ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا علم و تحقیق کا ایک اور چراغ بُجھا

ہفتہ 6 جولائی کو ملک کی سب سے بڑی اور قدیم دانش گاہ جامعہ پنجاب کے طویل عرصے تک وائس چانسلر رہنے والے ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا لاہور میںانتقال کرگئے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔ انھوں نے اپنے خاندان کے علاوہ ہزاروں ساتھی اساتذہ اور لاکھوں شاگردوں کو سوگوار چھوڑا۔ اگلے روز ان کی نمازِ جنازہ میں اساتذہ، طلبہ اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے جتنی بڑی تعداد میں شرکت کی اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے میں اہلِ علم کی قدر کرنے والے لوگ موجود ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ممتاز ماہرِ تعلیم، عالمی شہرت کے حامل سائنس دان، اور ملتان یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر تھے۔ سائنس خصوصاً کیمسٹری کے طلبہ و طالبات کے لیے ان کی لکھی ہوئی کتابیں طویل عرصے تک رہنمائی کا باعث بنی رہیں گی، جبکہ پنجاب یونیورسٹی میں ان کے اقدامات نے اس تاریخی جامعہ کے چہرے اور ساکھ دونوں کو سنوار دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ذوالفقار علی بھٹو کے انقلابی خیالات کے باعث ان کی قربت حاصل تھی، اسی وجہ سے جناب بھٹو نے انھیں پہلے ملتان یونیورسٹی اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا۔ لیکن ان کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت، تدریسی و تحقیقی مہارت، انتظامی صلاحیت اور معاملہ فہمی کی خوبی کے باعث صدر ضیاء الحق نے نہ صرف انھیں آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا بلکہ دوسری مدت کے لیے بھی جامعہ پنجاب کا وائس چانسلر مقرر کیا، اور یہ میعاد پوری ہونے پر او آئی میں بطور ایڈیشنل سیکریٹری جنرل ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب 1976ء سے 1984ء تک جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر رہے۔ ان کے دور کے آخری دنوں میں جب مارشل لا حکومت نے طلبہ یونینوں پر پابندی لگائی تو پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے شدید مزاحمت کی۔ اُس وقت جناب امیرالعظیم پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے، اور اس حکومتی اقدام کے خلاف اُن کی قیادت میں روزانہ مظاہرے ہوتے تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے لیے ایک نازک مرحلہ تھا، انھوں نے اس احتجاج میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی لیکن طلبہ کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکے رکھا، چنانچہ بعد میں بھی جناب امیرالعظیم کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ احترام اور محبت کا تعلق رہا، اور ڈاکٹر صاحب ان ہی کی درخواست پر ایک نجی یونیورسٹی کی سربراہی کے لیے آمادہ ہوئے تھے۔
ڈاکٹر خیرات 1882ء میں پنجاب یونیورسٹی کے قیام کے بعد اس کے 35 ویں وائس چانسلر بنے۔ وہ اس دانش گاہ کے 13 ویں مسلمان وائس چانسلر تھے۔ اس جامعہ کے پہلے مسلمان وائس چانسلر اکتوبر 1938ء میں خان بہادر افضل مقرر ہوئے تھے۔ ڈاکٹر خیرات نے اس عظیم جامعہ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں، انھیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ راقم کو بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو کسی اعزاز سے کم نہیں۔
یہ اپریل 2011ء کی بات ہے، راقم الحروف ایک بڑے نیوز چینل میں تھکا دینے والی مشقت کے بعد فراغت کے چند دن گزار رہا تھا کہ ایک مہربان دوست نے ایک نجی یونیورسٹی کے چیف ایگزیکٹو سے ملاقات کا اہتمام کرادیا۔ ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی یونیورسٹی میں ابلاغِ عامہ کا شعبہ قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور مجھے سربراہِ شعبہ کے طور پر کام کرنے کی پیش کش کی۔ میں فوری طور پر فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ انہوں نے اس سے بڑی پیش کش سامنے رکھ دی کہ ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا ان کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، اور مجھے ان کی سرپرستی میں تدریس کے علاوہ بطور افسر تعلقاتِ عامہ کام کرنے کا موقع ملے گا۔ اس پیش کش کو میں نے فوری طور پر قبول کرلیا، کہ ڈاکٹر خیرات کی زیر نگرانی کام کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ میں جن دنوں پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا ڈاکٹر صاحب اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، مگر میری اُن تک رسائی نہ تھی۔ وہ اکثر تقریبات میں آتے، طلبہ اور اساتذہ کو سبق آموز نصیحتیں کرتے اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ نکل جاتے۔ شاید ان کے لیے ایک لمحہ ضائع کرنا بھی مشکل تھا۔ ان کے پاس کام بھی بہت زیادہ تھا۔ ملک کی سب سے بڑی اور قدیم دانش گاہ کے تدریسی، علمی، تحقیقی اور انتظامی امور کے علاوہ طلبہ اور اساتذہ کے مسائل، نئے تدریسی شعبوں کا قیام، تحقیقاتی کام کی نگرانی، اور میڈیا اور عوام میں یونیورسٹی کی امیج بلڈنگ کوئی آسان کام نہیں تھے۔ یہ دور طلبہ سیاست کے عروج اور پھر انجماد کا دور تھا۔ طلبہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد باہمی سیاسی تقسیم کے علاوہ مارشل لا کے خلاف نبرد آزما تھے، ساتھ ہی طلبہ یونین پر پابندی کے حکومتی فیصلے کے خلاف بھی شدید احتجاج کررہے تھے۔ ایسے میں ڈاکٹر خیرات نے کمالِ ذہانت سے حکومت، طلبہ اور اساتذہ کو ساتھ لے کر یہ مشکل وقت گزارا۔ ایسے معاملہ فہم منتظم اور عالمی شہرت یافتہ سائنس دان کے ساتھ میرے کام کا آغاز انتہائی خوشگوار رہا۔ پہلے ہی دن انہوں نے چائے پر بلایا، میرے عزائم کو جانچا، ضروری اور مفید مشورے دیئے۔ پھر تقریباً ہر روز ڈاکٹر صاحب سے ملاقات رہنے لگی۔ ان ملاقاتوں میں مجھے ڈاکٹر صاحب کو انتہائی قریب سے دیکھنے، اُن کی ذات کو پرکھنے اور اُن کی زندگی کے نشیب و فراز جاننے کا موقع ملا۔ ان ہی ملاقاتوں میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق جموں و کشمیر کے علاقے بھدروا سے ہے جہاں وہ 1926ء میں پیدا ہوئے۔ ورنہ اپنے زمانۂ طالب علمی میں کیمسٹری کی تدریسی کتب پر اُن کا کام دیکھ کر میرا گمان تھا کہ یہ عرب دنیا کے کوئی سائنس دان ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے والد رسا جاودانی اردو اور کشمیری زبان کے مستند شاعر اورشیرِ کشمیر شیخ عبداللہ کے دوستوں میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول شیخ عبداللہ ایک بار بھدروا میں جلسہ کرنے آئے۔ جلسہ شروع ہی ہوا تھاکہ شدید بارش شروع ہوگئی جس کے جلد تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اچانک شیخ عبداللہ اسٹیج پر آئے اور تلاوتِ کلام پاک شروع کردی۔ ان کی خوش الحانی کا یہ عالم تھا کہ پورا مجمع جذب و کیف میں ڈوب گیا۔ اور پھر تلاوت جاری تھی کہ بارش تھم گئی۔
شیخ عبداللہ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا تھا۔ ڈاکٹر خیرات نے جموں سے بی ایس سی کیا تو شیخ عبداللہ کے مشورے پر ہی وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم ایس سی کیمسٹری کرنے چلے گئے۔ ان کی ڈگری مکمل ہوئی تو برصغیر کی تقسیم ہوگئی اور ان کا خاندان پاکستان آگیا۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ اُن دنوں وہ دوستوں کے ساتھ سائیکل پر راولپنڈی اور مری کی سڑکوں پر گھوما کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرر شپ مل گئی، اور جلد ہی وہ اسکالرشپ پر امریکہ چلے گئے۔ 1959ء میں انہوں نے امریکہ کی براؤن یونیورسٹی سے آرگینک کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا۔ ان کی اہلیہ اور ایک دو چھوٹے بچے بھی ساتھ تھے۔ امریکہ میں قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب جس علاقے میں رہتے تھے بعد میں جب بھی انہیں امریکہ جانے کا موقع ملتا ڈاکٹرصاحب کی اہلیہ اپنے سابقہ محلے میں ضرور جاتیں اور محلہ داروں سے ملتیں۔ امریکہ سے واپسی پرڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی میں علم کیمیاکی تدریس و تحقیق کا کام دوبارہ شروع کردیا۔ غالباً انہیں 1973ء میں ملتان یونیورسٹی جو اب بہا الدین زکریا یونیورسٹی کہلاتی ہے، کا پہلا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ یہیں سے وہ 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوکر آئے اور 1984ء تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی علمی، تحقیقی، تدریسی و انتظامی ترقی اور انفرااسٹرکچر کے لیے انہوں نے دن رات ایک کیا۔ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کی موجودہ شکل صورت ان ہی کے دور میں بنی۔ شاید اسی وجہ سے حکومتی حلقوں میں ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔ جبکہ بیوروکریسی، جوڈیشری اور سیاسی و عسکری حلقوں میں ان کے شاگردوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ صدر ضیاء الحق مرحوم بھی ڈاکٹر صاحب کا احترام کرتے اور ان کی بات کو وزن دیتے تھے۔ چنانچہ 1984ء میں ان کی وائس چانسلری کی میعاد مکمل ہوئی تو انہیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی سربراہی، وزارتِ تعلیم میں مشاورت اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں اعلیٰ عہدے کی پیش کش کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے او آئی سی میں ایڈیشنل سیکریٹری جنرل کا عہدہ قبول کرکے رباط کو اپنا مرکز بنا لیا، اور اس عہدے پر کئی سال کام کیا۔ اسی حیثیت میں انہیں بھارت کا دورہ کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے بھارتی حکام سے اپنے آبائی وطن کشمیر جانے کی خواہش کا اظہار کیا، اور اس طرح ڈاکٹر صاحب طویل عرصے بعد اپنے بچپن اور جوانی کے دنوں کی یادیں ان ہی گلی محلوں میں جاکر تازہ کرسکے۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے الخیر یونیورسٹی اور لاہور لیڈز یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
ڈاکٹر صاحب اپنی ذاتی زندگی میں انتہائی مہذب اور وضع دار شخص تھے، اور بے پناہ مصروفیات کے باوجود اپنے کنبے کو پورا وقت دیتے تھے۔ میں اکثر ڈاکٹر صاحب سے سوانح عمری لکھنے کی درخواست کرتا، کہ ان کا سینہ سائنسی علوم کے علاوہ قیام پاکستان کی یادوں، ملک کے سیاسی مدوجزر، اقتدار کے ایوان میں اٹھنے والے طوفانوں، اور ملک میں اعلیٰ تعلیم کی راہ میں حائل مشکلات کا خزینہ تھا۔ مگر وہ ٹال جاتے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے والد کی ادبی حیثیت اور خدمات پر تحقیقی کام کرانا چاہتے تھے، جو نہ ہوسکا، اور آخرکار ہفتہ 6 جولائی کو 93 برس کی عمر میں ملک کی سب سے بڑی دانش گاہ کے 35 ویں رئیس الجامعہ بیش بہا معلومات اور تجربات کوساتھ لیے اپنے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ جناب رؤف طاہر کے فون سے ان کے انتقال کی خبر ملی تو ان کی جدائی کے غم کے ساتھ مجھے یہ دکھ بھی درپیش تھا کہ کاش ڈاکٹر صاحب آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لیے اپنے تجربات اور تجاویز محفوظ کرا جاتے۔