گھریلو حالات کی خودکشی

۔1999ء کا آغاز خودکشی کی خبروں سے ہوا۔ جنوری کو غربت سے تنگ آئے لوگوں کی خودکشی کا مہینہ قرار دیا گیا، اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فروری گھریلو حالات اور ناچاقیوں کے مارے لوگوں کی خودکشی کا مہینہ ہے۔ فروری کا ایک ہفتہ نہیں گزرا کہ اس طرح کی خودکشی کی کئی اطلاعات شائع ہوئی ہیں۔ پنجاب میں چار مختلف مقامات پر چار عورتوں نے اس بنا پر خودکشی کی۔ لاہور میں شیخ زید اسپتال کے ڈاکٹر نے موت کا انجکشن لگالیا۔ اس کا گھر میں اور دفتر میں اکثر لوگوں سے جھگڑا رہتا تھا اور دوستوں کی بے وفائی کا رنج تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کی خودکشی کے واقعات کیوں بڑھتے جارہے ہیں؟ غربت کی بنا پر خودکشی سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہ بھی خودکشی کی حقیقی وجہ نہیں۔ اسکینڈے نیوین ممالک میں جہاں خوشحالی ہے، خودکشی کی شرح ہم سے بہت زیادہ ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں عورتیں جہیز کم لانے کے طعنوں سے تنگ آکر خود سوزی کرلیتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے پاس کہیں بھی جہیز وجہ خودکشی نہیں ہے، لیکن گھریلو جھگڑے عام ہیں اور چولہا پھٹنے یا چولہے سے عورتوں کے جلنے کے واقعات میں بھی خودکشی کا شبہ ہوتا ہے، اور عورتیں ہی نہیں مرد بھی خودکشی کرتے ہیں، اور جوان مرد بھی کہیں امتحان میں ناکامی پر اور کہیں گھر میں اپنے نکمے پن کے طعنے سن سن کر مر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بال بچوں والے سن رسیدہ لوگ بھی ہیں جو گھریلو جھگڑوں سے تنگ آکر موت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا کیا علاج ہے؟ پہلے مرض کی تشخیص ہونی چاہیے، اور یہ مرض شخصی ’’اَنا‘‘ کا ہے، مغربی تہذیب نے سب کو ذات پرست بنادیا ہے، ہر ایک کی ’’انا‘‘ طاقتور ہے اور اتنی نازک بھی کہ ذرا سی ٹھیس پر ٹوٹ جاتی ہے، کوئی دوسرے کے جذبات و احساسات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، کیونکہ ہر ایک صرف اپنے جذبات و احساسات کو اہم سمجھتا ہے اور اس سے آگے کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ یہ نظریہ حیات اب نہیں رہا کہ ہمارا وجود دوسروں کے لیے ہے، انہیں ہماری ذات سے نفع اور اطمینان حاصل ہونا چاہیے۔ اب نظریہ یوں ہوگیا ہے کہ دنیا میرے لیے بنی ہے، مجھے سب سے نفع حاصل کرنا چاہیے اور سب کو میرے اطمینان و آرام کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھیں کہ دوسروں کا بھی دل ہے، دماغ ہے، ان کے محسوسات کو سمجھنا اور ان سے ایسا برتائو کرنا کہ وہ ہم سے مطمئن رہیں، ہمارا فرض ہے تو کشیدگی پیدا نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب گھر کا ہر فرد اپنی دنیا الگ بنالے اور کوئی کسی کی دنیا میں شریک نہ ہو، اور نہ کسی کو اپنی دنیا میں شریک کرے تو گھرانہ پُرسکون نہیں رہ سکتا، لازماً آپس کا ٹکرائو پیدا ہوگا۔ جہاں چند برتن ہوتے ہیں وہاں آپس میں وہ کھنکتے ہی ہیں، لیکن طبیعتوں میں مناسبت اور مطابقت پیدا کرنے کی کوشش ہو تو یہ کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔ مسئلہ صرف گھروں کا ہی نہیں ہے، بڑے بڑے اداروں کا بھی ہے جہاں یہ مناسبت اور مطابقت پیدا کرنے کا اہتمام نہیں ہوتا، ہر ایک اپنی پسند دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح سے جو ٹکرائو پیدا ہوتا ہے اس نے خاندان بھی تباہ کیے ہیں اور بڑے بڑے ادارے بھی۔ اس نے بھائی کو بھائی سے جدا کردیا، میاں بیوی کی راہیں الگ ہوگئیں، بچے والدین کے مقابل آگئے، کاروباری حصے داروں میں مقدمہ بازی ہوگئی، کوئی خود مر گیا اور کسی نے دوسرے کو مار دیا۔ یہ سب ’’انا‘‘ کا کھیل ہے، ذات پرستی کا شر ہے کہ ہم اپنی ذات کو مرکز و محور بنا کر سوچتے ہیں، اور یہی غلط بات ہے جو غلط نفسیات پیدا کرتی ہے، اس سے دوسروں کے لیے حقیقی احترام نہیں پیدا ہوتا، سب یہ سمجھتے ہیں کہ منافقت برتی جارہی ہے، اصل میں ہمیں حقیر سمجھا جارہا ہے، ہمیں نظرانداز کیا جارہا ہے، ہمارے حقوق مارے جارہے ہیں۔ لیکن جب ہم میں سے ہر ایک دوسرے کا وجود محسوس کرے، اُسے مطمئن کرنا اپنا فرض سمجھے تو یہ صورت پیدا نہیں ہوسکتی۔ گھریلو بے اطمینانی کی جڑ یہ ہے کہ بڑوں کے رویّے میں چھوٹوں کے لیے شفقت کی جھلک نہ ہو اور صرف غرور و تحکم ہو، اور چھوٹوں کی روش میں بزرگوں کو ادب و احترام نظر نہ آئے، وہ اپنی تذلیل محسوس کریں۔ ایک مسئلہ مفادات کا بھی ہے، لیکن یہ حدیث ِ نبویؐ یاد رہے کہ ’’جو تم اپنے لیے چاہتے ہو وہی اپنے بھائی کے لیے چاہو‘‘ تو مفاد پرست ذہنیت کا فساد نہیں ہوسکتا۔ ضرورت ایک دوسرے سے محبت کی ہے۔ لیکن جب حسد کے جذبات کارفرما ہوتے ہیں تو یہ محبت کی جڑ کاٹ دیتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اپنا بڑا پن دکھا کر دوسروں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس سے نفسیاتی بے چینی کی آگ لگتی ہے، یہ آگ کسی کو نہ جلائے تب بھی اندر ہی اندر سلگتی رہے گی اور ہر کوئی اس کی جلن کا شکار ہوگا۔ سب سے زیادہ فساد زبان پیدا کرتی ہے، اس کے زخم کبھی نہیں بھرتے، اس زبان کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے، اور غصے کو حرام سمجھ کر اس کو اپنے اوپر طاری نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹا ہو یا بڑا، اپنا ہو یا پرایا، ہر ایک سے برتائو میں نرمی اور شائستگی ہونی چاہیے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص خدا کے بندوں کے لیے نرم ہے، خدا اس سے بھی نرمی کا سلوک کرتا ہے۔ اور جو دنیا کے لیے سخت ہے اس کے لیے دنیا بھی سخت دل ہوجاتی ہے۔
گھریلو سکون بڑی نعمت ہے۔ اور جس قدر کوشش آپ روپے پیسے، زمین جائداد کے لیے کرتے ہیں کم از کم اتنی کوشش گھر کے سکون کے لیے بھی کرنی چاہیے۔ گھریلو سکون اپنے آپ پیدا نہیں ہوگا، اس کے لیے اپنے مزاج پر قابو پانا سیکھنا ہوگا، اور گھریلو سکون کے ماحول میں آپ کی جو اولاد پرورش پائے گی اس کی نفسیات بھی صحیح ہوگی۔ ورنہ گھریلو بے چینی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اگر وہ اسی طرح بڑھتی چلی جائے تو خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا، اور لوگ گھر میں سکون نہ پاکر باہر کی دنیا میں سکون حاصل کرنے کے لیے ہر لعنت میں پناہ ڈھونڈیں گے۔ اس لیے گھروں کو پُرسکون بنانے کے لیے اس دور میں خاص کوشش کی ضرورت سمجھنی ہوگی۔
لاہور میں خودکشی کے موضوع پر ایک مجلس مذاکرہ میں یہ خیال ظاہر کیا گیاکہ خودکشی کے واقعات میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سعد بشیر نے خودکشی کے حوالے سے باقاعدہ ریسرچ کی ضرورت ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ دینی اقدار نظرانداز ہونے کی وجہ سے ہی خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر سعید نے کہا کہ جدید ریسرچ کے مطابق خودکشی کرنے سے پہلے ہر شخص کم از کم کسی ایک جدید ادارے یا ایسے شخص سے ملاقات ضرور کرتا ہے جسے وہ اپنا ہمدرد سمجھتا ہے اور اسے اس سے صحیح مشورے یا مدد کی توقع ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نسرین اختر نے کہاکہ خودکشی کرنے والے معاشرے کی بے حسی کے خلاف ایک احتجاج ہیں، لوگ ایک دوسرے کے دکھ سُکھ میں شریک نہیں ہوتے۔
مذہب میں کمزور انسان کو سہارا دینے والی ایک چیز ’’دعا‘‘ ہے۔ یہ برے حالات میں بھی امید کا چراغ روشن کرتی ہے اور مایوسی دور کرتی ہے۔ اگر انسان کا خدا پر یقین ہو اور وہ دعا سے طاقت حاصل کرے تو خودکشی کے بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ اور دعا صرف اپنے لیے نہیں ہونی چاہیے، دوسروں کے لیے بھی ہونی چاہیے، اور جب آپ گھر اور خاندان کے تمام لوگوں کے لیے دعا کرتے ہیں تو آپ کے دل میں اُن کے خلاف غصہ باقی نہیں رہ سکتا جو گھریلو جھگڑے پیدا کرتا ہے۔
۔( 12تا18 فروری1999ء)۔