سید علی گیلانی سفارتی محاذ پر خدمات کے دلی طور پر معترف تھے
عارف الحق عارف
کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے اقوام متحدہ اور امریکہ میں زندگی کے آخری سانس تک سفارتی محاذ پر جدوجہد کرنے والے سب سے بڑے دانشور، سفارت کار اور مجاہد یوسف بچ کا جمعہ 24 مئی کو نیوجرسی امریکہ میں 98 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔
1922ء میں سری نگر میں پیدا ہونے والے یوسف بچ کشمیر اور اس کے مسئلے کی تاریخ کی معلومات کا خزانہ تھے۔ انہیں کشمیر کاز کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جاتا تھا۔ کشمیر کے لیے اُن کی سفارت کاری اور جدوجہد کا عرصہ 66 برسوں پر محیط ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کشمیر کاز کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ اس کاز کے لیے کام کرنے والوں کے لیے رہنمائی اور جدوجہد کی روشن مثال تھے۔ ان کا شمار اپنے وقت کے ذہین ترین طلبہ میں ہوتا تھا۔ شاندار تعلیمی کامیابیوں کے بعد انہوں نے سول سروس کا امتحان بھی امتیازی شان سے پاس کرلیا، لیکن کشمیریوں کے ساتھ مہاراجا کشمیر کے امتیازی اور ظالمانہ رویّے اور اُس کے تقسیمِ ہند کے وقت بھارت کے ساتھ الحاق کے فیصلے کی شدید مخالفت کی بنا پر انہوں نے مہاراجا کی حکومت میں اعلیٰ افسر بننے کے بجائے سیاسی کارکن اور قیدی بننا زیادہ پسند کیا۔ مہاراجا حکومت کا شدید مخالف ہونے کی بنا پر ان کو 1949ء میں جبری طور پر جنگی اور سیاسی قیدیوں کے تبادلے میں پاکستان جلاوطن کردیا گیا۔ 1953ء میں انہوں نے اقوام متحدہ کا مضمون نویسی کا ایک مقابلہ جیتا اور اس کی وجہ سے وہ امریکہ آگئے اور انتقال تک وہیں رہے۔
امریکہ آتے ہی ان کے شاندار کیریئر کا آغاز اقوام متحدہ میں ایک نامہ نگار (Correspondent)کے طور پر ہوا۔ پھر اس کے ساتھ ہی ان کی کشمیر اور کشمیر کے لوگوں کے لیے جدوجہد ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ انہوں نے نیویارک میں کشمیرکی آزادی کا ایک مرکز Free Kashmir Centre قائم کیا جو1957ء سے 1972ء تک کشمیر کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے رہنمائی کا کردار ادا کرتا رہا۔ اس کی سرگرمیاں ان کے پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر بننے تک جاری رہیں۔ وہ پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے ذاتی دوست تھے۔ ان کی حکومت میں شمولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا بجا طور پر یہ خیال تھا کہ اس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد ملے گی۔ ان کے شاندار صحافتی کیریئر کی وجہ سے انہیں پہلے وزیر اطلاعات اور پھر وزیر انتظامی امور بنایا گیا۔ یوسف بچ نے سوئٹزرلینڈ میں سفیرِ پاکستان کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ان کی کامیاب سفارت کاری کی شہرت نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا اور انہوں نے یوسف بچ کو اپنا مشیر بنا لیا۔ اس اعلیٰ منصب پر وہ 18 سال تک کام کرتے ر ہے۔ یوسف بچ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاسوں کے موقع پر زیادہ سرگرم ہوجاتے تھے اور پاکستان، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر سے آنے والے قائدین اور وفود کی رہنمائی اور مشوروں کے لیے ہمیشہ دستیاب رہتے اور ان کے لیے حوصلے کا ذریعہ بھی بنتے۔ واشنگٹن میں کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کے لیے کام کرنے والے معروف سفارت کار اور دانشور ڈاکٹر غلام نبی فائی اُن کے شاگرد اور اس جدوجہد میں اُن کے جانشین ہیں۔ انہیں اپنے اس لائق شاگرد پر ہمیشہ فخر محسوس ہوا۔ ڈاکٹر فائی کو بھی ان سے تعلق پر بڑا ناز رہا۔ وہ ان کا ذکر ہمیشہ محبت اور تشکر کے جذبات کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی بچ صاحب سے محبت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جب بھی کشمیر کاز کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں یوسف بچ کا ذکر کرنا کبھی نہیں بھولتے۔ وہ انہیں کشمیر کاز کا Living legend قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اس امر کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ کشمیر کے اس دانشور، سفارت کار، مجاہد اور قائد سے ہماری ملاقات نہ ہوسکی، حالانکہ ہم ان کی شخصیت سے 1973ء سے واقف تھے جب ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا۔ بھٹو اقوام متحدہ میں ان کے کردار، ذہانت، صلاحیت اور قابلیت سے اچھی طرح واقف تھے اور اس وجہ سے ان کے ذاتی دوست بھی بن گئے تھے۔ ہم نے ان کی زندگی اور کشمیر کاز کے لیے ان کی مزید خدمات جاننے کی کوشش کی اور سفارت کاری میں ان کے شاگرد اور جانشین ڈاکٹر غلام نبی فائی سے بات کی۔ یوسف بچ کے انتقال پر ان سے تعزیت کی اور درخواست کی کہ ہمیں بچ صاحب کے کشمیر کاز کے بارے میں کچھ مزید بتائیں۔ ڈاکٹر فائی ان کے بچھڑ جانے پر صدمے سے دو چار تھے۔وہ طویل بات چیت کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے، پھر بھی ہمارے اصرار پر انہوں نے بچ صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’یوسف بچ میرے بزرگ اور محسن تھے جنہوں نے مجھے کشمیر کاز کے کام کے لیے منتخب کیا، اور اس کے لیے جدوجہد کرنے اور امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں رہ کر سفارت کاری کے آداب سکھائے‘‘۔ ان سے پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’1983ء میں مَیں فلاڈلفیا میں طالب علم تھا کہ ایک دوست نے مجھے نیویارک میں ایک مخلص اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے کام کرنے والے کشمیری کا نام اور فون نمبر دیا، جس پر میں بار بار فون کرتا رہا لیکن کوئی جواب نہیں ملتا تھا، نہ ان کا کوئی پتا تھا کہ اس پر رابطہ کیا جاتا۔ میری اس کشمیری سے رابطے کی کوشش جاری رہی اور 9 سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں 1989ء میں مسلح جدوجہد شروع ہوچکی تھی کہ 1992ء میں وادیٔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں کا ایک اجلاس واشنگٹن میں منعقد ہوا جس میں مَیں بھی شریک تھا۔ اجلاس میں ہر ایک نے اظہارِ خیال کیا، اپنی سمجھ اور سوچ کے مطابق میں نے بھی بحث میں حصہ لیا اور کشمیر کی تازہ صورت حال اور حالیہ تحریک کے تجزیے میں چھ تجاویز پیش کیں۔ جب اجلاس ختم ہوا تو ایک شخص نے مجھے روک لیا۔ جب انہوں نے اپنا تعارف یوسف بچ کے نام سے کرایا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ میں جس فرزندِ کشمیر سے ملنے کے لیے 9 سال سے انتظار کررہا تھا اور ملنے کے لیے بے چین اور بے تاب تھا، اُن سے ہماری اچانک ملاقات ہورہی ہے۔ سب کے جانے کے بعد بچ صاحب نے کہا کہ نیویارک میں ہماری ایک طویل ملاقات ہونی چاہیے۔ نیویارک میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کا دن اور وقت طے ہوگیا۔ مجھے واشنگٹن سے جانا تھا، اس لیے کوشش کے باوجود مقررہ وقت سے 5 منٹ تاخیر سے پہنچا۔ اطلاع کی گئی، اور جب مجھے ملاقات کے لیے بلایا گیا تو آنے پر بڑی خوشی اور تشکر کے اظہارکے بعد ان کے اس جملے نے مجھے چونکا دیا ’’غلام نبی فائی، آپ نے مجھے پہلی ہی ملاقات میں بڑا مایوس کردیا ہے‘‘۔ میں پریشان ہوا کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے! پوچھا کہ میری کس بات سے وہ مایوس ہوئے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا ’’آپ ملاقات کے مقررہ وقت سے 5 منٹ لیٹ تھے‘‘۔ میں نے اپنی وضاحت میں واشنگٹن میں اپنے ٹیکسی سے ائرپورٹ جانے، فلائٹ لینے، اور نیویارک کے لگارڈیا ائرپورٹ سے ان کی رہائش گاہ تک آنے کے تمام مراحل سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کی یہ ساری باتیں درست ہوں گی، بہرحال آپ کے دیر سے آنے کی یہ تاویل درست نہیں۔ پھر انہوں نے مجھے چار اصول بتاتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ ان پر عمل کریں تو فائدہ ہوگا۔
پہلا اصول یہ ہے کہ اگر کسی سے ملاقات کا وقت طے ہے تو ہمیشہ وقت پر پہنچنا چاہیے۔ ہر شخص کو کسی بھی وجہ سے تاخیر ہوسکتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس فرد کو اطلاع کردی جائے کہ آپ کو آنے میں کچھ دیر ہوجائے گی۔ اس سے اگلے شخص پر آپ کے بارے میں یہ اچھا تاثر قائم ہوگا کہ ملاقات کے لیے آنے والا شخص ایک ذمہ دار فرد ہے۔ اس لیے آئندہ کسی سینیٹر، کانگریس کے رکن، یا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں کسی اعلیٰ افسر سے ملاقات طے ہو تو ہمیشہ وقت پر پہنچ جائیں۔
دوسرا اصول یہ کہ اقوام متحدہ یا امریکہ میں کسی بھی فورم پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کے اعدادو شمار بالکل درست اور عالمی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اگر آپ ان مظالم، شہدا، معذوروں اور لاپتا نوجوانوں کی تعدا د کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے تو آپ کا یہ مبالغہ پکڑا جائے گا اور آپ پر پھر کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا۔ کیوں کہ ان اداروں کے پاس عالمی تنظیموں کی رپورٹیں موجود ہوتی ہیں، وہ اس سے کراس چیک کرتے ہیں، اگر غلط اعداد ثابت ہوجائیں تو ان کی نگاہ میں آپ ایک جھوٹے شخص تصور کیے جائیں گے۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر امریکہ سے ثالثی کے لیے بات کرنا بات نہ کرنے سے بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ سے بات کرنے سے کشمیریوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اور بات نہ کرنے سے بھی کسی فائدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی بات کرنا بہتر ہے۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ جب بھی آپ کی حکومت کی کسی اعلیٰ شخصیت، سینیٹ یا کانگریس کے کسی رکن سے ملاقات طے ہو تو ان سے نہایت صاف ستھرے اور بہترین لباس میں ملنا چاہیے۔ اس لیے کہ آپ اُن سے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ کسی خاص کاز یا مقصد کے لیے مل رہے ہیں، تو اس کاز کا تقاضا ہے کہ آپ خوب صورت، صاف ستھرے لباس میں ملیں، تاکہ اس کا ملاقاتی شخصیت پر اچھا اثر پڑے اور وہ اس کاز کے لیے مددگار و معاون ثابت ہو۔‘‘
ان کا، ڈاکٹر غلام نبی کو یہ چار اصول بتانے کا مقصد دراصل ان کو سفارت کاری کی ابتدائی تربیت دینا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ بچ صاحب کو کشمیر، خاص طور پر اپنے پیدائشی شہر سری نگر سے والہانہ محبت تھی اور جلاوطنی کے بعد وطن سے دوری کو بہت محسوس کرتے تھے۔ وہ اکثر ان سے سری نگر میں اپنے بچپن کی یادیں بیان کیا کرتے تھے اور دوبارہ جانے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ ان کو جلاوطنی کے بعد سری نگر جانے کا یہ موقع 1974ء میں اُس وقت ملا جب وہ پاکستان کے وزیر اطلاعات تھے۔ ان کو پتا چلا کہ ان کی والدہ شدید علیل ہیں، انہوں نے وزیراعظم بھٹو سے اس کا ذکر کیا کہ وہ والدہ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے ان کو یہ مشن بھی دیا کہ وہ وہاں کے حالات کا بھی جائزہ لیں گے۔ چنانچہ ان کے لیے ویزا کا اہتمام ہوگیا۔ انہوں نے والدہ کی عیادت کی اور کشمیریوں کے حالتِ زار کا بھی احوال جاننے کی کوشش کی۔ واپس آکر انہوں نے وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے بتایا کہ میں نے والدہ سے ملنے کے علاوہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی آزادی اور حقِ خودارادی کے لیے جدوجہد کا بھی جائزہ لیا ہے۔ میں نے وہاں جو کچھ دیکھا ہے وہ میرے لیے بڑا ہی حیران کن تھا۔ انہوں نے بھٹو کو بتایا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا سخت مخالف ہوں لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہر جگہ جس کا کام اور جس کی جہدِ مسلسل دیکھی ہے وہ یہی مولانا مودودی کی جماعت اسلامی ہے، جس کا میں انکار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح وہ تحریک حریتِ کشمیر کے چیئرمین سید علی گیلانی کی بے داغ اور بے خوف قیادت، اور کشمیریوں کے حقِ خودارادی کے لیے ان کی قربانیوں اور کوششوں سے بھی بڑے متاثر تھے، اور جب بھی ڈاکٹر فائی یا مقبوضہ کشمیر سے کوئی ملاقاتی آتا تو سب سے پہلے پوچھتے ’’سید علی گیلانی کیسے ہیں؟ جب آپ واپس جائیں تو انہیں میرا سلام کہیے گا۔ انہوں نے بڑی بے خوفی اور بہادری کے ساتھ آزادی کی تحریک کو زندہ رکھا ہوا ہے‘‘۔ ’’کیا کبھی بچ صاحب کی علی گیلانی سے ملاقات ہوئی ہے؟‘‘ ہمارے اس سوال پر فائی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’نہیں، کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی، وہ ان سے ملنے کی بڑی خواہش رکھتے تھے، ٹیلی فون پر البتہ ضرور بات ہوتی تھی اور کئی بار ہوئی۔ یہی حال گیلانی صاحب کا تھا کہ وہ بھی بچ صاحب کی سفارتی محاذ پر خدمات کے دلی طور پر معترف تھے اور ہمیشہ ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر فائی ان کے ساتھ گزرے ہوئے دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتارہے تھے کہ ایک بار ان سے یہ سوال ہوا کہ آپ کو کبھی کوئی ایسی بات بھی یاد آتی ہے کہ جدوجہد آزادی میں جو نظرانداز ہوگئی ہو، یا جس کو کیا جاتا تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوتے؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد انہوں نے کہا: ہاں ایک بات یاد آئی ہے جو ہم نے نہیں کی، اور وہ بات یہ ہے کہ ہم نے شروع ہی سے بھارتی غلامی میں کام کرنے والی کشمیری قیادت کا معاشرتی مقاطعہ (Social Boycott) نہیں کیا۔ انہوں اس قیادت کا نام نہیں لیا، لیکن ان کا واضح اشارہ شیخ عبداللہ اور اُن جیسے لیڈروں کی طرف تھا جنہوں نے کشمیر پر بھارتی قبضہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کا گناہ کیا، اس کے مظالم پر چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور فانی اقتدار اور روپے پیسے کے لالچ میں اپنے ضمیر کا سودا کیا۔
یوسف بچ کو کشمیر جنت نظیر کی آزادی کی جدوجہد سے کس قدر گہرا لگاؤ اور تعلق تھا، اس کا اندازہ ان کی آخری وصیت سے لگایا جاسکتا ہے جس کا ذکر انہوں نے ڈاکٹر غلام نبی فائی سے بہت عرصہ پہلے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ابدی حقیقت ہے کہ ہر پیدا ہونے والے شخص کو ایک دن مرنا ہے اور اسی مٹی میں مل جانا ہے جس سے وہ پیدا ہوا تھا۔ میری موت کا بھی ایک دن معین ہے جس کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ اگر آپ کی زندگی میں میرا آخری وقت آجائے تو پہلی خواہش تو یہ ہے کہ مجھے میری جائے پیدائش سری نگر میں آزادیِ کشمیر کے لیے کٹ مرنے والے شہدائے کشمیر کے ساتھ دفن کیا جائے، لیکن یہ مجھے ممکن نظر نہیں آتا، اس لیے وصیت کرتا ہوں کہ مجھے مظفر آباد میں سابق صدر آزاد جموں و کشمیر کے ایچ خورشید اور میر واعظ محمد یوسف کی قبروں کے ساتھ دفن کیا جائے اور درمیان میں ایک کتبہ نصب کیا جائے جس پر یہ تحریر کیا جائے کہ ہم نے کشمیر پر بھارتی قبضے کی مزاحمت پر کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور اس جدوجہد کو زندگی کے آخری سانس تک جاری رکھا ہے۔
یوسف بچ راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے دعویدار نہیں تھے،لیکن ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق تھا۔انہوں نے وصیت میں فرمایا تھا کہ میرا جنازہ اس طرح پڑھا جائے کہ میرے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائیں۔یوسف بچ اب وصیت کے مطابق میر واعظ مولانا محمد یوسف کے مزار کے احاطے کے اندر اورقائداعظم کے دستِ راست اور آزاد کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید مرحوم کے پہلو میں دفن ہیں۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور کشمیر کے لیے ان کی جدوجہدکو قبول فرمائے۔