گوگل کا ڈیجیٹل اسسٹنٹ کی ریکارڈنگز سننے کا اعتراف

گوگل نے آرٹی فیشل (مصنوعی ذہانت) پر مبنی ڈیجیٹل گوگل اسسٹنٹ پر صارفین کی وائس ریکارڈنگ سننے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ اعتراف اُس وقت کیا گیا جب گزشتہ دنوں ڈچ زبان میں گوگل اسسٹنٹ کی مختلف ریکارڈنگز بیلجیم کے ایک براڈ کاسٹر ادارے وی آر ٹی این ڈبلیو ایس نے لیک کیں۔ وی آر ٹی کا اپنی رپورٹ میں دعویٰ تھا کہ بیشتر ریکارڈنگز شعوری طور پر تیار کی گئیں، مگر گوگل ایسی گفتگو بھی سنتا ہے جو کہ ریکارڈ نہیں ہوتی اور اس میں حساس معلومات بھی ہوسکتی ہیں۔ وی آر ٹی نے ایک ہزار سے زائد ریکارڈنگز لیک کی تھیں جو کہ گوگل ہوم اور گوگل اسسٹنٹ ایپ کی تھیں جو صارفین کے مختلف سوالات اور سرچز پر مشتمل تھیں۔ وی آر ٹی کے مطابق گوگل اسسٹنٹ پر مبنی ڈیوائسز گفتگو اور گھروں کے اندر مالکان کی آوازیں ریکارڈ کرکے ان میسجز کو انسانوں (گوگل کے عملے) کو ریویو کے لیے بھیجتا ہے۔گوگل ہوم اُن متعدد ڈیوائسز میں سے ایک ہے جن میں گوگل اسسٹنٹ موجود ہوتا ہے، اور یہ ڈیجیٹل اسسٹنٹ لگ بھگ ہر اینڈرائیڈ فون میں بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیک میں سب سے حیران کن یا پریشان کردینے والا امر یہ ہے کہ بیشتر ریکارڈنگز میں صارفین نے وہ جملہ کہا ہی نہیں جو گوگل اسسٹنٹ کو متحرک کرتا ہے، یعنی Hey Google یا اوکے گوگل۔ وی آر ٹی کے مطابق ان لیکس ریکارڈنگز میں کچھ، جوڑوں کی خلوت کی گفتگو پر مبنی تھی، کچھ میں والدین اور بچوں کی بات چیت ہے، جبکہ ایسی اہم فون کالز بھی ہیں جن میں بہت زیادہ نجی معلومات موجود ہیں۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ گھر میں جو کچھ آپ کرتے یا بولتے ہیں وہ سب کچھ ریکارڈ ہوسکتا ہے۔گوگل نے ایک بلاگ پوسٹ میں لیک کی تصدیق کرتے ہوئے اس کا الزام ویڈیو کے ریویو کرنے والے ایک فرد پر لگادیا۔ گوگل کے مطابق ’’ہماری سیکورٹی اور پرائیویسی ریسپانس ٹیمیں اس معاملے پر متحرک ہوگئی ہیں اور تحقیقات کررہی ہیں، جس کے بعد ہم ایکشن لیں گے، ہم اس طرح کی حرکت کو روکنے کے لیے اپنے اقدامات پر مکمل نظرثانی کریں گے‘‘۔ گوگل کے بیان میں صارفین کو یقین دلایا گیا کہ انسانوں کو یہ آڈیو ریکارڈنگز ٹرانسکرپشن کے لیے بھیجی جاتی ہے اور ریویو کا عمل صارف کے اکائونٹ سے جڑا نہیں ہوتا۔ تاہم وی آر ٹی کو ریکارڈنگز کے مواد سے کچھ افراد کو شناخت کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ جہاں تک کسی مخصوص جملے یعنی اوکے گوگل کے بغیر گوگل اسسٹنٹ کی جانب سے ریکارڈنگ کرنے کی بات ہے تو اس معاملے پر کمپنی نے گول مول جواب دیا۔ بیان کے مطابق ’’بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ گوگل اسسٹنٹ والی ڈیوائسز کو ایک تجربہ ہوتا ہے جسے ہم ‘false accept’کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ پس منظر کی کچھ آوازوں یا الفاظ کو ہمارا سافٹ وئیر ہاٹ ورڈ (جیسے اوکے گوگل) کے طور پر لیتا ہے، ہم نے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے گوگل ہوم میں متعدد حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔
ویسے یہ ڈیجیٹل اسسٹنٹ اتنے بھی اسمارٹ نہیں اور انہیں اب بھی انسانی مدد درکار ہوتی ہے، تو اگر آپ اپنی نجی زندگی کی گفتگو کو دور رکھنا چاہتے ہیں تو گوگل اسسٹنٹ کو اپنے فون سے ڈس ایبل کردیں، ورنہ جیسا ہے ویسا چلنے دیں۔

اینڈرائیڈ ایپس: آپ کی اجازت کے بغیر ڈیٹا رسائی رکھتی ہیں

اینڈرائیڈ ایپس میں آئے دن جاسوس اور مشکوک ایپس اور پروگراموں کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ گوگل پلے اسٹور پر کم ازکم 1000 ایسی ایپس ہیں جو آپ کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کررہی ہیں خواہ آپ اس کی اجازت دیں یا نہ دیں۔ فیڈرل ٹریڈ کمیشن امریکہ کے ذیلی ادارے ’’پرائیویسی کون‘‘ نے کہا ہے کہ گوگل پلے اسٹور پر 1,325 ایپس ایسے کوڈ کی حامل ہیں جو صارف کی اجازت نہ ملنے کے باوجود بھی اس کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کررہی ہیں۔ یہ ایپس وائی فائی اور میٹا ڈیٹا کے ذریعے صارف کی شناخت اور محلِ وقوع تک رسائی حاصل کرسکتی ہیں۔ بعض ایپس کو اجازت نہ ملے تو وہ کسی ایسی ایپ کا حصہ بن جاتی ہیں جسے ڈیٹا اور تصاویر تک اجازت مل جاتی ہے، اور اس کے بعد وہ فون میں لگے ایس ڈی کارڈ تک کا ڈیٹا حاصل کرلیتی ہیں۔ رپورٹ کے بعد گوگل نے حسبِ عادت وعدہ کیا ہے کہ وہ ان ایپس کا جائزہ لے گا اور اگلے اینڈرائیڈ سسٹمز میں مزید سخت اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ تاہم بعض ایپس ہم سے اجازت طلب کرتی ہیں کہ وہ دیگر پلیٹ فارم کو دیکھنا چاہتی ہیں جن میں گوگل اور فیس بک سرِفہرست ہیں۔ لیکن ایپل کا معاملہ مختلف ہے۔ اپنے نئے آئی او ایس سسٹم میں سیکورٹی اپ ڈیٹ کے بعد اب خود ایپل آپ کو آگاہ کرے گا کہ کون سی ایپ ان پر نظر رکھے ہوئے ہے اور کون ان کا پتا معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

ہندوستان سے ایک ارب 36 کروڑ روپے سے زائد کی ادویہ درآمد

وزارتِ صحت کے مطابق بھارت سے گزشتہ برس ایک ارب 36 کروڑ 99 لاکھ 82 ہزار سے زائد مالیت کی ادویہ اور ویکسین درآمد کی گئیں۔ درآمد کی گئی ادویہ میں جان بچانے والی ادویہ کے علاوہ بڑی مقدار میں ٹیبلٹس، سیرپ، انجیکشن اور ویکسین بھی شامل تھیں۔گزشتہ برس بھارت سے جنوری میں 15 کروڑ 43 لاکھ 17 ہزار، فروری میں 22 کروڑ32 لاکھ 47 ہزار، مارچ میں 19 کروڑ 21 لاکھ 37 ہزار، اپریل میں 11 کروڑ 10 لاکھ 42 ہزار، مئی میں 18 کروڑ 96 لاکھ47 ہزار، اور جون میں 4 کروڑ 89 لاکھ 12 ہزار سے زائد مالیت کے ادویہ اور ویکسین درآمد کی گئیں۔ اسی طرح جولائی میں بھارت سے 16 کروڑ 77 لاکھ 73 ہزار، اگست میں 4 کروڑ 42 لاکھ 54 ہزار، ستمبر میں 6 کروڑ 90 لاکھ 54 ہزار، اکتوبر میں 5 کروڑ 10 لاکھ 73 ہزار، نومبر میں 3 کروڑ 77 لاکھ 78 ہزار، اور دسمبر میں 8 کروڑ 7 لاکھ 43 ہزار روپے سے زائد کی ادویہ درآمد کی گئیں۔