oven سے چار فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے، بچی نے زور سے آواز دے کر کہا کہ چچا جان Oven کے سامنے سے ہٹ جائیے، اس کی شعاعیں (Rays) بہت خطرناک ہوتی ہیں، نقصان پہنچاتی ہیں۔ بچی کا ہدایت نامہ سن کر راقم ہٹ گیا۔ ایک منٹ کے بعد بچی نے Oven کھولا… گرم گرم پیالہ باہر نکالا اور کھانے لگی۔ ہم نے بچی سے ہنس کر پوچھا: بیٹے آپ کہہ رہی تھیں کہ چار فٹ تک Oven کی Rays نہایت خطرناک ہوتی ہیں، اس سے بچنا چاہیے، مگر آپ کا پیالہ تو Oven کی Rays کے اندر رکھا ہوا تھا، یہ تو بہت زہریلا ہوگیا، کیا خیال ہے؟ بچی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: انکل Good Question۔ اور پھر نہایت ذوق و شوق سے یہ زہریلی خوراک کھانے لگی۔
-2 ہمارے ایک عزیز نے بہت بڑا مکان خریدا اور اُسے دیکھنے کی دعوت دی۔ مکان میں نہ کوئی درخت نظر آیا نہ پودے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے اتنا اچھا اور وسیع مکان خریدا ہے لیکن اس میں درخت، پودے کچھ بھی نہیں لگائے۔ کیا آپ کو پسند نہیں؟ کہنے لگے: خالد صاحب درخت، پودے بہت پسند ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان سے پتے زمین پر گرتے ہیں اور کوڑا پیدا کرتے ہیں، مجھے کوڑا پسند نہیں، میں بہت صفائی پسند ہوں۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم آپ کو ایسے درخت بتادیتے ہیں جن سے کوئی پتّا نہیں گرتا تو حیران ہوگئے، کہنے لگے: وہ کون سا درخت ہے اور کہاں سے ملتا ہے؟ ہم نے کہا کہ کسی بھی بڑے اسٹور میں جہاں آرائش و زیبائش کی مصنوعی چیزیں ملتی ہیں، چلے جائیے اور پلاسٹ کا درخت خرید لیجیے، اس کے پتے کبھی نہیں گرتے۔
-3 اپنے ایک قریبی عزیز کے گھر گئے۔ کھانے کے دستر خوان پر بیٹھے تھے اور کھانا کھا رہے تھے تو ہم نے عرض کیا کہ آپ نے گھی کے بارے میں خبر پڑھی یا نہیں؟ وہ کہنے لگے: نہیں ہم نے نہیں پڑھی، وہ کیا خبر ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ پہلے مغرب کی سائنس نے اصلی گھی کو زہر قرار دیا تو لوگوں نے گھی کھانا چھوڑ دیا، اس کے بعد مغربی سائنس دانوں نے مصنوعی بناسپتی گھی نکالا جسے صحت کے لیے بہترین کہا گیا۔ پھر مغرب نے پچاس سال پہلے اسے زہر قرار دے کر بند کردیا کہ اس میں جو کیمیائی مادے استعمال ہوتے ہیں ان سے کینسر اور دیگر مہلک بیماریاں ہوتی ہیں۔ اب پاکستان نے پچاس سال بعد اپریل 2019ء میں اعلان کیا ہے کہ بناسپتی گھی زہر ہے، کینسر پیدا کرتا ہے، لہٰذا اسے 2020ء سے بند کردیا جائے گا، گھی کے تمام کارخانے بند ہوجائیں گے۔ انہوں نے یہ خبر سنی تو بھاگتے ہوئے گھر میں گئے اور اپنی اہلیہ سے کہنے لگے کہ بیگم گھی بند ہونے والا ہے۔ ان کی بیگم نے جو جواب دیا وہ حیران کن تھا، انہوں نے واپس آکر ہمیں بتایا کہ ان کی اہلیہ کہہ رہی تھیں کہ آپ جلدی جلدی گھی کے ڈبے لے آئیے، اچھی طرح کھالیں، کیوں کہ یہ گھی تو اب کبھی نہیں ملے گا۔ جدید انسان اسی طرح سوچتا ہے۔ بالکل یہی واقعہ ہمارے گھر میں بھی پیش آیا۔ ہم نے اپنی اہلیہ کو بتایا، تو ان کا جواب بھی یہی تھا کہ اچھا ہوا آپ نے بتادیا، اب جلدی جلدی گھی کھالیں۔ عہدِ حاضر کا انسان اپنی خواہشات، لذتوں، ذائقوں سے اوپر اُٹھنے کے قابل بھی نہیں رہا۔
-4 کراچی میں کسی گھر میں اصلی گھی میں کھانا پکا کر بچوں کو پیش کیا جائے تو وہ کھانا کھانے سے انکار کردیتے ہیں۔ وجہ پوچھی جاتی ہے کہ بیٹے کیوں نہیں کھارہے؟ تو عموماً ایک ہی جواب ملتا ہے: اس کھانے میں سے عجیب بدبو آرہی ہے۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ بیٹے یہ تو اصلی گھی ہے، اور یہ اصلی گھی کی خوشبو ہے بدبو نہیں ہے، تو بچے حیران ہوجاتے ہیں۔ جس بچے نے بچپن سے کبھی اصلی مکھن یا اصلی گھی نہیں کھایا، نہ اس کی خوشبو سونگھی… جو بچپن سے ڈالڈا، تلو، صوفی، کسان… ملٹی نیشنل کمپنی لیور برادرز کا جعلی مصنوعی زہریلا گھی… جو بے بو ہوتا ہے، کھا کر پروان چڑھا ہو اُس کے لیے اصلی چیز نقلی، اور نقلی چیز اصل کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ جدید انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوا ہے جہاں وہ اصل اور نقل میں فرق جاننے کے بھی قابل نہیں رہا، وہ یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ اصل چیز کیا ہے اور نقل کیا ہے۔ وہ خوشبو کو بدبو سمجھ رہا ہے اور بدبو کو خوشبو۔ جس تہذیب، سائنس، ٹیکنالوجی، جدیدیت نے انسان سے بدبو اور خوشبو میں فرق جاننے کی صلاحیت تک چھین لی ہے، افسوس کہ ہم اسی مغربیت اور جدیدیت سے بے پناہ متاثر ہیں۔
-5 ایک قریبی عزیز کے گھر گئے تو انہوں نے ایک ایرانی بلی (Persian Cat) پالی ہوئی تھی۔ بہت خوبصورت، بہت مہنگی، مگر نہایت سست اور گھر کے اندر محصور… ہم نے ان سے عرض کیا کہ یہ بلی اتنی سست کیوں ہے؟ ہم نے تو زندگی میں ایسی کوئی بلی نہیں دیکھی، اور آپ کے تمام گھر والے اس بلی کی حفاظت کے لیے بہت زیادہ فکرمند ہیں، ہر بچہ بلی کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے، اسے گھر سے باہر نہیں جانے دے رہا، اس حساسیت کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے: یہ 25 ہزار روپے کی ہے، پچھلے ہفتے غائب ہوگئی تھی، کتنی مشکل سے ملی ہے، لہٰذا اس کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے بلی گھر میں رکھی ہوئی ہے تو اس کی خوراک، رفع حاجت وغیرہ کا کیا ہوتا ہے، اور باہر جانے پر پابندی کی وجہ سے ہی یہ بلی اس قدر سست ہوگئی ہے۔ کیا یہ شکار کرکے خود خوراک حاصل نہیں کرتی؟ کہنے لگے: نہیں، شکار کا کیا سوال! کچا گوشت کھانے سے اس کے بال جھڑ جاتے ہیں۔ اسے پکا ہوا گوشت دیتے ہیں اور اکثر بسکٹ دیتے ہیں، وہ بسکٹ اس کے لیے بہت قوت آور ہیں۔ ہم نے عزیز کی بیٹی سے پوچھا: آپ ہر ہفتے اسے کتنے کے بسکٹ کھلاتی ہیں؟ جواب ملا: دو سو روپے کے۔ ہم نے اگلا سوال کیا: بیٹی کبھی آپ نے کسی غریب بچی کو اپنی زندگی میں دو سو روپے کے بسکٹ کھلائے ہیں؟ بچی کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمایاں ہوئے اور وہ فوراً گھر کے اندرونی حصے میں چلی گئی۔ ہمارے عزیز نے بلی کی سستی کا راز انجکشن بتایا، کہنے لگے: بلی اچھلنے کودنے، پنجے مارنے، پنجے رگڑنے، صاف کرنے والا جانور ہے، لہٰذا گھر کے سامان اور صوفوں کے کپڑوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، برتن گرا سکتی ہے، لہٰذا اس کے تحرک کو ختم کرنے کے لیے ہر پندرہ دن میں ایک انجکشن لگادیا جاتا ہے تاکہ یہ غیر متحرک ہوجائے اور گھر میں کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ ہم نے عرض کیا: تو یہ رفع حاجت کہاں کرتی ہے؟ انہوں نے ایک برتن کی طرف اشارہ کیا جس کے ساتھ پانچ کلو ریت کا ایک تھیلا تھا۔ ہم نے عرض کیا: یہ کیا ہے؟ کہنے لگے: یہ بلی کے پیشاب پاخانے کو اپنے اندر سمو لینے والی خاص ریت ہے جو بلی کے بول وبراز کے تمام اثرات و جراثیم جذب کرلیتی ہے۔ ہم نے عرض کیا: اس کی بدبو بھی کھینچ لیتی ہے؟ شرما کر کہنے لگے: نہیں، بدبو تو آتی ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ اس بند گھر میں آپ نے بلی کو بند رکھا ہوا ہے اور یہیں یہ بول و براز کررہی ہے، تو کیا گھر کے ماحول پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟ اس کا حل انہوں نے یہ بتایا کہ دو بوتلیں ہیں، ایک خوشبو کے اسپرے کی بوتل، ایک جراثیم کُش اسپرے کی بوتل۔ جیسے ہی بلی اجابت کرلیتی ہے، جراثیم مارنے والا اسپرے کردیتے ہیں، اور بدبو کے خاتمے کے لیے خوشبو والا اسپرے کردیتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا: جدیدیت میں علم میں اضافہ اسی طریقے سے ہوتا ہے۔ ایک قدرتی فطری بلی خود اپنی خوراک تلاش کرتی ہے، خود مٹی کھود کر پیشاب پاخانہ کرتی اور رفع حاجت کے بعد اس پر مٹی، ریت ڈال دیتی ہے، متحرک رہتی ہے جو اس کی صحت کا راز ہے۔ مگر جب بلی کو فطری زندگی سے کاٹ کر گھر کا قیدی بنایا گیا، Domesticate کیا گیا تو اب یہ بلی علم میں اضافے کا سبب ہے۔ دھوپ سے محرومی کے باعث اس میں جوئیں ہوتی ہیں، اس کا بھی اسپرے آپ لاتے ہوں گے۔ اس کے بال کٹوانے خاص حجام کے پاس پارلر لے جاتے ہوں گے۔ اسے سست کرنے کے لیے انجکشن لگواتے ہوں گے۔ اس کی خوراک کے لیے بسکٹ خریدتے ہیں، رفع حاجت کے لیے خاص ریت خرید رہے ہیں، اس کے علاج معالجے کے لیے ڈاکٹر کلینک موجود ہے، تو ایک بلی کو فطرت سے کاٹنے، قیدی بنانے کے نتیجے میں کتنے سارے علم برآمد ہوئے۔ اس کی خدمت کے لیے پورا سروس سیکٹر وجود میں آیا۔ جدیدیت میں علم میں روزانہ اضافہ اسی طرح اور اسی طریقے سے ہوتا ہے۔ روایتی تہذیبوں میں بلی سے متعلق علوم آپ کو سرے سے نہیں ملیں گے، کیوں کہ فطری ماحول میں فطری طریقے سے پلنے والی بلی کے لیے تمام خدمات اللہ تعالیٰ کی فطری کائنات میں مہیا کرنے کے لیے تمام ذرائع موجود تھے۔ جدیدیت نے بلی کو فطرت سے کاٹ کر اربوں کھربوں کی صنعت پیدا کردی، جہاں بلی کے لیے تحقیق ہورہی ہے اور نت نئے پرفیوم، اسپرے، انجکشن، دوائیاں مسلسل ایجاد ہورہی ہیں۔ اس کا نام علوم جدیدہ… اور ان علوم میں مسلسل ارتقاء… تمام روایتی تاریخی تہذیبیں اور اسلامی علمیت اور تاریخ اس قسم کے علوم سے نابلد ہے۔
ہماری گفتگو سن کر وہ متاثر تو ہوئے مگر کہنے لگے کہ دیکھیں اب ہم سب کو یہ بلی پسند ہے، بہت محبت کرتی ہے، تو کیا بلی پالنا ٹھیک نہیں! احادیث میں تو بلی کے بارے میں بہت روایتیں بھی آئی ہیں۔ ایک صحابی کا بھی بلیوں سے خاص تعلق تھا۔ ہم نے عرض کیا: اس بلی کا تعلق فطرت سے تھا، آپ کی بلی کا تعلق صنعت (Industry)، سرمایہ (Capital) اور مارکیٹ (Market) سے ہے۔ یہ بلی آپ کی اور گھر والوں کی صحت کے لیے عظیم خطرہ ہے۔ گھر میں بلی پالنے سے کس قسم کی بیماریاں انسانوں کو ہوتی ہیں، کس قسم کے Infection ہوتے ہیں، کیسے دمہ لگتا ہے اس پر ہزاروں صفحات کی تحقیقات اور بے شمار دوائیاں ہیں۔ پہلے لوگ بلی پالتے تھے، ہم بلی کو قید کرتے ہیں۔ مسئلہ قیدی بلی ہے۔ ایک بلی کو گھر میں قید کرنے اور آپ کی خواہشِ نفس کو پورا کرنے کے لیے اربوں کھربوں روپے کی صنعت وجود میں لائی گئی ہے۔ اسلام ایسی بلی کو پسند نہیں کرتا جو انسانی صحت، فطرت اور جان کے لیے خطرہ بن جائے۔ وہ فطری بلی کو پسند کرتا ہے جو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو، اور فطرت اس کی تمام ضروریات کا خود اہتمام کرتی ہے۔ یہاں تو ہر ضرورت کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے۔ ہر چیز بازار سے آتی ہے۔ ہر کام کا مقصد منافع میں اضافہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار واضح فرمایا ہے کہ وہ مخلوقات جن کے رازق تم نہیں ہو ہم ہیں، ان کی بھوک مٹانے کے لیے تمام ضروریات ہم نے مہیا کی ہیں، ہم نے اندازے سے اس زمین پر مخلوقات کے لیے سب کچھ پیدا کردیا ہے، ان کی تمام ضروریات ہم نے اس کائنات میں رکھ دی ہیں۔ بلی صدیوں سے گھروں میں ہے مگر بلی سے نہ کسی کو بیماری ہوتی تھی، نہ اس بلی کے لیے خوراک کے انتظام کی ضرورت تھی، نہ اس بلی کے لیے کسی ڈاکٹر کی ضرورت تھی، نہ اس بلی کی صحبت سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے ڈاکٹر تھے۔ سب کچھ فطرت کے مطابق چل رہا تھا۔ بلی اور انسان مل جل کر فطری زندگی گزارتے تھے۔ جب غیر فطری زندگی بلی اور انسان نے بسر کرنا شروع کی، بلی پر تو غیر فطری زندگی مسلط کی گئی، لہٰذا فطرت سے بغاوت کا نتیجہ اور انجام یہ ہے کہ ہر شخص بیمار ہے۔ ہمارے ایک دوست کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر عاقل برنی صاحب نے ایک بلی پالی۔ اس بلی کا کمال یہ تھا کہ AC میں سوتی تھی۔ وہ AC کے آس پاس ٹہلنا شروع کردیتی، اشارہ یہ تھا کہ AC کھولو میرے سونے کا وقت ہوگیا ہے۔
AC کی ہوا سے بلی کے بال اُڑتے رہے اور ان کی اہلیہ کے جسم میں منتقل ہوگئے۔ کئی مہینے وہ اسپتال میں رہیں، 60 لاکھ روپے خرچ ہوئے تب جاکر بلی کی پھیلائی بیماری سے مشکل سے صحت یاب ہوئیں۔ غیر فطری زندگی کی اتنی بڑی قیمت ہے۔ مگر جدید انسان یہ قیمت ادا کرنے پر تیار ہے۔ نہ خود فطری زندگی بسر کرنا چاہتا ہے، نہ جانوروں کو فطری زندگی بسر کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ جانور بھی سوچ رہے ہیں کہ ہم تاریخ کے کس دور میں پیدا ہوگئے ہیں جہاں ہم اپنی مرضی سے اللہ کی فطرت کے مطابق زندگی بسر کرنے پر قادر نہیں۔ جہاں ہمیں بسکٹ کھانے پڑتے ہیں، روٹیاں اور کیک خوراک کا حصہ ہیں۔ ہمارے آباو اجداد اگر دنیا میں آگئے تو حیران ہوں گے کہ ان کی اولاد کیا کررہی ہے؟