حسد

بلاشبہ حسد کا مسابقت سے گہرا تعلق ہے۔ ہم اس خوش نصیبی سے حسد نہیں کرتے جسے ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری پہنچ سے پوری طرح باہر ہے۔ جس زمانے میں معاشرتی طبقے متعین ہوں تو کم ترین طبقے خود سے بلند تر طبقوں سے حسد نہیں کرتے۔ البتہ وہ اُن گداگروں سے ضرور حسد کرتے ہیں جو ان سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں معاشرتی عدم استحکام، جمہوریت کے مساواتی نظریات اور سوشلزم نے حسد کو بہت وسعت دی ہے۔ سرِدست تو یہ ایک بدی ہے، لیکن یہ وہ بدی ہے جسے اُس وقت تک برداشت کرنا پڑے گا جب تک کہ معاشرتی نظام منصفانہ بنیادوں پر قائم نہیں ہوجاتا۔ جب عدم مساوات پر عقلی لحاظ سے غور و فکر کیا جاتا ہے تو یہ بات بے انصافی پر مبنی لگتی ہے۔ البتہ اگر کسی برتر خوبی کی بنا پر ہو تو ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ جب عدم مساوات بے انصافی پر مبنی ہو تو اس کے نتیجے میں حسد کا کوئی علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ بے انصافی کو دور کردیا جائے۔ اس لیے ہمارے عہد میں حسد بہت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ غریب امیروں سے حسد کرتے ہیں۔ نادار قومیں متمول قوموں سے حسد کرتی ہیں۔ عورتیں مردوں سے حسد کرتی ہیں۔ اچھی عورتیں اُن عورتوں سے حسد کرتی ہیں جو اچھی تو نہیں ہوتیں لیکن سزا سے بچ رہتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ حسد مختلف طبقوں، مختلف قوموں اور مختلف جنسوں کے درمیان انصاف کی طرف لے جانے والی سب سے بڑی قوتِ محرکہ ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ حسد کے نتیجے میں جس نوع کا انصاف میسر آئے گا وہ بدترین قسم کا ہوگا۔ یہ انصاف ایسا ہے کہ جس میں بدنصیب لوگوں کی خوشیاں بڑھانے کے بجائے خوش نصیب لوگوں کی خوشیاں کم کردی جاتی ہیں۔ ذاتی زندگی کو پامال کرنے والے جذبات ہی معاشرتی زندگی میں بھی فساد پھیلاتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حسد جیسی برائی سے اچھے نتائج پیدا ہوں گے۔ اس لیے وہ لوگ جو تصوراتی وجوہات کی بنا پر معاشرتی نظام میں گہری تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں اور معاشرتی انصاف کے خواہاں ہیں اس بات کو ضرور مدنظر رکھیں کہ ایسی تبدیلیاں حسد کے بجائے دوسری محرک قوتوں کے ذریعے لائی جا سکتی ہیں۔
تمام برائیاں باہمی طور پر منسلک ہوتی ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک کسی دوسری کا سبب بن سکتی ہے۔ اکثر اوقات تھکن حسد کا سبب ہوتی ہے۔ ایک شخص جب خود کو اپنا کام کرنے سے قاصر پاتا ہے تو وہ عمومی بے اطمینانی محسوس کرتا ہے۔ یہ بے اطمینانی اُس کے لیے اُن کے خلاف حسد کا باعث بنتی ہے جن کا کام تھکانے والا ہوتا ہے۔ اس لیے حسدکم کرنے کے طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ تھکن کم کی جائے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسی زندگی گزاری جائے جو جبلی طور پر آسودہ ہو۔ زیادہ تر حسد جو بظاہر پیشے سے متعلق معلوم ہوتا ہے، جنسی سوتے سے پھوٹتا ہے۔ جو شخص بیوی بچوں کے ساتھ خوشی کی زندگی گزارتا ہے وہ دوسروں کی کامیابی اور دولت سے کم ہی حسد محسوس کرتا ہے، بشرطیکہ اس کے پاس اتنا کچھ ہو کہ اپنے بچوں کی اس طریقے سے پرورش کرسکے جسے وہ صحیح سمجھتا ہے۔ مسرت کے لوازمات سادہ ہوتے ہیں، اتنے سادہ کہ جدید لوگوں کو یہ باور نہیں کرایا جاسکتا کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے ہم نے جن خواتین کا ذکر کیا تھا وہ ہر خوش پوش خاتون کو حسد کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ان کے متعلق یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی جبلی زندگی ناآسودہ ہے۔ انگریزی بولنے والی دنیا میں اور خصوصاً خواتین میں جبلی مسرت ناپید ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس سلسلے میں تہذیب اپنی راہ سے بھٹک گئی ہے۔ حسد کم کرنے کے لیے ایسے ذرائع تلاش کرنے چاہئیں جن سے اس صورتِ حال کا مداوا ہوسکے۔ اگر ایسے ذرائع تلاش نہ کیے گئے تو دنیا نفرت کی بدحواسی میں تباہی کی طرف چلی جائے گی۔ پرانے وقتوں میں لوگ صرف اپنے پڑوسیوں سے نفرت کرتے تھے، کیونکہ ان کے سوا انہیں کسی اور کا علم نہیں تھا۔ آج تعلیم اور پریس کے ذریعے وہ ان انسانی طبقوں سے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں جن میں سے انفرادی طور پر وہ کسی سے بھی واقف نہیں۔ فلموں کے ذریعے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ امیر لوگ کن مذموم اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گندمی رنگ کے لوگ سفید فام لوگوں سے نفرت کرتے ہیں، اور سفید فام سیاہ فام لوگوں سے۔ یہ تمام تر نفرت پراپیگنڈے سے بھڑکائی جاتی ہے۔ یہ وضاحت سطحی سی ہے۔ لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ جب دوستانہ جذبات کی پراپیگنڈے کے ذریعے تشہیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو تب اتنی کامیاب نہیں ہوتی جتنی اُس وقت کامیاب ہوتی ہے جب نفرت کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں؟ اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ موجودہ تہذیب نے انسانی دل کو ایسا بنادیا ہے کہ وہ دوستی کے بجائے نفرت کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے۔ یہ نفرت کی جانب مائل ہوتا ہے کیونکہ یہ غیر مطمئن ہے، کیونکہ یہ شعوری اور شاید لاشعوری طور پر بھی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے کہ اس نے کسی نہ کسی طرح زندگی کا مقصد کھو دیا ہے، اور ہمارے سوا دوسروں کو فطرت نے وہ نعمتیں بخشی ہیں جو انسانی مسرت کے لیے ضروری ہیں۔
[تسخیرِ مسرت۔ برٹرینڈرسل، مترجم پروفیسر محمد بشیر]

طالب علم

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں!۔
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے، مگر صاحبِ کتاب نہیں!

(1) اے نوجوان! جو طلب ِ علم میں لگا ہوا ہے، تیرے لیے میری دعا ہے کہ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے۔ تو اگرچہ سمندر ہے، لیکن تیری لہروں میں مجھے کوئی بے تابی اور بے قراری نظر نہیں آتی۔ ایسا سمندر ہونے سے کیا حاصل جس میں موجیں ایک دوسرے سے ٹکرا نہ رہی ہوں؟ یہ حالت اُسی وقت پیدا ہوسکتی ہے کہ سمندر میں طوفان آجائے۔
اقبال اس شعر میں نوجوان سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تیرے دل میں نہ کسی بلند مقصد کی آرزو ہے، نہ عشقِ حق کا کوئی جذبہ نظر آتا ہے۔ دعا یہی ہے کہ خدا یہ چیزیں تجھے عطا کردے۔
(2)تُو کتابیں پڑھنے اور رٹنے میں لگا رہتا ہے اور اس سے تجھے فراغت نہیں ملتی۔ تُو ’’کتاب خواں‘‘ بن گیا، مگر ’’صاحب ِکتاب‘‘ نہ بنا۔
صاحب ِکتاب سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص جس کے سامنے کتابوں کے مطالب اس طرح روشن ہوں جیسے وہ کتابیں خود اس نے لکھیں۔ ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تُو غیروں کے علوم کی کتابیں تو پڑھ گیا، لیکن الہامی کتابوں سے فیض حاصل نہ کیا۔