مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو دنیا سے رخصت ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا، مگر جبر و استبداد، ناانصافیوں اور انسانی حقوق پامال کرنے والی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہونے والوں کی وہ آج بھی سپہ سالار ہیں۔
تحریکِ پاکستان کے حوالے سے جس طرح بانیِ پاکستان قائداعظمؒ کی خدمات کا موازنہ کسی دوسرے رہنما اور قائد سے نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہیے، اسی طرح مادرِ ملت کی خدمات کا موازنہ بھی تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں شامل دوسری خواتین رہنمائوں سے نہیں کیا جانا چاہیے۔
اُن کا جنرل ایوب خان سے واحد اختلاف صرف یہ تھا کہ اس نے پاکستان کا آئین توڑا تھا اور ماورائے آئین اقدام کے ذریعے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا۔ (یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مادرِ ملت خواتین ونگ کی کنوینر ہونے کے باوجود کبھی بھی آل انڈیا مسلم لیگ کی سینٹرل کمیٹی کی رکن نہیں رہیں، نہ ہی قیامِ پاکستان کے بعد جماعتی سیاست سے وابستہ رہیں، اور نہ ہی انہوں نے کوئی سرکاری منصب حاصل کیا) اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ بعد میں جن خواتین رہنمائوں نے جبر، ناانصافیوں اور انسانی حقوق پامال کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کی اور قید و بند کی سختیاں جھیلیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں بخل سے کام لیا جارہا ہے۔ ’’مادرِ ملت‘‘ نے اپنے بھائی قائداعظمؒ کے شانہ بشانہ تحریکِ پاکستان کی طویل اور صبر آزما جدوجہد میں پورے ہندوستان کے طول و عرض میں گلی گلی، محلے محلے جاکر خواتین کو بیدار کرنے میں جو تاریخ ساز کردار ادا کیا تھا، وہ ہماری سیاسی تاریخ کا روشن باب ہے۔ قیام پاکستان کے بعد فوجی اور سول آمرانہ دور میں جبر کا مقابلہ کرنے والی خواتین کی خدمات اپنی جگہ قابلِ قدر اور قابلِ ستائش ہیں، تاہم کسی دوسری خاتون رہنما کا وہ مقام نہیں ہوسکتا جو ہماری قومی تاریخ میں مادرِ ملت کا ہے۔ مادرِ ملت نے جس طرح پیرانہ سالی کے باوجود ملک کے پہلے غاصب حکمران جنرل ایوب خان کی آمریت کا مردانہ وار مقابلہ کیا، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں خواتین میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یہ ناچیز کالم نگار بھی اُن خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے طالب علم کی حیثیت سے ایک عام رضاکار کارکن کے طور پر مادرِ ملت کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ فوجی حکمرانوں کی طرح سول حکمرانوں نے بھی ’’مادرِ ملت‘‘ کی گراں قدر ملّی، قومی خدمات کا اعتراف اس طرح نہیں کیا جس طرح کرنے کا حق تھا۔
یہ مادرِ ملت ہی تھیں جنہوں نے جنرل ایوب خان کی حکومت میں پہلے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے پر قوم کو خبردار کیا تھا کہ ’’جنرل ایوب خان نے قوم کو قرضوں کی معیشت کی جس دلدل میں پھنسا دیا ہے یہ قائداعظم کی خودانحصاری کی پالیسی سے انحراف ہے، جس کی بنیاد ’’چادر کے مطابق پائوں پھیلانے‘‘ کے اصول پر رکھی گئی تھی، اب پاکستان کا اس دلدل سے نکلنا دشوار ہوگا۔ ان قرضوں کی وجہ سے ہمیں آگے چل کر اپنی قومی خودمختاری پر ’’عالمی ساہوکاروں‘‘ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑ سکتے ہیں‘‘۔ مادرِ ملت کی یہ وارننگ آج کتنی درست ثابت ہورہی ہے۔
مادرِ ملت قائداعظم کی خواہش پر سیاست میں سرگرم ہوئی تھیں۔ وہ 1930ء میں گول میز کانفرنس کے موقع پر قائداعظم کے ساتھ لندن گئی تھیں جہاں قائداعظم کے ساتھ ان کا طویل قیام رہا۔ انہوں نے یورپ کے معاشرے میں خواتین کی بیداری کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بہ چشم خود دیکھا تھا۔ وہیں ان کے دل میں تعلیمِ نسواں کے فروغ کے لیے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا جسے انہوں نے ہندوستان واپس آکر شروع کیا، اور زندگی کے آخری سانس تک اس کو جاری رکھا۔
مادرِ ملت مشرقی روایات پر عمل پیرا روشن خیال مسلمان خاتون تھیں۔ مشرقی روایات کی پاسداری ان کے نزدیک کتنی اہم تھی اس کا اندازہ بیگم ثریا خورشید (مرحومہ) (قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری اور سابق صدر آزاد جموں و کشمیر مرحوم کے ایچ خورشید کی بیگم) کو کی جانے والی نصیحت سے ہوتا ہے۔ ثریا خورشید نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جب وہ شادی کے کچھ دن بعد مادرِ ملت کی دعوت پر اُن کے گھر مہمان کے طور پر رہیں تو انہوں نے بڑے پیار سے نصیحت کی کہ ہمیشہ سر پر دوپٹہ رکھا کرو اور گھر گرہستی کے سارے کام (سینا پرونا اور کھانا پکانا وغیرہ) سیکھ لو، تاکہ تم اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرپائو، جس سے تمہاری زندگی خوشگوار رہے گی۔
کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ان کی زیر نگرانی اور زیرسرپرستی بہت سے تعلیمی اور رفاہی ادارے قائم ہوئے جن میں سے کئی آج بھی قائم ہیں۔ جنرل ایوب خان کے مقابلے میں 1964ء میں مادرِ ملت حزبِ اختلاف کی متفقہ امیدوار بننے پر اس شرط پر تیار ہوئی تھیں کہ وہ انتخاب جیتنے کے چھ ماہ کے اندر اندر پارلیمنٹ کے ذریعے 1956ء کا متفقہ دستور (جسے جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا کر منسوخ کیا تھا) بحال کرائیں گی، جس کے فوری بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات منعقد ہوں گے، جو پارٹی انتخابات میں کامیاب ہوگی اس کو اقتدار منتقل کرکے گھر چلی جائیں گی۔ کاش ریاستی مشنری کو استعمال کرکے دھاندلی کے ذریعے مادرِ ملت کی فتح کو شکست میں تبدیل نہ کیا جاتا، تو نہ ملک دولخت ہوتا اور نہ ہی آج قرضوں کی معیشت کی وجہ سے ہماری قومی سلامتی اور قومی خودمختاری دائو پر لگی ہوتی۔
مادرِ ملت فاطمہ جناح کو آل انڈیا مسلم لیگ نے 1939ء میں مسلم لیگ خواتین ونگ کا کنوینر بنایا تھا جس پر وہ دسمبر 1947ء تک فائز رہیں۔ اس کے بعد مادرِ ملت نے اپنی ساری توجہ تعلیم ِ نسواں کے فروغ اور سماجی و رفاہی اداروں کے قیام اور سرپرستی پر مرکوز رکھی۔ مادرِ ملت نے آل انڈیا مسلم لیگ خواتین ونگ کی کنوینر کے طور پر جو اہم کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ان میں ایک یادگار کارنامہ صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) جیسے قدامت پسند صوبے میں پڑھی لکھی خواتین کو منظم کرکے متحرک کرنا تھا۔ ان خواتین نے 1947ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں مسلم لیگ کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ تفصیل اس کارنامے کی یہ ہے کہ 1946ء کے عام انتخابات میں صوبہ سرحد میں کانگریس اپنی صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مسلم لیگ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا، مگر کانگریس کے صوبائی صدر خان عبدالغفار خان (مرحوم) اور ان کے بھائی ڈاکٹر خان نے جو صوبائی وزیراعلیٰ تھے، اس اصول کی نفی کی اور اسے ماننے سے انکار کردیا جو تقسیم ِہند کی بنیاد قرار پائی تھی کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے، اور جن علاقوں میں ہندوئوں کی اکثریت ہے وہ علاقے بھارت کا حصہ ہوں گے۔ صوبہ سرحد مسلم اکثریتی علاقہ تھا، مگر کانگریس کی قیادت نے اپنے حامیوں کی مدد سے اس کو بھارت میں شامل کرانے کی سازش کی تھی، جس کی مسلم لیگ نے سخت مزاحمت کی تھی جس کی وجہ سے ریفرنڈم کی نوبت آئی۔
کانگریس نے ریفریڈم کو سبوتاژ کرنے کے لیے مسلح جتھے تیار کیے تھے جنہوں نے مسلم لیگ کی ریفرنڈم کی مہم کے جلسے جلوسوں پر مسلح حملوں کا پروگرام بنایا تھا۔ تب صوبہ سرحد کے خواتین ونگ نے فیصلہ کیا کہ اب یہ مہم خواتین چلائیں گی، کیوں کہ پختون معاشرے میں خواتین پر حملہ کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ مسلم لیگ کی صوبائی رہنما لیڈی قاضی امیر احمد نے تمام خواتین کو فعال اور متحرک کرکے جلسے جلوس کیے۔ ریفرنڈم سے تین دن قبل انتخابی مہم کا آخری جلسہ خان عبدالغفار خان (مرحوم) کے گائوں اتمان زئی میں ہوا، جس کی قیادت مسلم لیگ خواتین کی صوبائی رہنما لیڈی قاضی امیر احمد کی بیٹی بیگم قاضی شیریں وہاب (پاکستان کے معروف سفارت کار اور افغانستان اور ترکی میں پاکستان کے سابق سفیر قاضی ہمایوں کی والدہ محترمہ) نے کی تھی۔ اتمان زئی میں ہونے والے مسلم لیگ کے جلسے نے کانگریس کی ہوا اکھاڑ کر مسلم لیگ کی فتح کو یقینی بنا دیا تھا۔ اس کا سہرا جہاں صوبہ سرحد کی غیور بہادر خواتین کو جاتا ہے، وہیں مادرِ ملت کو بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پڑھی لکھی، بہادر، جرأت مند خواتین کو منظم کیا تھا۔
مادرِ ملت پیرانہ سالی کے باوجود آخری لمحے تک چاق و چوبند اور متحرک رہیں۔ وہ تعلیمِ نسواں کے فروغ اور رفاہی کاموں کی رہنمائی میں مصروف رہیں اور سماجی تقریبات میں برابر شرکت کرتی رہیں۔ انتقال سے ایک دن قبل 8 جولائی 1967ء کی شب وہ حیدرآباد دکن کے سابق وزیراعظم میر لائق علی خان کے بیٹے کے ولیمہ میں شریک ہوئی تھیں جو پیلس ہوٹل (موجودہ موون پک) میںہوا تھا۔ وہاں سے وہ رات بارہ بجے واپس لوٹیں۔ وہ صبح وقت پر نہ جاگیں اور ملازم کے بار بار دستک دینے پر بھی اندر سے کوئی آواز نہ آئی تو ان کی قریبی دوست بیگم ہدایت اللہ (مرحومہ) کو فوری اطلاع دی گئی، جنہوں نے آکر دروازہ تڑوایا۔ دیکھا تو وہ سوتے میں ہی اپنے آخری سفر پر روانہ ہوچکی تھیں۔
ان کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر اور ملک میں پھیل گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک جم غفیر ان کے گھر کے باہر جمع ہوگیا۔ سب سے پہلے قائداعظم کے جو قریبی رفقا فوری طور پر مادرِ ملت کی رہائش گاہ مہتہ پیلس کلفٹن پہنچے اُن میں مطلوب الحسن سید (مرحوم)، نواب شمس الحسن (مرحوم)، حسین امام (مرحوم)، اصفہانی (مرحوم)، ہارون فیملی اور بہت سے دیگررہنما شامل تھے۔ اور شہر بھر کے اخبارات و جرائد کے ایڈیٹرز اور عامل صحافیوں کی بڑی تعداد بھی پہنچ گئی تھی، جن میں روزنامہ حریت کے رپورٹر خواجہ رضی حیدر (اور اب قائداعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر)، حریت کے ہی ثنا اللہ (مرحوم)، روزنامہ جنگ کے رپورٹر حافظ محمد اسلام (مرحوم) اور ماہنامہ چراغ راہ کے ڈپٹی ایڈیٹر ڈاکٹر ممتاز احمد (مرحوم) کے نام حافظے میں محفوظ رہ گئے ہیں۔ مادرِ ملت کی نماز جنازہ میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ نمازِ جنازہ مفتی محمد شفیع (مرحوم) نے پڑھائی تھی۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ قائداعظم کی نمازِ جنازہ مفتی محمد شفیع کے پھوپھی زاد بھائی علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔
مادرِ ملت مزارِ قائد کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔ اسی احاطے میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور متحدہ پاکستان کے نامزد وزیراعظم اور سقوطِ ڈھاکا کے بعد پاکستان کے نائب صدر نورالامین بھی آسودۂ خاک ہیں۔